الیکشن ود سلیکشن   

پاکستان کے عوام ذہنی اذیت کا شکار ہے، دال، چاول، آٹا، تیل اور چینی چوری ہونے کے چرچے سالہا سال سے ہورہے ہیں


Naseem Anjum March 03, 2024
[email protected]

پاکستان کے عوام ذہنی اذیت کا شکار ہے، دال، چاول، آٹا، تیل اور چینی چوری ہونے کے چرچے سالہا سال سے ہورہے ہیں، عوام کے منہ سے روٹی کانوالہ چھینا جار ہا ہے ، سابق وزراء نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس الیکشن میں ہم ہارچکے ہیں، بعض نے جیتنے والی جماعت کو مبارکباد بھی پیش کی ہے۔

ہر جگہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹر کا جوش وخروش دیدنی تھا ، بزرگ اور معذور شہری اپنا حق رائے دہی کو استعمال کرنے کے لیے قطاروں میں لگے ہوئے تھے، ووٹر خواتین مستعد اور خوش وخرم نظر آرہی تھیں، حتیٰ کہ پولنگ اسٹیشن میں انتخابی افسران پر امید تھے وہ اطمینان وسکون کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے تھے ، پولیس اہلکاروں نے اپنی ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھایا، کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔

سوائے چند ایک پولنگ اسٹیشن پر لڑائی جھگڑے اور فائرنگ کے واقعات ضرور رونما ہوئے ، باقی خیر وخوبی کے ساتھ الیکشن اپنے انجام کو پہنچا، لیکن اس وقت جیتنے والوں کی خوشیوں اور کامیابیوں کو گہن لگانے کی کوشش کی گئی ، اہم لوگوں نے چرائی ہوئی کامیابی کو ٹھکرا دیا اوراپنی ہار مان لی ، کچھ کی آڈیوز لیک ہوگئیں ۔ پاکستان کے جو حالات ہیں ان سے پوری دنیا واقف ہوچکی ہے۔ پچھلے دنوں ایک بزرگ خاتون کو پولیس اہلکار نے زوردار طمانچہ مارا ، گال پر تھپڑ جڑ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، اسلا م نے عورت کو عزت و منزلت عطا کی ہے اور سورۃ النساء میں عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

دینی تعلیمات اور انسانی جذبوں سے نا آشنا لوگوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ، پاکستان کے غریب اور بے بس لوگ تعلیم سے محروم ہیں، سڑکوں پر بے مقصد گھومتے اور جرائم کرتے نظر آتے ہیں ، اس معصوم بچی کی زندگی کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں، اس کی یہ خطا تھی کہ اس نے عربی کیلی گرافی سے مزین شرٹ زیب تن کی تھی ، عربی میں اس کا مطلب ''حلوہ '' تھا ، اب حالات اتنے تشویشناک ہوچکے ہیں کہ کسی کی خیر نہیں، بروقت مشتعل ہجوم سے بہادر خاتون اے ایس پی شیر بانو نقوی نے عورت کو حفاظت سے نکال لیا ، یہ بہت بڑا کارنامہ تھا ، جس پر انہیں گولڈ میڈل دینا ان کا حق بنتا ہے۔

اس سے قبل بھی اس ہی طرح کے واقعات سامنے آ تے رہے ہیں، بنا ء سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے لوگوں کا ہجوم مارنے مرنے پر تل جاتا ہے ، جس کی جتنی طاقت اور اختیارات ہیں وہ اتنا ہی کام کررہا ہے ، منفی یا مثبت سوچ اور عمل کے ذریعے کارکردگی سامنے آجاتی ہے ، ہمارے ملک کے حکمران بحیثیت انسان یہ جانتے ہوئے بھی زندگی کا سونا بہت جلد ماند پڑنے والا ہے اور بہار رخصت ہوئی جاتی ہے اور خزاں سر پر کھڑی دستک دے رہی ہے۔

زندگی کے دس پندرہ سال کس نے دیکھے ہیں، جب پچاس ساٹھ برس گزر گئے ، پتہ نہیں چلا تو بقیہ دن بھی یوں ہی بیت جائیں گے تو پھر ان حقائق کی روشنی میں اپنے آپ کو سدھار لیا جائے ، کامیابی اور دولت کی ہوس نے انھیں گھیر رکھا ہے ، پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ ان کی کامیاب جماعت ہے ، عوام کا سب سے زیادہ مینڈیٹ ان کے پاس ہے، حالانکہ انھیں انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا تھا،لیکن اس کے باوجود وہ سب سے زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہوگئے ۔

کیا ہی اچھا ہو کہ یہ ہم فلسطین کی طرف دیکھیں ، غزہ کے حالات نے مسلمانوں کو ہی نہیں غیر مسلموں کو بھی تڑپا کر رکھ دیاہے ، کل کا ہی واقعہ ہے جب دردمندی اور انسانیت کی روشن مثال سامنے آئی ہے ، امریکی فضائیہ کے اہلکار بشنیل نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ، انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا کہ میں غزہ میں ہونے والی نسل کشی کا مزید حصہ نہیں بنوں گا۔

انہوں نے اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے اپنے جسم پر پٹرول ڈال کر آگ لگالی اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ، لیکن ہمارے لوگ بے حس ہوچکے ہیں ، ابھی عہدوں کی بندر بانٹ مزید باقی ہے ، سندھ ہائی کورٹ کے جج نے درست کہا کہ'' اگر یہ ہی کچھ کرنا تھا تو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عہدے تقسیم کرلیے جاتے ، اربوں روپے کیوں ضائع کردیے گئے ۔''

شہر کراچی میں روز نوجوان معمولی باتوں پر قتل کردیے جاتے ہیں، گھروں کے چراغ گل ہورہے ہیں مقتولین کے والدین صدمے سے موت کی طرف گامزن ہیں ، لیکن ہمارے سیاستدانوں کو صرف اور صرف اقتدار کی ہوس ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ گئی ہے ، ایسے رویوں پر عدلیہ خاموش ہے ۔ مرے کو مارے شاہ مدار، بس ایسا ہی معاملہ ہر شخص کو درپیش ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔