پاکستان میں مہنگائی کا سونامی آنے والا ہے

پرائیوٹائزیشن سے عوام کی ایک بڑی تعدادبیروزگار ہوکرسڑکوں پرآجائے گی ایسی مہنگائی ہوگی جوعوام نے نہ کبھی دیکھی سنی ہوگی


Zamrad Naqvi February 19, 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

امریکا میں سرمایہ کاری اور مالیاتی امور کے حوالے سے مشاورتی خدمات دینے والی ایک بڑی کمپنی فرانوٹمنٹس نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام بڑی معیشتیں اپنی ''مالی موت''کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

کمپنی کے سربراہ نے امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی ایک دہائی''مشکل قرضہ جات کی دہائی''ہوگی۔ قرض لینے کے بحران نے ترقی یافتہ اور ابھرتے ممالک کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے اور اس بحران کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی قرضہ جات میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ ستمبر میں یہ حد 3ہزار ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچی ہے۔

یہ صورت حال گزشتہ چالیس برسوں میں عالمی شرح سود میں سب سے زیادہ اضافے کے موقع پر سامنے آئی ۔امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ملکوں میں قرضوں میں اضافے کی شرح بے قابو ہو چکی ہے اور عالمی قرضہ جات میں انھی ممالک کا قرضہ 80فیصد سے زائد ہے۔

ابھرتی مارکیٹوں کو دیکھیں تو چین بھارت اور برازیل نے سب سے زیادہ قرضے لیے ہیں۔ کمپنی کے سربراہ آرتھر لافر کا کہنا ہے کہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اپنے قرضوں کے مسائل حل نہ کرنے والے کچھ بڑے ممالک سست نمو کا شکار ہو کر اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے جب کہ کچھ ابھرتی معیشتیں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔

بری خبر یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں جاپان اور برطانیہ 2023کے دوسرے نصف میں سرد بازاری کا شکار ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف جاپان کی معیشت غیر متوقع طور پر گراوٹ کا شکار ہو کر اس کی GPDگزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں3.3فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ جب کہ برطانوی معیشت میں گراوٹ اس سال میں آنے والی ہے۔ جواعداد و شمار جاپان کی کابینہ نے دیے ہیں اس کے مطابق جاپان عالمی معیشتوں میں اپنی تیسرے نمبر کی پوزیشن کھو چکا ہے۔

اب وہ دنیا کی تیسری بڑی عالمی معیشت نہیں رہا۔ گزشتہ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ اب جرمنی برطانیہ کی جگہ تیسری بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔

برطانوی جریدے اکنامسٹ کے معاشی تجزیہ نگار نے بی بی سی کو بتایا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کہ جاپانی معیشت کی قدر4.2 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے جب کہ اس کے مقابلے میں جرمن معیشت کی قدر2023میں 4.4 ٹریلین ڈالر رہی۔ آئی ایم ایف کی ڈپٹی ہیڈ گیتا گوپی ناتھ نے ایک پریس کانفرنس نے اس کی اہم وجہ یہ بتائی کہ جاپانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ سال 9فیصد تک گرگئی۔

برطانیہ کے لیے بھی برا ٹائم شروع ہونے والا ہے۔ گزشتہ سال میں اس کی GDP 0.3فیصد رہی۔ اور گزشتہ سال ہی جولائی سے ستمبر کے درمیان اس کی معیشت 0.1فیصد سکڑ گئی۔ جب کہ اسڑلنگ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کمزور رہا۔ گزشتہ ہفتے جو ڈیٹا ریلیز ہوا ہے اس کے مطابق برطانیہ اور جاپان جو گروپ آف سیون کہلاتے ہیں کو سردبازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کنزرویٹو پارٹی پچھلے سترسالوں سے زیادہ تر اقتدار میں رہی ہے اب معاشی معاملات میں عوام لیبر پارٹی پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی عوام کا پہلی مرتبہ معیار زندگی گرا ہے۔

اب پاکستان کی طرف آجاتے ہیں۔ جب دنیا کی اتنی بڑی معیشتیں اتنے بڑے بحران میں ہیں تو اس کا اثرلامحالا پاکستان پر بھی پڑے گا۔ نئی حکومت بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔

عوام پر مزید ٹیکسوں کی بھر مار ہوگی۔ عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ پرائیوٹائزیشن سے عوام کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو کر سڑکوں پر آجائے گی۔ ایسی مہنگائی ہوگی جو عوام نے نہ کبھی دیکھی سنی ہوگی۔ عوام اگلے دو سال کسی بھی ریلیف کو بھول جائیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتیں۔ اس دفعہ اتنے زیادہ بجلی کے بل آئیں گے کہ عوام پنکھے چلانا بھی بھول جائیں گے۔ ایرکنڈیشنر کا تو عام آدمی کو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے صنعت کار فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح بے روزگاری غربت مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ سیاست دانوں کی طرف سے انتخابات میں کیے گئے وعدے سبز باغ ہی رہیں گے۔ انتخابی نتائج کے پیش نظر مستقبل میں ممکنہ سیاسی بحران کے نتیجے میں ڈیفالٹ کا خطرہ خدانخواستہ پھر منڈلا سکتا ہے۔ ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق آیندہ جون تک پاکستان کو 28ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

عالمی بینک نے حکومت پاکستان پر غیر ملکی قرضہ جون2024تک 820کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر 41فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد12کروڑ 66لاکھ ہے۔ اندازہ کریں یہ تعداد تو پاکستان کی نصف آبادی سے بھی زائد ہے۔ ایک کروڑ 20لاکھ سے زائد افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اﷲ پاکستانی عوام اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں