یہ سندھ ہے

کراچی، حیدرآباد کے اردو بولنے والے پہلے مسلم لیگ، پھر مذہبی پارٹیوں اور پھر ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کی تاریخ رکھتے ہیں


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate September 19, 2012
[email protected]

MCLEAN: یہ سندھ ہے۔ اسے وادی مہران بھی کہتے ہیں۔ یہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ پہلے اس میں جو لوگ رہتے تھے انھیں پرانا سندھی کہتے ہیں۔

ہجرت کرکے آنے والوں کو نیا سندھی کہتے ہیں۔ وہ اجرک بھی اوڑھتے ہیں اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ پہلی دفعہ سندھ میں عجیب صورت حال پیش آئی ہے۔

پرانے سندھیوں اور اردو بولنے والوں کی پارٹیاں ایک بلدیاتی نظام پر متفق ہوگئی ہیں۔ یہ نظام پورے ملک سے بالکل الگ اور نرالا ہے۔ اس سے عجیب بات یہ کہ باقی سب پارٹیاں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ مخالفت بھی، احتجاج بھی اور ہڑتال بھی۔

پرانے سندھی سن ستر سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ کراچی و حیدرآباد کے اردو بولنے والے پہلے مسلم لیگ، پھر مذہبی پارٹیوں اور پھر ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کی تاریخ رکھتے ہیں۔

دونوں بڑی آبادیوں کی سیاسی پسند و ناپسند الگ الگ ہے۔ ان کی محبوب شخصیات جدا جدا ہیں۔ کراچی و حیدرآباد کے اردو بولنے والوں نے کبھی پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیے۔ پرانے سندھیوں نے کبھی جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور ایم کیو ایم پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ دونوں کی اس سیاسی نفسیات کو سمجھے بغیر 2012 کے بلدیاتی نظام کو نہیں سمجھا جاسکتا۔

آئیے پہلے سندھ کا پنجاب، بنگال، بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے موازنہ کرکے دیکھتے ہیں۔ پنجاب کے پنجابی کرتا لاچہ پہنتے ہیں، لسّی پیتے ہیں اور ہیر رانجھا کو بابا بلھے شاہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

چاہے یہ پنجابی لاہور کے ہوں یا لدھیانہ کے۔ پنجاب کے مغرب میں رہتے ہوں یا مشرق سے آئے ہوں۔ ایسا ہی معاملہ بنگالیوں کے ساتھ بھی رہا۔ وہ دھوتی پہنتے ہیں، مچھلی چاول پسند کرتے ہیں۔ چاہے وہ مغرب کے ہوں یا مشرق کے، وہ پڑھتے ٹیگور اور نذر الاسلام کو ہیں۔ سن 47 میں ان کا بنگال مذہب کے نام پر ان کی مرضی سے تقسیم ہوا۔

آج بھی بنگلہ دیش، مغربی بنگال، آسام اور کراچی کا بنگالی ایک جیسا نظر آتا ہے۔ پٹھانوں کا ملک افغانستان بھی تقسیم ہوا تھا۔ وہ پاکستانی اور افغانی میں بٹے ہوئے ہیں جب کہ بلوچ کچھ پاکستان میں، کچھ ایران میں تو کچھ مسقط میں تقسیم ہیں۔ سب لوگ نہیں بلکہ ان کی زمینیں تقسیم ہیں۔ سندھ کے ساتھ ایسا نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں بنگالی، پنجابی، پٹھان اور بلوچ چند حصّوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کا خطہ زمین بھی تقسیم ہے۔

سندھ، بمبئی سے جڑا لیکن اپنی علیحدہ شناخت حاصل کر گیا۔ سندھ متحد ہے، ایک ہے۔ آج بھی سندھ کے کروڑوں سندھی اس صوبے کی یکجائی پر متحد تو ہیں لیکن اس صوبے کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ سب سے الگ اور سب سے جدا۔ شاید اسی لیے اس کا بلدیاتی نظام بھی سب سے منفرد نظر آرہا ہے۔

پاکستان قائم ہوا تو کراچی اس کا دارالحکومت قرار پایا۔ پھر یہاں کے سمندر نے ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے لیے کشش پیدا کی۔ چار پانچ لاکھ کا شہر دو عشروں میں نصف کروڑ کا شہر بن گیا۔

کراچی میں سندھی بولنے والے بہت کم تھے۔ مہاجروں کے بہائو نے اسے اردو بولنے والوں کا شہر بنادیا۔ یہاں سے کامیاب ہونے والوں میں پروفیسر غفور احمد، ظفر احمد انصاری، شاہ احمد نورانی ہجرت کرکے اس صوبے میں آباد ہوئے تھے۔ فاروق ستار، عامر لیاقت اور حیدر عباس رضوی کے آبا و اجداد تو ہندوستان کے تھے لیکن ان سب کی پیدایش پاکستان میں ہوئی۔

گویا پہلے کے لوگوں نے ان مہاجروں کو ووٹ دیے جنھوں نے ہجرت کی اور مذہبی رہنما کہلاتے تھے، دوسرے مرحلے میں ووٹ انھیں ملے جو پیدا تو سندھ میں ہوئے لیکن کہلائے مہاجروں کی اولاد۔ ایک اور تبدیلی یہ آئی کہ نئے لوگوں نے خود پر مذہبی چھاپ لگانے کے بجائے اپنے آپ کو سیکولر کہلوانا پسند کیا۔

کالم لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم سندھ کی تاریخ و ثقافت یہاں کے لوگوں کی ووٹ دینے کی نفسیات اور نئے بلدیاتی نظام پر گفتگو کررہے ہیں۔ سیاسی تاریخ اپنے اندر خوبصورتی لیے ہوئے ہے اور ایک ہلکی سی تقسیم بھی ہے۔

اندرون سندھ کے لوگ نصف صدی سے بھٹو کے پرستار ہیں جب کہ شہری علاقوں کے ووٹر بیس برس مذہبی پارٹیوں اور بیس پچیس برس الطاف حسین کے چاہنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ پہلے ہم اس تبدیلی کا نفسیاتی پہلو سمجھیں گے اور پھر آج کی تازہ ترین صورت حال پر آئیں گے۔

''سقوطِ ڈھاکا'' کے بعد بھٹو نے پاکستان میں اقتدار سنبھالا۔ تمام صوبوں کی سرحدوں کی سرجری ہوئی تھی جب کہ سندھ کا دوسرا مسئلہ تھا۔ یہ صوبہ دو بڑی لسانی اکائیوں میں منقسم تھا۔ ہجرت کرکے آنے والے سندھی اور پرانے سندھی۔

کوٹہ سسٹم کے ذریعے تعلیمی اداروں میں داخلے اور نوکریوں کے معاملے نے مذہبی قیادت کو غیر موثر کردیا۔ وہ اسلام اور پاکستان کی باتیں کرتیں، وہ اتفاق و اتحاد کا درس دیتیں، وہ سب مسلمانوں کو آپس میں قربانی دینے کی تلقین کرتیں۔ روٹی و پیٹ کے مسئلے نے مہاجروں کو قیادت میں تبدیلی کی راہ سجھائی۔ بھٹو اور بے نظیر کی مضبوط شخصیت کے مقابل وہ بھی کسی پرکشش لیڈر شپ کی تلاش میں تھے۔

ایم کیو ایم نے ان کی اس پیاس کی تسکین کی۔ وہ لیڈر جو معاش کے مسئلے کے حل کی آواز بلند کرے اور اسے خود اتنا بلند کردیا جائے جو پرانے سندھیوں کی لیڈرشپ کے مقابل جم کر بات کرے۔

اردو بولنے والوں کے اس رجحان نے انھیں سن 81 میں کراچی و حیدرآباد میں بلامقابلہ بلدیاتی قیادت عطا کی۔ پھر دو قومی انتخابات میں ایم کیو ایم کی قیادت پر اعتماد کیا گیا۔ شاید اس سلسلے کو ایجنسیوں نے پسند نہیں کیا۔ سن بانوے کے آپریشن میں مہاجروں کی قیادت کی تبدیلی کی کوشش ناکام ہوئی۔ 93 کے صوبائی انتخابات نے طاقتور حلقوں کو دوسرے پہلو پر سوچنے پر مجبور کیا۔ یوں تنظیم مہاجر سے متحدہ ہوگئی۔

وقت کا پہیہ آگے بڑھتا رہا اور بالآخر مشرف۔ الطاف دوستی کے ساتھ نئی صدی کے ساتویں برس میں پہنچ گیا۔

پرویز مشرف حکومت کے عطا کردہ نظام نے شہرِ قائد کو نعمت بھی عطا کی اور اسے کمال تک بھی پہنچایا۔ نعمت اﷲ خان اور مصطفیٰ کمال کی شاندار کارکردگی نے اہلِ کراچی کو سوچنے پر مجبور کیا۔ بلدیاتی سطح پر اہل اور ایمان دار قیادت کی بدولت صوبے کے شہری علاقوں نے ترقی کی۔ وہ یہ نظام چاہتے تھے تو پی پی نے ''توانا سندھ'' کے فارمولے کو لے کر ایم کیو ایم سے مذاکرات کیے۔ ایک ہزار یوم کی کوششوں سے ایک بلدیاتی نظام سامنے آیا۔ دونوں پارٹیوں نے ''کچھ دو اور کچھ لو'' کی بنیاد پر معاملات طے کیے۔

سندھ کی تقسیم کے خطرے کا اس نظام میں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام نے سندھ کے اتحاد اور مضبوطی کی بنیاد رکھی ہے۔

کراچی، حیدرآباد و سکھر کے ساتھ لاڑکانہ اور میرپورخاص کو میٹرو پولیٹن قرار دیا جانا اس کی اہم وجہ ہے۔ مناسب حلقہ بندیاں اور پختونوں کی صحیح نمایندگی کا خیال رکھا جائے تو اس نظام کو آئیڈیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ نظام ایک سوال کا جواب بھی ہے۔

شہری و دیہی آبادیاں الگ الگ پارٹیوں کو ووٹ دیں اور دونوں کی مشترکہ حکومت نہ ہو تو؟ پھر کراچی و حیدرآباد کا پرسان حال کون ہو؟ ٹھٹھہ، لاڑکانہ، بدین اور دادو سے منتخب ہونے والے وزراء سندھ حکومت میں ہوں تو ناظم آباد، کورنگی، لانڈھی اور ٹاور کی صفائی، بجلی، پانی اور سڑکوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ اس نظام نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ سندھ ایک سے زیادہ ثقافتوں، زبانوں اور سیاسی پسند ناپسند والا صوبہ ہے۔ اس کا علاج ایسا ہی بلدیاتی نظام ہے کہ یہ صوبہ سندھ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں