حاجرہ آپا
حاجرہ مسرور کی تحریریں انفرادیت، گہرائی، معنویت اور دلچسپی کی حامل ہیں
موت برحق سہی لیکن جب اوپر تلے اس کا رزق بننے والے پیاروں کے تعزیت نامے لکھنے پڑیں تو سب کچھ جانتے ہوئے بھی طبیعت پر پڑنے والا بوجھ برداشت سے باہر ہونے لگتا ہے اور آتشؔ کا یہ مصرعہ جیسے ہر منظر کا حصہ بن جاتا ہے کہ ''زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے!''
ابھی چار دن پہلے لہری صاحب کا تعزیتی کالم ختم ہی کیا تھا کہ خبر ملی کہ میرے حقیقی چچا حاجی محمد اکرام کا برین ہیمبرج ہو گیا ہے اور وہ اس وقت سروسز اسپتال کے میڈیکل III میں کومے کی حالت میں پڑے ہیں اور یہ کہ مجھے یہ انتہائی افسوسناک خبر اپنے والد صاحب تک پہنچانی ہے تا کہ وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں سے واحد زندہ بھائی کو آ کر دیکھ لیں۔
یہ دونوں کام میں نے کیسے کیے، یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ بانوے برس کے نحیف، بیمار اور غم زدہ والد کے ساتھ اسپتال پہنچا تو معلوم ہوا کہ لفٹ بند ہو چکی ہے اور سوائے سیڑھیاں چڑھنے کے اوپر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔
استقبالیہ کائونٹر بند پڑا تھا چنانچہ ہم غلط راستہ بتانے والوں کی مہربانیوں کے باعث دو تین کاریڈورز کی زائد مسافت طے کر کے جب مطلوبہ وارڈ تک پہنچے تو چند منٹ بعد ہی بجلی چلی گئی جو ہماری واپسی تک نہ آئی اور نہ ہی کوئی جنریٹر آن ہوا۔
اسی رات چچا اکرام کا انتقال ہو گیا اور اگلے دن جب ہم ان کی تدفین کے بعد گھر واپس آ رہے تھے تو SMS پر ایک پیغام ملا کہ حاجرہ آپا یعنی حاجرہ مسرور بھی اس دار فانی سے پردہ کر گئی ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حاجرہ آپا سے پہلی بالمشافہ ملاقات خالد احمد کی شادی میں ہوئی تھی جو موقعے کی مناسبت کے لحاظ سے بہت سرسری تھی لیکن اس کے باوجود اس کا تاثر بہت گہرا، خوشگوار اور دیرپا تھا اور یوں وہ خالد احمد کے ساتھ ساتھ اس کے سب دوستوں کی بھی آنریری آپا بن گئیں۔
کچھ عرصہ بعد جب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ لاہور آئی ہیں اور اپنی بڑی بہن خدیجہ مستور کے گھر پر مقیم ہیں تو ہم نے قاسمی صاحب مرحوم سے فرمائش کر کے اپنے آپ کو چائے پر مدعو کروایا اور یوں ان سے پہلی تفصیلی ملاقات کی صورت نکل پائی۔
کچھ تو ہم سب ملاقاتیوں نے پہلے سے ان کو اچھی طرح پڑھ رکھا تھا اور کچھ اس ملاقات کے لیے خصوصی تیاری بھی کی تھی مگر ہماری حیرت اور خوشی کی حد نہ رہی جب انھوں نے ہماری تحریروں کا انتہائی محبت اور بزرگانہ شفقت سے تفصیلی ذکر کیا اور ایسے ایسے حوالے دیے کہ ہم سب ان کے مطالعے کی وسعت اور تنقیدی بصیرت کے بوجھ سے دب کر رہ گئے۔
میں نے انھی دنوںمیں گورکنوں کی زندگیوں کے بارے میں ان کا ایک ریڈیو ڈرامہ پڑھا تھا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسی نستعلیق اور برد بار قسم کی خاتون نے ان کرداروں، ان کے مسائل، زبان اور نفسیات کا ایسا حقیقی اور جاندار نقشہ کس طرح سے کھینچا ہے؟
یہ سوال تو میں اس وقت ان سے نہ کر سکا مگر ان کے ایک بے مثال افسانے ''عاقبت'' کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے میں نے اس کا موازنہ اس سے ملتے جلتے موضوعات پر لکھے گئے کچھ بہترین افسانوں کے ساتھ ضرور کیا لیکن ہوا یوں کہ میں ''عاقبت'' کے کسی ایک پہلو کی تعریف کرتا تو وہ میرے ذکر کردہ کسی افسانے کی اس سے زیادہ تعریف شروع کر دیتیں۔
ایسے وسیع الظرف لکھاری آج کل تو چراغِ رخ زیبا لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ ان دنوں ابھی ''وارث'' آن ایئر نہیں ہوا تھا اور بطور ڈرامہ نگار مجھے کم کم لوگ ہی جانتے تھے، سو میں نے بہت ڈرتے ڈرتے کہا کہ اگر کوئی اس کی ڈرامائی تشکیل کرے تو اسے بہت آسانی ہو گی کیونکہ ڈرامے کے سارے عناصر آپ نے اس میں پہلے سے رکھ دیے ہیں۔
کیا آپ مجھے اجازت دے سکتی ہیں کہ میں پی ٹی وی کی ایک سیریز ''میری پسندیدہ کہانی'' کے لیے اس پر کام کروں۔ مجھے یقین ہے کہ غلام عباس کے افسانے ''کن رس'' کی طرح میں اس کی بھی بہت اچھی ڈرامائی تشکیل کر سکتا ہوں۔ اس پر وہ ''کن رس'' کی تعریف کرنے لگیں، اسی اثنا میں کچھ اور لوگ آ گئے اور میری بات بیچ میں ہی رہ گئی۔
لیکن میری حیرت کی حد نہ رہی جب 1992ء میں قاسمی صاحب کے بارے میں ایک ڈاکیومنٹری فلم کے سلسلے میں ان کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لیے کراچی ان کے گھر پر گیا اور باتوں باتوں میں ''عاقبت'' کا ذکر آیا تو انھوں نے کئی برس پہلے خدیجہ آپا کے گھر پر ہونے والی پوری گفتگو دوہرا دی اور مسکراتے ہوئے کہا، اب تو تم ماشاء اﷲ مستند ڈرامہ نگار بن چکے ہو۔ میں تو اس وقت بھی اپنی طرف سے تمہیں اجازت دے چکی تھی۔
اب آپ اسے میری غلطی کہیے یا بے صبری کہ میں نے جوش مسرت میں بغیر کوئی احتیاطی تدبیر اپنائے براہ راست ان سے کہہ دیا کہ افسانے کی حد تک تو اس سے بہتر کلائمکس ممکن ہی نہیں جو آپ نے بنایا ہے مگر کیمرے کے میڈیم کے تقاضوں کے پیش نظر ڈرامے میں دو تین مقامات پر Flash Back کی تکنیک استعمال کرنا پڑے گی اور شائد ایک دو جگہوں پر واقعات کی ترتیب اور تفصیل میں بھی کچھ کمی بیشی کرنا پڑے۔
اس وقت موسم بھی قدرے گرم تھا اور وہ کسی بات پر اپنے نوکر پر ناراض بھی ہو رہی تھیں۔ سو انھوں نے ایک دم فیصلہ سنا دیا ''نہ میاں تم اس میں کچھ بدلو ودلو گے نہیں، ڈرامہ ویسے ہی بنائو جیسے افسانہ ہے اور مجھے پتہ ہے تم ایسا کر سکتے ہو'' اب چونکہ مجھے پتہ تھا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا چنانچہ میں نے اس بات کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھا۔
افسوس اس بات کا ہے وہ وقت پھر کبھی نہ آ سکا کہ ایک تو وہ بیمار رہنے لگیں اور پھر چند برس پہلے اپنے شوہر احمد علی خان صاحب کے انتقال کے بعد وہ بالکل ہی گوشہ نشین ہو گئیں اور اگرچہ مجھے یقین ہے کہ میں انھیں اپنی مجوزہ اور مطلوبہ تبدیلیوں پر قائل کر سکتا تھا لیکن اب اخلاقی طور پر میں اپنے آپ کو اس کا پابند سمجھتا ہوں کہ اس افسانے کی ڈرامائی تشکیل کا خیال ہمیشہ کے لیے ذہن سے نکال دوں۔
حاجرہ آپا کے فکر و فن کے حوالے سے تو کرنے والی بہت سی باتیں ہیں لیکن تقریباً سارے کا سارا کالم ان کی ان یادوں کے ذکر میں ہی نکل گیا۔ سو چلتے چلتے یہ ذکر کرتا چلوں کہ حاجرہ مسرور سے کچھ ہی پہلے اردو ادب میں عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور خدیجہ مستور کا ظہور ہوا اور ان سے کچھ ہی عرصہ بعد بانو قدسیہ، جیلانی بانو، خالدہ حسین اور واجدہ تبسم وغیرہ نے لکھنا شروع کیا۔
لیکن حاجرہ مسرور کی تحریریں ایک ایسی انفرادیت، گہرائی، معنویت اور دلچسپی کی حامل ہیں کہ وہ اس کہکشاں میں بھی سب سے الگ اور منور دکھائی دیتی ہیں۔ یوں تو ہر بڑے ادیب کی رحلت پر یہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ اس کی کمی بہت دیر تک محسوس کی جائے گی لیکن جن چند لوگوں کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ اور غیر مشروط انداز میں کہی جا سکتی ہے، حاجرہ آپا کا نام یقیناً اسی منتخب اور عہد ساز فہرست میں آتا ہے۔