ہوگا وہی جو مذکور ہے مکتوب ہے

شاید یہ میاں صاحب کی صلح جو اور امن پسند طبیعت ہی تھی جو انھیں پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت پائیدار امن ۔۔۔


[email protected]

اسلام دین فطرت اور امن و سلامتی کا مذہب ہے، عقل و شعور، حکمت و بصیرت، صبر، تحمل و برداشت اور وسیع النظری اسلام کا خاصہ ہے، اسلام صلح و مفاہمت اور گفت و شنید کے ذریعے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی ہدایت کرتا ہے اور دینی بصیرت، رواداری، اعتدال، مساوات و میانہ روی کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھنے، انتہا پسندی کے خاتمے اور ملی یگانگت کے ساتھ پوری فراست، بالغ النظری اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی عزت و وقار اور قومی سلامتی کے تحفظ اور پر امن بقائے باہمی کے تاریخ ساز اصول کے تحت حکمت و سیاست سے بھرپور معاہدات اور تمام گمبھیر مسائل اور عظیم چیلنجز پر مکمل قابو پانے اور بھرپور حل کی ترغیب دیتا ہے۔

''سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے'' اس کو کہتے ہیں دانائی، سانپ بھی نہ مرے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے یہ نادانی ہے۔ سیرت نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل جنگ میں تلاش کرنا دانش مندی کے خلاف ہے، اسلام وسیع القلبی کے ساتھ احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کا درس دیتا ہے۔

شاید یہ میاں صاحب کی صلح جو اور امن پسند طبیعت ہی تھی جو انھیں پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت پائیدار امن کے قیام اور آغاز کے لیے انھیں پاکستان سے اٹھا کر بھارت نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں لے گئی اور اس طرح وہ تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جو اس نوعیت کے پروگرام میں شریک ہوئے، تقریب حلف برداری کے دوسرے دن میاں صاحب اور مودی کی اہم اور تفصیلی ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات میں میاں صاحب نے 1999 کے اعلان لاہور کو دوبارہ آگے بڑھانے کی آرزو کی اور مودی نے میاں صاحب کو چارج شیٹ کا تحفہ پیش کرتے ہوئے ممبئی حملوں کے ملزمان کو سزا دلوانے اور دہشت گردوں کو لگام دینے کا مطالبہ کیا، میاں صاحب خیر سے وطن واپس لوٹ آئے لیکن اس ملاقات کا ثمر یعنی چارج شیٹ کے تحفے کو سوا اپنے ہمراہ اور کچھ نہ لا سکے۔ نریندر مودی کی انتہا پسند ہندو کی حیثیت سے پاکستان سے بغض و عداوت اور مسلم دشمنی سب پر واضح ہے۔؟

میاں صاحب کو بھارت لے جانے والی صرف ان کی صلح جو اور امن پسند طبیعت ہی نہیں بلکہ کئی ایسی مجبوریاں بھی ہیں جن سے پہلوتہی ممکن نہیں یہ ایک واضح اور روشن حقیقت ہیں ...! اس حقیقت سے سب بخوبی واقف نہیں کہ ہم ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہیں لیکن جنگ کرنے تسلی بخش انداز میں کلی طور پر نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں، ہمارے داخلی و خارجی حالات اور معیشت کی نا گفتہ بہ صورت حال ہمیں جنگ کی اجازت نہیں دیتے، ہماری معیشت بیرونی امداد کے دیمک زدہ بانسوں پر ٹکی ہوئی ہے۔

یہی امداد ہمیں غیروں کا غلام بنائے رکھنے اور وفاداری کا مکمل حق ادا کرنے پر بھی مجبور رکھتی ہے، ساتھ ہی یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بلکہ عوام کا ایک ہجوم ہیں جس میں ایمان، تنظیم اور یقین محکم کا شدید فقدان ہے، ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی بھی ناکامی سے دو چار ہے، داخلی طور پر دہشت گردی، تخریب کاری، بم دھماکے اور قتل و غارت پر ہے اور خارجی طور پر طاقتور ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔

بالعموم جنگ کسی مسئلے کا حل کبھی نہیں رہی اور بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تو جنگ دائمی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ اور خود کشی کے مترادف ہو گا۔ ہمیں تصادم سے ہٹ کر ترقی کے دیگر میدانوں میں دشمنی کے اس معرکے کو سر کرنا چاہیے جیسا کہ دیگر با حکمت ترقی یافتہ اقوام نے کیا، ہمیں بھی ترقی کے اس مفہوم اور اپنے ملک و قوم کو فائز کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کی بدولت کوئی بھی بدنیت ہمیں نرم چارہ سمجھ کر ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی ہمت تک نہ کر سکے لیکن افسوس اس کے لیے ہمیں جن عظیم الشان عناصر، خوبیوں، خصوصیات، صلاحیتوں، عزم و حوصلے، اتحاد و یکجہتی و یگانگت کی ضرورت ہے اس سے آج ہم محروم ہیں، تاہم مایوسی کفر ہے اور امید ہی زندگی کی وہ اہم حقیقت ہے جو یقین کے راستوں سے ہوتی ہوتی ہوئی بالآخر منزل تک پہنچا دیتی ہے، ہمیں بھی آج اس عظیم جذبے کی اشد ضرورت ہے۔

شاید یہی وہ حقیقی وجوہات اور مجبویاں ہیں جو میاں صاحب کو تلخیاں ختم کر کے بات چیت کے نئے دور کا آغاز کرنے اور مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے بھارت لے گئی لیکن ہمیں امن پسندی اور صلح جوئی کے تمام تر جذبات کے ساتھ ساتھ تاریخ کی اس ناقابل تردید حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ محمد علی بوگرہ سے لے کر اب میاں نواز شریف تک سب ہی نے بھارت کو اپنے اپنے ادوار میں امن کی پیش کش کی مگر بھارت نے ہمیشہ ایک بد مست ہاتھی کی طرح ہماری ہر پیشکش کو نہ صرف اپنے پائوں تلے کچل دیا بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کی پس پردہ سازشیں جاری رکھیں اور پاکستان کے وجود کو تسلیم کبھی نہیں کیا اور ہمیشہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی۔

کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے لے کر پاکستان کے چپے چپے میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے تمام تانے بانے اور ڈانڈے بھارت سے ملتے ہیں، بھارت نے افغانستان میں کئی ایسے قونصل خانے بنا رکھے ہیں جہاں سے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی دہشت گردی اور تخریب کاری کے منظم نیٹ ورک کی کمان کی جا رہی ہے اور انھیں اسلحہ و مالیاتی امداد سمیت تمام اہم اور ضروری سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

بھارت جس ممبئی اور پارلیمنٹ حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے ان کی حقیقت سے تو خود بھارتی فوجی جرنیل اور خفیہ ایجنسیوں نے پردہ اٹھا دیا کہ ان حملوں کا ڈراما بھارت نے خود پاکستان کو ساری دنیا میں بدنام کرنے، دہشت گرد قرار دلوانے، پابندیاں لگوانے اور مسلسل دبائو میں رکھنے کے لیے رچایا، نیز بھارتی کرنل پر دھت نے یہ شرمناک اور قابل مذمت انکشاف کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش بھی انھوں نے خود کیا، نیز کشمیر بھی بھارت کی دہشت گردی کا ایک عرصے سے منہ بولتا ثبوت اور تخریب کاری کی مظلوم تصویر، سفاکیت و بربریت کا مجسم پیکر ہے جہاں دن رات بارہ لاکھ بھارتی فوجی نہتے و بے گناہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، کشمیر پر مکمل قبضے کی سازش وہاں ڈیموں کی تعمیر کر کے آبی جارحیت کا کھلا مظاہرہ کمپوزٹ ڈائیلاگ و غیرہ یہ وہ بھارتی جرائم ہیں جن پر پوری دنیا خاموش، نیز اقوام متحدہ نے بھی اپنے ہونٹ سی لیے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں