ڈاکٹروں اورطبی عملے کی الیکشن ڈیوٹی کے باعث سرکاری اسپتالوں میں آپریشن ملتوی

40 فیصد عملہ کم ہوجانے کے باعث مریض متاثر اور آپریشن ملتوی ہورہے ہیں، نگراں وزیرصحت


Tufail Ahmed February 01, 2024
فوٹو: فائل

کراچی میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے بیشتر سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی ڈیوٹیاں لگائے جانے کے بعد اسپتال ڈاکٹروں اور دیگر عملے سے خالی ہوگئے، مریضوں کی بڑی تعداد کے آپریشن بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔

اسپتالوں کےحکام کے مطابق سول اور عباسی شہید اسپتالوں میں روزانہ 100 سے زائد مریضوں کے آپریشن ہوتے ہیں۔ ایمرجنسی صورتحال کے مطابق مریضوں کے آپریشنز ہنگامی طور پر کیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 200 سے زائد آپریشنز ملتوی کیے گئے ہیں تاہم حتمی اعداد و شمار مرتب کیے جارہے ہیں.

آپریشن کے لیے اب مریضوں کو الیکشن کے بعد کی تاریخیں دی جارہی ہیں،عباسی شہید اسپتال میں اب مریضوں کو داخل نہیں کیا جارہا۔ دوسری جانب اسپتالوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت لازمی سروسز کے زمرے میں آتا ہے، اس کے باوجود اسپتالوں کے عملے کی ڈیوٹیاں الیکشن میں لگائی جارہی ہیں۔

اسپتالوں کے عملے ڈیوٹیاں مختلف اضلاع میں لگادی گئی ہیں جس پر سرکاری اسپتالوں اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

ادھر صوبائی محکمہ صحت نے 8 فروری کو عام انتخابات کے موقع پر کراچی سمیت صوبے بھر میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات کو 5 فروری سے 9 فروری تک ایمرجنسی ریسکو سینٹرز میں تبدیل کردیا یے۔

1122 رسیکو سروسز کی تمام ایمولینسیں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے موجود ہوں گی۔ محکمہ صحت کے ایمرجنسی پلان کے حوالے سے اسپتالوں میں انتظامات کرنے پر کئی ایم ایس نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں بیشتر ڈاکٹرز اور عملے کی الیکشن ڈیوٹیاں لگادی گئی ہیں اب ایمرجنسی کے لیے کیسے انتظامات کراسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہنگامی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ڈاکٹرز اور عملے کی ڈیوٹیاں منسوخ کرنی چاہیئں۔الیکشن ڈیوٹیاں لگانے کی وجہ سے اسپتالوں میں مریضوں کو مشکلات ہیں۔ بیشتر آپریشنز منسوخ کردیے گئے ہیں۔ مریضوں کو انتخاب کے بعد آپریشنز کی تاریخیں دی جارہی ہے۔ پی ایم اے نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے فوری نوٹس لینے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ محکمہ صحت لازمی سروسز میں شامل ہے اس لیے اس کو انتخابی ڈیوٹیوں سے استشنی قرار دیا جائے۔

عام انتخابات کے موقع پر ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے محکمہ صحت کے ریسیکو پلان اور اس سے متعلق امور کے بارے میں محکمہ صحت سندھ کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کراچی سمیت میں سندھ بھر میں عام انتخابات میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے پلان کو حتمی شکل دے دی ہے۔

ترجمان کے مطابق ڈی جی صحت کے دفتر میں کنٹرول روم قائم کردیا گیا ہے۔سرکاری اسپتالوں میں 5 فروری سے 9 فروری تک ایمرجنسی نافذ رہے گی۔تمام سرکاری اسپتالوں میں شعبہ حادثات کو ایمرجنسی یونٹس میں تبدیل کردیا گیا یے جہاں تینوں شفٹوں میں ڈاکٹرز اور طبی عملہ موجود ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکو سروسز 1122 کی 371 ایمبولینسیں موجود ہوں گی۔اس کے علاوہ ادویات بھی موجود ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے محکمہ صحت سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر اور عملہ انتخابی ڈیوٹیوں ہرتعینات کیا ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں میں ہنگامی ریسکو سروسز کی فراہمی میں مشکلات ہیش آسکتی ہیں۔اس حوالے سے محکمہ صحت نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا یے۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کے مطابق ڈی جی ہیلتھ سندھ نے عام انتخابات 2024 کے سلسلے میں ڈی جی سیکریٹریٹ حیدرآباد میں کنٹرول روم قائم کردیا ہے۔ ڈپٹی ڈی جی ایم اینڈ ای ڈاکٹر سہراب خان حسبانی اور اسسٹنٹ ڈی جی ایم اینڈ ای ڈاکٹر زبیرالدین قریشی فوکل پرسن نامزد کردیے ہیں۔

تین شفٹوں پر مشتمل اسٹاف کنٹرول روم میں چوبیس گھنٹے اپنے فرائض انجام دے گا، کسی بھی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر کنٹرول روم کے نمبرز 0229240106 اور 0229240114 پر رابطہ کیا جاسکے گا۔ تمام 6 ڈویژنز کے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز، ڈی ایچ اوز، ریسکیو 1122، سرکاری و خیراتی اسپتالوں کے سربراہان ہدایات پر سختی سے عمل کریں گے۔

محکمہ صحت کے عام انتخابات کے لیے ایمرجنسی پلان پر عمل درآمد میں کئی سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ کو تحفظات ہیں۔انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ الیکشن ڈیوٹیوں کی وجہ سے اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کی شدید کمی ہے اس لیے اس پلان پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا؟

عباسی شہید اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نسیم احمد نے بتایا کہ اب ہم الیکشن سے قبل مریضوں کو اسپتال میں داخل نہیں کرسکتے ۔ہمارے اسپتال میں روز 30 سے زائد آپریشن کیے جاتے ہیں۔عملے کی انتخابی ڈیوٹی کے سبب 26 جنوری کو ہم نے مجبوراً 15 آپریشن ملتوی کیے۔

انہوں نے بتایا کہ عملہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اب آپریشن نہیں ہوسکتے، داخل مریضوں کو دوسرے اسپتال منتقل کرنے پر غور کررہےبیں۔ ایمرجنسی بھی متاثر ہورہی ہے جبکہ آئی سی یو بھی بند کرنے کی نوبت آسکتی یے۔

ڈاکٹر نسیم احمد کا کہنا تھا کہ اسپتال کے تمام عملے کی عام انتخابات میں ڈیوٹیاں لگادی گئی ہیں۔اب الیکشن کے دن ایمرجنسی حالات کو کیسے کنٹرول کریں گے؟۔کیا اس دن اسپتال بند کردیں؟کسی صورتحال کی ذمہ داری اب اسپتال انتظامیہ نہیں ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ اسپتال کے پرچی کلرک، وینٹ ٹیکنیشن، اینستھسیا ٹیکنیشن سمیت ڈاکٹرز اور دیگر عملے کی ڈیوٹیاں لگنے کی وجہ سے عباسی اسپتال کے تمام شعبے خالی ہوگئے ہیں اور ہمیں اسپتال میں آنے والے مریضوں کے علاج کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے، اسی لیے آپریشنز ملتوی کردیے گِئے ہیں۔

آپریشن کے لیے مریضوں کو انتخاب کے بعد کی تاریخ دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپتال کا 100 فیصد عملہ الیکشن ڈیوٹی کے لیے طلب کرلیا گیا ہے، اسی صورت میں ہم طبی امداد فراہم نہیں کرسکتے، اس حوالے سے کے ایم سی کے ڈائریکٹر نے بھی متعلقہ حکام سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملے کا جائزہ لینا چاہیے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ انتخابی ڈیوٹی کے لیے اسپتال سے 70 ڈاکٹرز، 350 نرسز اور 80 پیرا میڈیکل کا عملہ لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سول اسپتال صوبے کا سب سے بڑا ٹیچنگ اسپتال ہے جہاں یومیہ 5 سے 6ہزار مریضوں کی او پی ڈی ہوتی ہے جبکہ یومیہ 50 سے زائد آپریشن کیے جاتے ہیں، ڈاکٹروں کی ڈیوٹیاں انتخابات میں لگائے جانے اور شہر میں ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کے بعد ہم کیسے ایمرجنسی کو کور کریں گے۔

سول اسپتال میں اس وقت 300 ڈاکٹر، 900 پیرامیڈکس اور 60 نرسوں کی اسامیاں گذشتہ کئی سالوں سے خالی پڑی ہیں۔ اس وقت سول اسپتال میں مجموعی طور پر 1500 اسامیاں خالی ہیں۔

ڈاکٹر خالد بخاری کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے سول اسپتال کی انتظامیہ نے محکمہ صحت کو مطلع کردیا ہے، اس کے باوجود بھی ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی الیکشن ڈیوٹیاں لگادی گیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس 120 سے زائد یومیہ آپریشن ہوتے ہیں جو اس صورتحال کی وجہ سے متاثر ہوگئے ہیں۔ان کی فہرست مرتب ہورہی ہے۔

ٹراما سینٹر کےڈائریکٹرڈاکٹر صابر میمن نے بتایا کہ ہمارے ڈاکٹرز کی فہرستیں انتخابی ڈیوٹی کے لیے مانگی گئی ہیں اگر یہ ڈاکٹر چلے گِئے تو تمام آپریشن ملتوی کیے جاسکتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹراما سینٹر میں روزانہ 100 مریضوں کے آپریشن ہوتے ہیں.

لیاری اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جمیل مغل نے بتایا کہ ضلع جنوبی میں الیکشن کے دوراں متعدد علاقے بہت ہی حساس ہیں اور پولنگ سے ایک دن قبل لیاری کے مختلف علاقوں میں بھی میڈیکل کیمپ لگائے جارہے ہیں، اس کے باوجود ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ کی ہدایت پر 60 ڈاکٹرز اور دیگر عملہ انتخابی ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا ہے۔

جناح اسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ جناح اسپتال سے بھی ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی ڈیوٹیاں الیکشن میں لگوانے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن جناح اسپتال کراچی کا بہت بڑا اسپتال ہے، انتظامیہ نے اپنے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی خدمات ضلعی انتظامیہ کے سپرد نہیں کیں کیونکہ جناح اسپتال میں 24 گھنٹے ایمرجنسی رہتی ہے اس لیے ہم نے اپنے ڈاکٹروں اور ملازمین کو الیکشن ڈیوٹیوں میں نہیں بھیجا لیکن الیکشن کے موقع پر اسپتال کے شعبہ حادثات میں تمام تر طبی سہولتیں موجود رہیں گی۔

سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کے ایم ایس ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے بتایا کہ اسپتال کے 10 ڈاکٹروں کی فہرست ضلعی انتطامیہ کو بھیج دی گئی ہے لیکن اسپتال میں پہلے ہی سے ڈاکٹروں سمیت دیگر عملے کی 100 سے زائد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے موقع پر اسپتال ہائی الرٹ رہے گا جبکہ شعبہ حادثات ایمرجنسی ریسکیو سروس کے طور پر کام کرے گا۔ اسپتال کی ایمبولینس سروس مکمل فعال ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ اگر ڈاکٹرز اور طبی عملے کی انتخابی ڈیوٹیاں ہوں گی توایمرجنسی میں اسپتالوں میں طبی امداد کس طرح دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی خدمات لازمی سروسز میں آتی ہیں۔الیکشن کمیشن کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے، اس معاملے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

نگراں وزیرصحت ڈاکٹر خالد سعد نیاز نے بتایا کہ الیکشن ڈیوٹیاں لگنے کی وجہ سے 60 فیصد عملے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔40 فیصد عملہ کم ہوجانے کی وجہ سے مریض متاثر اور آپریشن ملتوی ہورہے ہیں۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام کو صورتحال سے آگاہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ اسپتالوں کے عملے کی ڈیوٹیاں نہ لگائی جائیں تاہم فی الحال اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں ملا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں