پھر کل کا انتظار کیوں کریں
ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں ہاں البتہ مسائل ضرور ہیں ۔۔۔
لاہور:
میں اپنی تحریر کے لیے جب بھی لفظ منتخب کرتی ہوں وہ زخمی نظر آتا ہے، ٹپکتے ہوئے لہو کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہوتی ہوں کہ میری تحریر کس قدر لہولہان ہو گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف لفظ زخم خوردہ ہیں یا ہمارے جسم و روح بھی۔
لفظ جو قلم سے تحریر کیے جاتے ہیں لفظ جو زبان سے نکلتے ہیں۔شاید اماں نے بھی کوئی زخم کھایا ہے۔ کافی دیر سے کسی کو بد دعا دے رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب آدمی پریشان حال ہو گا اور احتجاج کا کوئی راستہ بھی اس کے پاس نہ ہوگا تو صرف اس کا اختیار بد دعاؤں پر رہ جاتا ہے۔
بڑھاپا اور قیامت کی گرمی۔ کئی کئی گھنٹوں کی مسلسل لوڈشیڈنگ کا عذاب۔ فریج کا پانی گرم، کھانا اور دیگر اشیا خراب۔ وولٹیج کم و زیادہ۔ الیکٹرانک کی اشیا برباد۔ لوڈشیڈنگ کے باعث کن کن پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ فہرست تو الگ ہے اس وقت مسئلہ امتحان کا ہے۔ اب ہر شخص کے یہاں تو جنریٹر یا UPS نہیں۔ اگر ہو بھی تو غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کے باعث UPS کی بیٹری بھی جواب دے جاتی ہے۔ جب لائٹ ہی نہیں تو چارج کیسے ہو۔ کس کو پرواہ۔ جنھیں پرواہ ہونی چاہیے ان کے یہاں لائٹ تھوڑی جاتی ہے۔
امتحان کا زمانہ پانی غائب، بجلی غائب، پنکھا غائب، روشنی غائب، ایمرجنسی لائٹ بھی تو بجلی سے چارج ہوتی ہے۔ سو اب آپ موم بتی سے کام لیں یا تیل کا دیا جلائیں طالب علم بے چارے اس وقت تو میں بے چارے ہی کہوں گی ایسے حالات میں کمرہ امتحان میں طالب علم کی کارکردگی کیا ہو گی۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں تو بجلی کبھی کبھی جاتی ہے۔ لو حساب پھر ایک سوال؟
دل پر چوٹ سی پڑتی ہے کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے کیا ہم بجلی کا بل نہیں دیتے پھر ہم ان خوش قسمتوں میں کیوں شامل نہیں۔
بجلی کا دورانیہ جب 2 گھنٹے کے بجائے 6 گھنٹے ایک وقت میں ہو جائے تو اماں کا بلڈ پریشر ہائی نہ ہو تو کیا ہو۔ ویسے بھی ان کے لاڈلے پوتے کا امتحان ہے شامت اعمال کہیں ہم نے پوچھ لیا کہ اماں کس کو بد دعا دے رہی ہو۔ بس غضب ہو گیا۔ عتاب کا رخ ہماری جانب تھا۔
''اے بی بی! اتنی ننھی بچی نہیں ہو سب جانتی ہو کس کو کہہ رہی ہوں۔'' اماں کا غصہ دو آتشہ دیکھ کر ہم نے وہ پنکھا ڈھونڈا جو سگنل سے خریدا تھا۔ پلاسٹک کا پنکھا ہلکا سا اور اماں پر جھلنا شروع کر دیا۔ دنیا آگے ترقی کر رہی ہے، اور ہم پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔لوگ A.C گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ہم گھر میں A.C تو دور کی بات بھلا اتنی لمبی لوڈشیڈنگ میں کیا خاک A.C چلے گا۔ پنکھے پر گزارہ کر رہے ہیں آج سے 60 سال پہلے بھی ہم پنکھے ہاتھ سے جھلتے تھے۔ گھر میں رنگین پنکھے بناتے تھے ستارے اور جھالریں لگا کر۔
اماں اپنے ماضی میں دور تک چلی گئیں اور ہم اپنے حال پر دور تک نظر ڈالنے لگے۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ پیچھے مڑ کر دیکھو گے تو پتھر کے ہو جاؤ گے ہم پتھر کے ہوں یا نہیں لیکن یہ حقیقت ضرور ہے کہ ہم پتھر کے دور میں داخل ہو رہے ہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم شدید گرمی میں کنواں کھدوانے پر مجبور ہیں۔ ہاتھ کا پنکھا، کنواں، بالٹی بالٹی پانی کا استعمال۔
آج کل اماں کی طرح ابا کا مزاج بھی چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے، تنخواہ اور پنشن میں اضافہ آٹے میں نمک کے برابر اور مہنگائی کا پہاڑ سامنے۔ ابا بڑبڑائے۔ویسے ہم نے لاکھ سمجھایا کہ ذائقے کے لیے نمک ضروری ہے۔ مگر ہماری بات سن کر ابا کے منہ کا ذائقہ مزید بگڑ گیا۔ پانی کے ٹینکر کے لیے صبح صبح لائن میں لگنا اور قیمتاً ٹینکر کا پانی خریدنا۔ لو بھائی! پانی اور بجلی دونوں سہولتوں سے ہم محروم رہ گیا کچرا تو وہ بھی اٹھانے کے لیے ماہانہ پیسے دیتے ہیں۔ اب تو سانس لیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ رکنے لگی تو آکسیجن کے پیسے دینے پڑیں گے۔
لیجیے صاحب پیسہ پیسہ ہر طرف پیسے کا کھیل ہے۔ اور یہ کھیل کچھ لوگ بڑی مہارت اور سلیقے سے کھیل رہے ہیں۔ شکست بھی اپنی اور فتح بھی اپنی گویا بازی اپنی مات نہیں لیکن جو لوگ اناڑی ہیں وہ پھنس جاتے ہیں۔ خیر کچھ لوگ تو بے سبب بھی پھنس جاتے ہیں پھر یہاں سے پیسے کا کھیل شروع ہوتا ہے۔
کھیل کوئی سا بھی ہو کھیلنے کا فن آنا چاہیے۔ جسے فن میں مہارت ہو وہ فنکار ہے اور ہمارے یہاں فنکاروں کی کمی نہیں۔ اداکاری کا شعبہ بھی کسی سے کم نہیں بلکہ اسی شعبے کے اثرات تو ہر خاص و عام میں منتقل ہو رہے ہیں۔ بلکہ اب تو لوگ اتنی کامیاب اداکاری کرتے ہیں کہ اصل چہرہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔اصل یا نقل کا فرق مشکل ہوتا پھر بھی تجربہ کار لوگ اصل و نقل کے درمیان فرق کر ہی لیتے ہیں۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ بہت سی حقیقتوں کا ہمیں علم ہوتا ہے۔ لیکن بے عملی اور بے اختیاری کے دور میں حقائق سے آگاہی کوئی بڑا انقلاب برپا نہیں کرسکتی ہے۔ بلکہ یہ آگاہی ہمیں اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے اور ہم لمحہ بھر کے لیے سوچتے ہیں کہ کاش ہم کچھ کرسکتے۔
ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں ہاں البتہ مسائل ضرور ہیں۔ مسائل پر بات تو کی جاسکتی ہے لیکن خاتمے کا کوئی حل نہیں نکلتا اور مسائل کچرے کے ڈھیر کی طرح جمع ہوتے رہتے ہیں بس یہ جمع کرنے کی عادت نہیں جاتی۔ عادت کا کیا ہے۔ دروغ گوئی کی عادت بھی ہماری فطرت و زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ اور اسی کا سہارا لے کر ہم مومن کے اس شعر کا سہارا لیتے ہیں کہ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔
خیر آواز آواز کی بات ہے۔ 65ء کی جنگ میں آواز کے یہ شعلے ایسے لپکے تھے کہ جسم و جاں میں قومی جذبے کی آگ بھڑکا گئے۔ اور نغموں کی صورت میں دشمنوں کی صفوں میں قیامت برپا کردی۔ اور کبھی یہی آواز مجمع کو جمع کرنے اور استعمال کرنے کے کام بھی آتی ہے آواز کا خوبصورت ہونا ضروری نہیں دیکھنا یہ ہے کہ لفظوں کا استعمال کیسا ہے۔ خیر پہلے لفظ اعتماد بخشتے تھے اور اب یہی لفظ دھوکا دیتے ہیں۔ سچ ہے ''دھوکا دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا''۔
پہلے تھوڑی شرم تھی۔ کام چوری چھپے ہوتا تھا۔ لیکن اب تمام حجاب اٹھ گئے ہیں اور جب پردہ ہی اٹھ جائے تو پھر خیر بات ہے سمجھ کی اب ہمارے قاری اتنے ناسمجھ بھی نہیں کہ بات کو سمجھ نہ سکیں۔ اللہ میاں نے ہماری قوم کو ذہن کی دولت معدنی دولت کے ساتھ خوب عطا کی ہے۔ بس جس دن ہم نے دونوں دولتوں کا صحیح استعمال کرلیا ہم دنیا کی بہترین قوم بن جائیں گے۔ ہم اچھے دنوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ یقینا اچھے دن آئیں گے۔ ہمارا یقین انشاء اللہ سلامت رہے گا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اچھے کام کرنے ہوں گے۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ پھر کل کا انتظار کیوں کریں، آج کیوں نہیں؟