پاک ایران تعلقات اور بھارت

ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا پتا لگائے جو پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں


عثمان دموہی January 28, 2024
[email protected]

بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ایرانی سرحد سے قریب ایک گاؤں پر ایران کے اچانک حملے کا پاکستان نے جواب دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بیرونی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتا۔

جب پاکستان کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا تو کسی ملک کو ہماری سرزمین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہنا چاہیے۔

پاکستانی حملے دراصل ترکی بہ ترکی جواب تھا جسے پاکستان کے تمام ہی حلقوں کی جانب سے سراہا گیا اور ملکی دفاع پر گہری نظر رکھنے اور فرض کی ادائیگی کو احسن طریقے سے انجام دینے پر تعریف کی گئی مگر بدقسمتی سے اس حملے کو کچھ لوگوں نے غلط انداز سے لیا کہ اس جوابی حملے کا مطلب ہے کہ اب 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات ملتوی ہونے والے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنا شروع کردیا کہ اب انتخابات ہی ختم نہیں ہوں گے بلکہ ملک سے جمہوریت بھی ڈی ریل ہونے والی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مخصوص طبقے سے منسلک سوشل میڈیا نے تو باقاعدہ یہ مہم چلانا شروع کردی کہ پاکستان نے ایران کو جوابی حملہ کرکے ایران کو تو ضرور منہ توڑ جواب دیا ہے مگر ساتھ ہی ملک میں مارشل لا کے لیے راہ ہموار کردی ہے یوں اب ملک سے جمہوریت کے بجائے پہلے کی طرح آمریت کا دور دورہ ہونے والا ہے۔

ایک اینکر نے تو باقاعدہ ٹویٹ کرکے مارشل لا کا خدشہ ظاہر کیا تھا مگر شکر ہے کہ ایسا کچھ ہوا اور نہ ہونے والا تھا۔ حکومت کی جانب سے ان افواہوں کو ختم کرنے اور عوام کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے اعلان کیا گیا کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہوں گے اور ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایران پاکستان کا پرانا اور آزمودہ دوست ملک ہے۔ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس نوزائیدہ مملکت سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

پاکستان میں سب سے پہلے کسی غیر ملک کے سربراہ کا دورہ ایرانی سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا۔ دونوں ممالک کے ہمیشہ ہی اچھے مثالی تعلقات قائم رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو ضروری اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے امام خمینی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ایران سے اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور ان میں مسلسل بہتری آئی تھی۔

ایران کی اسلامی حکومت کا پاکستان بہت مداح تھا اس لیے کہ پاکستان خود ایک اسلامی نظام پر مبنی حکومتی ڈھانچہ اور معاشرہ تشکیل دینے پر غور کر رہا تھا۔ گو کہ پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم ہیں مگر پاکستان نے بلا جھجک ایرانی اسلامی حکومت سے بھی ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود بھی ایران سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی جاری رکھی۔

پاکستان تو اب بھی ایران سے گیس حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے مگر اسے امریکی اور بھارتی حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ ایران پاکستان مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر بھی کافی کشش رکھتا ہے کیونکہ وہاں کئی برگزیدہ ہستیوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کرنے کے لیے سال بھر ہی پاکستانی ایران جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر محرم کے ایام میں ہزاروں پاکستانی ایران جاتے ہیں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر غم حسینؓ مناتے ہیں۔

پاکستان کے ایران سے تعلقات کے خراب کرنے میں بھارت کا اہم کردار رہا ہے۔ جب پاکستان نے اپنی گوادر بندرگاہ کو ترقی دینا چاہا تو بھارت کے لیے یہ منصوبہ ایک بارگراں ثابت ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کی کوئی بندرگاہ عالمی توجہ کا مرکز بن جائے اور اس کے سہارے پاکستان کی ترقی میں اضافہ ہو۔ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گود لے لیا۔ بھارت نے گوادر کے مقابلے پر اسے ترقی دینے کے لیے کام شروع کردیا۔

اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت اپنی تجارت کو وسطی ایشیائی ممالک تک دراز کرنا چاہتا تھا مگر بدقسمتی سے اس نے اس بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی جاسوس وہاں سے بلوچستان کا رخ کرتے اور وہاں دہشتگردی کا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف منظم کرنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرتے۔ یہ دہشتگردی ایک زمانے تک بڑے پیمانے پر جاری رہی مگر پھر پاکستانی ایجنسیوں نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کو گرفتار کرکے بھارتی دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا۔

بھارت کی ہی کوششوں سے بلوچستان میں وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی کو دائمی بنانے کے لیے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی کئی دہشتگرد تنظیمیں قائم کی گئیں ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں ہی موجود تھیں مگر پاکستانی فوج کی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے پہلے وہ افغانستان منتقل ہو گئیں بعد میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ایران میں پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں ڈیرے جما لیے۔

پاکستان ایران سے متعدد دفعہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا رہا کہ جیش العدل نامی دہشتگرد تنظیم بلوچستان میں موجود ہے جو ایران پر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ایران میں محمود احمدی نژاد صدر رہے پاکستان کے ایران سے تعلقات شک و شبے کے دائرے میں رہے۔ چاہ بہار بندرگاہ جسے بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا ان ہی کے دور میں اسے حاصل ہوئی تھی۔ پھر جب ایران میں صدارتی انتخابات ہوئے تو حسن روحانی صدر منتخب ہوگئے اس کے بعد سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی اور گرمجوشی کا آغاز ہوا۔

جن دنوں طالبان افغانستان پر اپنی پیشی قدمی کر رہے تھے ، ایران میں محمود احمدی نژاد نے پاکستان کے خلاف بیانات دیے تھے اس سے قبل بھی وہ پاکستانی سرحد پر ایرانی پاسداران کی فائرنگ کی حمایت کرتے رہے تھے جب یہ معاملہ زیادہ ہی بڑھا تو بانی تحریک انصاف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم نے ایران جا کر خامنہ ای سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تھا جس کے بعد ایرانی سرحد پر متعین کمانڈر کو ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد سرحد پر معاملات بہتر ہوگئے تھے۔

پاکستانی سرزمین پر حالیہ ایرانی حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب بھارتی وزیر خارجہ جے ایس شنکر ایرانی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ وہ 15 جنوری کو امریکی حکومت کا پیغام لے کر تہران پہنچے تھے اور اس کے دوسرے ہی دن یعنی 16 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستانی سرحدی گاؤں پر حملہ کیا گیا۔

اب پاکستانی جوابی حملے کے بعد ایرانی حکومت نے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ اچھے تعلقات قائم رکھنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ آیندہ دونوں حکومتیں مل کر ایرانی اور پاکستانی سرحد کے اندر موجود دہشتگردوں کا قلع قمع کریں گی۔ اس طرح ثابت ہوا کہ ایرانی حکومت میں اب بھی پاکستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی خواہش موجود ہے۔

ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا پتا لگائے جو پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں ضرور قانون کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں دونوں ممالک کی دوستی میں خلل نہ پڑ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں