’تم دن بھر کرتی ہی کیا ہو‘
’خواتین خانہ‘ سے لے کر ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش’المیے‘ کا ایک جائزہ
یہ کپڑے کیوں گندے پڑے ہوئے ہیں۔۔۔؟
باورچی خانے میں برتن کیوں سَنے رکھے ہیں؟
یہ کمرے میں بچے کے کھلونے کیوں پھیلے ہوئے ہیں؟
لاؤنج میں چیزیں کیوں بکھری پڑی ہیں۔۔۔؟
بچے کی شیشی بھی صفائی سے نہیں دھو سکتیں۔۔۔؟ کھانا ابھی تک کیوں تیار نہیں ہوا۔۔۔؟ روٹی پکانے میں میں اتنی سُستی کیوں ہے۔۔۔؟ تم سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔۔۔! آخر تم سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہو۔۔۔؟
یہ اور اس نوع کے بہت سے جملے یقیناً آپ نے ہر گھر میں سنے ہوں گے اور شاید آپ کو بھی یہ تقریباً ہر روز ہی سننے کو ملتے ہوں۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ چاہے عورت خاتون خانہ ہے یا پھر جاب کرنے والی۔۔۔ لیکن ہر صورت میں اس کو یہ فقرے کبھی نہ کبھی ضرور سننے کو ملتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے بہت جملے حضرات کا تکیہ کلام ہی بن چکے ہیں، تو غلط بھی نہ ہوگا۔
اب کچھ روز قبل ہی ایک خاندان سے ملاقات ہوئی، تو حضرت کو کافی پریشان پایا کہ بچے تو مجھ سے زیادہ مانوس نہیں ہیں اور ان کی امی کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں۔۔۔ساتھ میں یہ جملہ بولنے سے بھی نہ چُوکے ' ہونہہ۔۔۔ پتا نہیں سارا دن یہ کرتی کیا ہیں؟ بچوں کی تربیت پر کوئی دھیان ہی نہیں ہے۔'
اس جملے ہے لگے ہاتھوں ہم نے بھی بوچھ لیا کہ بھائی آپ کا بچہ اگر آپ سے ہی مانوس نہیں تو اس میں آپ کی بیگم کی کیا غلطی ہے یا سارا دن کچھ کرنے نہ کرنے سے بچے کی آپ کے ساتھ انسیت نہ ہونے میں کیا لینا دینا؟
حضرت کو جواب کچھ نہ سُجھائی دیا، لیکن یہ بولنے سے بالکل نہ چُوکے کہ ہاں آخر کرنا ہی کیا ہوتا ہے ان کو سارا دن۔ رات کو ایک دو بجے سوئیں گی، صبح اٹھ کر ناشتا اور لنچ بنا کر بچوں کو اسکول لے جاتی ہیں وہاں سے اپنے دفتر چلی جائیں گی، اپنے لنچ ٹائم میں بچے کو اسکول سے گھر لا کر کھانا کھلا کر دادی کے حوالے کر کے پھر سے دفتر چلی جاتی ہیں۔
گھر پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے اس عورت کی۔ مزید گفتگو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی بتانا نہیں بھولے کہ سارا دن میں ایک شام کے وقت ہی تازہ کھانا پکاتی ہیں اور پھر جلدی جلدی سب کوکھانا کھلا کراور جلدی جلدی بچے کو ہوم ورک کرا کر سلا دیتی ہیں۔ بس پھر دیر تک دکھانے کے لیے باورچی خانے میں کھڑی رہیں گی۔ کپڑے استری کرتی رہیں گی، بس اس کے بعد تو پھر فارغ ہوتی ہیں، لیکن کوئی کام وقت پر نہیں کرتیں۔
جب 'حضرت' سے پوچھا کہ کیا آپ کبھی اپنے بچے کے اسکول گئے ہیں۔۔۔؟ کسی 'پیرنٹ ٹیچر میٹنگ' میں یا فیس جمع کرانے۔ تو اُن 'حضرت' نے بڑی سادگی سے جواب دیا 'کیوں بھئی میں کیوں جاؤں۔۔۔؟ اتنا فارغ تھوڑی ہوں کہ لائنوں میں لگ کر بچوں کی فیس اور گھر کے بل وغیرہ جمع کراؤں یہ سب کام تو بیوی کرتی ہے۔ میرا فرض کما کر لا کر دینا ہے سو وہ میں کر دیتا ہوں۔۔۔!'
اس کے بعد سے کافی دنوں تک وقت یہ ہی سوالات سوچتے میں گزر گیا کہ ایک عورت کا نوکری کرنا کام نہیں۔۔۔؟ صبح منہ اندھیرے اٹھ کر شوہر اور بچوں کے لیے ناشتا بنانا اور نوکری پیشہ ہونے کی صورت میں دوپہر کا بھی کھانا بنا کر رکھ کر جانا کوئی کام نہیں۔۔۔؟ بچوں کو اسکول چھوڑنا ان کے پڑھائیوں سے لے کر دوستوں اور رشتہ دار خاندان والوں کے مسئلے مسائل سے نمٹنا اور رشتوں کو سمجھ داری اور دور اندیشی کے ساتھ نبھانا بھی کوئی کام نہیں۔۔۔؟
گھر کی صفائی اور حفاظت بھی کوئی کام نہیں۔۔۔؟ پورے گھر کے کپڑے دھونا، کھانا پیش کرنا، بیماروں کی تیمار داری کرنا، بچوں کو پڑھانا، توازن سے سارا خرچ چلانا وغیرہ وغیرہ کوئی کام نہیں۔ بے لوث محبت و خلوص، نیک نیتی اور ایمان داری کے ساتھ بغیر تنخواہ، بغیر چھٹی کے چاہے کسی بھی قسم کی بیماری ہو سال کے 365 دن یہ سب ذمہ داری بنھانا کیا کوئی کام نہیں۔۔۔؟
ایک گھریلو عورت جو صبح سویرے سے رات بارہ ایک بجے تک مختلف کاموں اور ذمہ داریوں میں مصروف رہتی ہے اس کو اپنی ذات کے لیے چند منٹ بھی نہیں ملتے اس کے احسان مند نہ سہی، مگر کیا گھر کے افراد کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے بولے جانے والے دو جملے زیادہ ہیں۔۔۔؟ کیا وہ عورت جس کا آپ سمجھتے ہیں کہ 'یہ سارا دن گھر میں کرتی ہی کیا ہے؟' اس کے لیے یہ تمام ذمہ داریاں کیا کام نہیں۔۔۔؟ کیا تعریف، تھوڑی سی دل جوئی اور درگزر کیا جانا اس کا حق نہیں؟
پتا نہیں کیوں ہمارے معاشرے نے عورت یا لڑکی کو ایک بے کار پرزہ سمجھ لیا ہے یا پھر عورت کی جانب سے کام یا خرچ میں ڈالے گئے حصے کو کام نہیں، بلکہ اپنا حق سمجھ لیا ہے۔
چاہے نوکری پیشہ عورت ہو یا پر گھریلو عورت، عام تصور یہ ہی بن گیا ہے کہ گھر پر بیٹھی ہوئی عورت فالتو اور فارغ ہے، جب کہ پورے کا گھر کا خرچ چلانے والی عورت کو بھی یہ ہی طعنہ دیا جاتا ہے کہ عورت کی کمائی میں کوئی برکت نہیں ہوتی برکت تو صرف مرد کی آمدن میں ہوتی ہے۔
تو بھئی آدمی کی کمائی میں بھی برکت جب ہی ہے نہ جب گھر پر رہنے والی اس کی عورت سلیقے، اعتدال اور میانہ روی سے اس کی محدود تنخواہ یا کمائی میں گھر کا خرچ چلا رہی ہے ورنہ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ لاکھوں کروڑوں کمانے والے کفیل مرد بھی مہنگائی اور خرچے پورے نہ ہونے کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم بچپن سے اپنے بڑوں سے سْنتے آئے ہیں کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہیں، لہٰذا یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کی محنت، بے لوث محبت اورخدمت کو سراہا جائے۔
عورت مرد کی اور مرد عورت کی عزت کیجیے۔ خواتین کے کیے گئے کام اور زندگی کی گاڑی چلانے میں ان کے کاموں اور کوششوں کی قدراور احساس کے ساتھ اس کے لیے تعریف کے دو بول بھی ضروری ہیں۔
زندگی ہمیشہ کچھ لینے اور دینے کا نام ہے۔ گھر جیسی نعمت اور اس کے جس سکون اور آسائش کے مقام پر ہم آج ہیں اس میں خواتین کے حصے کو نظر انداز کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ ان کی محنت، محبت اور خلوص کا سچے دل سے اعتراف کرنا ضروری ہے۔ اس سے ان کی ہمت بڑھتی ہے اور مزید اچھے کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔