نیا سال توقعات امیدیں
عیسوی سال کے بارہ مہینے آنا فانا کیسے گزرگئے۔ وقت کے سفر کی رفتار بڑی ظالمانہ ہے یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا
2023 اپنے بارہ مہینے کا سفر طے کرتا ہوا آخرکار بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔ بقیہ آگے کے سفر کی ذمے داری نئے سال 2024 نے سنبھال لی ہے اور اسی طرح اعداد بدلتی زندگی کا سفر آخرت کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
عیسوی سال کے بارہ مہینے آنا فانا کیسے گزرگئے۔ وقت کے سفر کی رفتار بڑی ظالمانہ ہے یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ سال کیا ختم ہوا، کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے ہوائی فائرنگ کرکے نئے سال کا بھونڈے طریقے سے استقبال کیا۔ گزرے ہوئے سال میں ہم نے کیا پایا اورکیا کھویا۔ اس خاکسار کی دانست میں ہم نے پایا کچھ نہیں، کھویا ہی کھویا ہے۔ بجلی، گیس، پانی جیسی بنیادی اہم ضروریات تک سے تو ہم محروم ہوچکے ہیں جب کہ قدرتی گیس ہمارے ہی علاقے کی پیداوار ہے۔
قابل افسوس ہے یہ امرکہ شہر بشمول مضافاتی علاقوں میں جابجا پان سگریٹ کے کھوکھوں کی مانندگیس فروخت کی دکانیں نظر آنے لگی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسی اشیاء جو اپنی ہی زرخیز مٹی سے پیدا ہوتی ہیں، ہماری دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے ادب شناس، ادب دوست ساجد رضا تقوی نے سوشل میڈیا پر ملک کے نامور شاعر، محقق و ادیب ڈاکٹر ہلال نقوی کے خوبصورت اشعار شیئرکیے ہیں۔
اس نئے سال میں سرخاب کا پرکو ن سا ہے
سال بدلا ہے پر احوال نہیں بدلا ہے
...
زندہ قومیں نئے سورج میں سحر دیکھتی ہیں
کیا خبر ہم کوکہ یہ رنگ سحر کون سا ہے
ہم آنحضرت ﷺ کے اُمتی ہیں، ہجری سال کے ہم امین ہیں، یہ ہماری میراث ہے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمیں اپنے ہجری ماہ و سال کا پتا نہیں۔ آپ کسی بھی مسلمان بھائی سے صرف اتنا تو پوچھیے کہ آجکل اسلامی اور ہجری سال کونسا چل رہا ہے، بمشکل کوئی ہی بتاسکے گا۔ اسلامی و ہجری مہینہ اور تاریخ توکجا۔ ہمیں صرف رمضان کا مہینہ یاد رہتا ہے جس میں ہم روزہ رکھیں یا نہ رکھیں گرم گرم پکوڑے کھانے کو ضرور مل جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی بیورو کریسی کا اہم حصہ اور مصنف و دانشور مختار مسعود اپنی سب سے پہلی اشاعت ہونے والی کتاب '' آواز دوست '' میں اپنی یاد داشت کے دریچہ کھولتے ہوئے لکھتے ہیں کہ '' یہ 1957 کی بات ہے۔ بیسویں صدی کا مشہور مورخ ٹوائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا۔
تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نامور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف کی درخواست کی۔ ٹوائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کیے، نظریں اُٹھائیں اور بیوروکریٹ کی طرف دیکھ کر بولے '' میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟'' سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔
ٹوائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس کی طرف دیکھ کرکہا '' تھوڑی دیر پہلے یہا ں اِسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور و شور سے تقریریں ہورہی تھیں۔ وہ لوگ تاریخ کیسے بن سکتے ہیں جنھیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو ۔ تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے'' سرکاری ملازم اور مصنف نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
آیے! ذرا ہم عیسوی، شمسی، قمری اور ہجری سال کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سالوں کی بھی کیا خوب اور ایک عجب تاریخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دین حنیف سے پہلے صرف عیسوی سال اور مہینوں سے تاریخ لکھی جاتی تھی، مسلمانوں میں تاریخ لکھنے کی روایت نہیں تھی۔ عیسوی تقویم انگریزی کیلنڈرگری گورئین سے ماخوذ ہے جس میں وقت کا تعین حضرت عیسی ؑ کی پیدائش سے کیا جاتا ہے۔
حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے قبل کے زمانے کو عیسوی تقویم میں قبل از مسیح یعنی Before Christ (BC) کہا جاتا ہے۔ شمسی سال اس عرصے کے مساوی ہوتا ہے جس میں زمین اپنے مدارکو پوری طرح طے کرلیتی ہے یعنی پوری طرح سورج کے گرد چکرکاٹ لیتی ہے۔ یہ عرصہ لگ بھگ 365 ایام کے برابر ہوتا ہے۔ اُمت مسلمہ کے لیے ہجری اور قمری سال بڑی اہمیت کا حامل اور با برکت بھی ہے۔
ہر مہینے کا آغاز چاند کے نمودار ہونے پر منحصر ہونا ہے۔ اسی لیے ہمارے بڑے ہم سے پوچھا کرتے تھے کہ بالے آج چاند کی کونسی تاریخ ہے۔ سن ہجری کی ابتدا 622 عیسوی میں آنحضرت محمد ﷺ کی مدینہ منورہ کی جانب ہجرت سے ہوئی۔ اس دن سے اسلامی سال کا آغاز ہوا۔ اس واقعے کو اسلامی تاریخ میں ہجرت مدینہ بھی کہا جا تا ہے جو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہجرت کے بعد سے ہی اسلام کو قوت حاصل ہونا شروع ہوئی اور اُمت مسلمہ کا قیام عمل میں آسکا۔
ہجری سال بھی عیسوی سال کی طرح بارہ مہینوں پر مشتمل ہے جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ محرم الحرام ، صفر، ربیع ا لاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذیقعد، ذوالحجہ۔ گو کہ ہجری سال اپنا مدتی سفر ماہ محرم سے شروع ہوکرذوالحجہ کے مہینے پر اختتام پذیر ہوتا ہے، اس لیے ہجری سال بھی عیسوی سال کی طرح عددی انگڑائی لیتا ہے۔ رجب، شعبان اور رمضان روحانی اعتبار سے نہایت مقدس ہیں۔
عجب اتفاق ہے کہ اس وقت امت مسلمہ 1445 ہجری کے ساتویں مہینے رجب المرجب سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مہینے مقدس اور روحانی برگزیدہ ہستیوں کی ولادتوں سے منسوب ہیں اور ان ایام میں مسلمان رمضان کے مہینوں میں چھوٹ جانے والے قضا روزے رکھنے کا ثواب بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان تین ماہ کی افضلیت کا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان گھرانوں میں ان تین ماہ کے دوران نومولود بچوں کے نام ان ہی تین ماہ سے منسوب کرلیتے ہیں۔
مسلمان گھرانوں میں خوشی ومسرت کی تقریبات کا تعین چاندکی ان ہی تاریخوں کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے روزے، عید اورحج کا قیام اسلامی سال اور اسلامی تاریخوں پر رکھا ہے، عیسوی تاریخ پر نہیں رکھا اسی منا سبت سے عیسوی تاریخ ہجری تاریخ کے ماتحت ہے۔
ہمیں ایسے عیسوی سال کی تمنا ہے جس کا آغاز ان ہی تین مقدس مہینوں میں ہو اور جس کی امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سال اپنی صدی کا خوشیوں سے بھرپور بابرکت سال ہو اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کو اسلامی ہجری سال کی اہمیت کا احساس ان کے اسلامی تاریخوں کے عین مطابق سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔