فضائل دُرود شریف

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: ’’جہاں بھی ہو مجھ پر دُرود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا دُرود مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘


فوٹو : فائل

حمد و ستائش پروردگارِ عالم کے لیے، دُرود و سلام حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے۔

قرآنِ مجید، فرقان حمید سورۂ احزاب میں دُرود یعنی صلوٰۃ کے بارے میں ارشادِ ربّ العزت ہے، مفہوم: ''اِس میں شک نہیں کہ اﷲ اور اُس کے فرشتے پیغمبر (ﷺ) پر دُرود بھیجتے ہیں۔ پس اے ایمان دارو! تم بھی ان پر برابر دُرود بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔''

شفیعِ محشر، جانِ کائنات، خیرالوریٰ، نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی چند اور احادیثِ مبارکہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے ہیں، تاکہ اِن تعلیماتِ حمیدہ سے بہتر استفادہ کیا جاسکے۔

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم: ''جہاں بھی ہو مجھ پر دُرود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا دُرود مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔'' (کنز العمال)

''مجھ پر دُرود و صلوات پل صراط پر نُور ہوگا۔'' (کنز العمال)

''بہت بڑا بخیل ہے وہ انسان جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر دُرود نہ پڑھے۔'' (کنز العمال)

''بہ روزِ قیامت سب سے اہم چیز جو میزانِ عمل میں رکھی جائے گی وہ محمد ﷺ اور اہلِ بیتِ محمدؐ پر دُرود ہے۔'' (بحار الانوار)

''میزان الحکمت'' کے مؤلّف ر قم طراز ہیں کہ بزرگ علماء اور عرفاء کا کہنا ہے کہ جو چیزیں دِلوں سے نفاق کے دُور ہونے کا موجب بنتی ہیں، اُن میں محمدؐ و آلِ محمدؐ پر کثرت سے اور بلند آواز سے دُرود پڑھنا سرِفہرست ہے۔

حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر کیسے دُرود پڑھیں؟

احادیثِ مُبارکہ میں ہے، اِس طرح کہو: ''اے اﷲ! محمدؐ و آلِ محمد ؐ پر دُرود بھیج جیسا کہ تُونے ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیم ؑ پر تمام جہانوں میں دُرود بھیجا ہے۔

بے شک! تُو حمد اور بزرگی کا مالک ہے۔ یااﷲ! دُرود بھیج محمدؐ و آلِ محمدؐ پر، برکت نازل فرما محمدؐ پر اور آلِ محمدؐ پر، جس طرح تُونے برکت نازل فرمائی ابراہیمؑ پر اور آلِ ابراہیمؑ پر، بے شک! تُو حمد و بزرگی کا مالک ہے۔''

لوگوں نے پوچھا: یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم! ہم آپؐ پر کیسے دُرود بھیجیں؟ آپ ؐ نے فرمایا: ''کہو! یااﷲ! محمدؐ اور آلِ محمد ؐپر دُرود بھیج جس طرح تُونے ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر دُرود بھیجا۔ بے شک! تُو حمد و بزرگی کا مالک ہے۔'' (کنزالعمال)

ٖٖمحمدؐ وآلِ محمد ؐ پر صلوات و دُرود کی کیفیت سے آپ نے استفادہ کیا، اب آئیے! ہم صلوات و دُرود کے معنی پر غور کرتے ہیں۔

حضرت ابُوالحسنؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا:

''اﷲ تعالیٰ کی صلوات، فرشتوں کی صلوات اور مومن کی صلوات کے کیا معنی ہیں؟''

آں جنابؐ نے فرمایا: ''اﷲ کی صلوات اُس کی رحمت ہے، فرشتوں کی صلوات حضور ِاکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی پاکیزگی بیان کرنا ہے اور مومنین کی صلوات حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے دُعا کرنا ہے۔'' (نور الثقلین)

اﷲ تعالیٰ کے اِس قول: ''یاایّھاالّذین اٰمنواصلّو علیہِ وسلّمواتسلیمًا'' کے بارے میں فرمایا: ''اِس سے مراد یہ ہے کہ آپؐ کی ثناء کرتے رہو اور آپؐ پہ سلام بھیجتے رہو۔'' (نُورالثقلین)

فضیلت صلوات کے حوالے سے دو کتابوں ''گنج ہائے معنوی'' اور ''نوائے صالحین'' میں مرقوم ہے کہ حضرت امام جعفر صادقؓ نے فرمایا: ''جمعرات کی عصر کے بعد آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ جن کے ہاتھوں میں سونے کے قلم اور چاندی کے اوراق ہوتے ہیں۔ وہ صلوات کے سوا کچھ نہیں لکھتے لہٰذا اِس رات محمدؐ و آلِ محمد ؐ پر بہ کثرت صلوات بھیجنی چاہیے۔''

حضرت امام جعفر صادقؓ کا ارشاد ہے: ''جو شخص شبِ جمعہ کو محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات بھیجے گا اُسے ہزار نیکیوں کا ثواب ملے گا اور اُس کے ہزار گناہ معاف ہوں گے اور اُس کے ہزار درجے بلند ہوں گے۔''

حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ اِس رات محمدؐ وآلِ محمد ؐ پر صلوات بھیجنا ہزار صلوات کے برابر ہے۔

دُرود شریف کے فضائل و برکات کے حوالے سے ہمارے برادرانِ اہلِ سُنّت کی معتبر کتابوں میں موجود بہت سی احادیث ِ مُبارکہ سے ہمیں راہ نمائی ملتی ہے ۔ چند منتخب احادیثِ مُبارکہ ہم یہاں آپ کے کسبِ فیض کے لیے تحریر کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔

(1)۔ ''یہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی فرماں برداری اور تعمیلِ حکم ہے۔''

(2)۔ ''اِس میں اﷲ عزّوجل کے ساتھ موافقت نصیب ہوتی ہے، گو نوعیت میں ہمارا دُرود بھیجنا اور اﷲ کا دُرود بھیجنا مختلف ہے، کیوں کہ ہمارا دُرود دُعا اور سوال ہے اور اﷲ تعالیٰ کا دُرود حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر رحمت و ثناء کی شکل میں عطا و نوال ہے۔''

(3)۔ ''دُرود خوانی میں فرشتوں کے ساتھ بھی موافقت نصیب ہوتی ہے۔''

(4)۔ ''ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر دُرود بھیجنے والے کو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے دس رحمتیں نصیب ہوتی ہیں۔''

(5)۔ امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ''کوئی دُعا ایسی نہیں جس کے اور اﷲ کے درمیان حجاب نہ ہو، یہاں تک کہ دُعا کرنے والا حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر دُرود بھیجے اور جب وہ دُرود بھیجتا ہے تو یہ حجاب ہٹا دیا جاتا ہے اور دُعا (حریمِ قدس میں) داخل ہوجاتی ہے اور اگر وہ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر دُرود نہ بھیجے تو وہ دُعا (باریاب ہوئے بغیر) واپس لوٹ آتی ہے۔''

(6)۔ ''دُرود بھیجنا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت پانے کا سبب ہے۔''

برادرانِ اہلِ سنّت کی دانش ور شخصیات کا کہنا ہے: ''پس دُرود و سلام وہ افضل ترین اور منفرد عبادت ہے اور یہ وہ افضل ترین عمل ہے جس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی بندوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اِس عمل کے ذریعے بندے کو اﷲ کا قُرب نصیب ہوتا ہے اور اِس کے ذریعے گناہوں کی بخشش، درجات کی بلندی اور قیامت کے روز حسرت و ملال سے امان نصیب ہوتا ہے۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر دُرود و سلام بھیجنے والے کے لیے، دُرود و سلام کی فضیلت و اہمیت جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے عوض اﷲ اور اُس کے فرشتے اُس شخص پر دُرود و سلام بھیجتے ہیں اور خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اُس پر دُرود و سلام بھیجتے ہیں۔

امام شافعیؒ کا یہ قول بہت معروف ہے: ''اے آلِ محمد ؐ! آپ کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ جو آپ پر نماز میں دُرود نہ بھیجے، اُس کی نماز دُرست نہیں۔''

بزرگ شاعرِ اہلِ بیت ِ نبویؐ حضرتِ مظفر حسین شاداںؔ دہلویؒ نے کیا عمدہ کہا ہے:

کبھی تو آئیں بزمِ مصطفی ﷺ میں

کبھی تو سانس لیں ٹھنڈی ہوا میں

ذرا بھیجیں دُرود آلِ نبی ﷺ پر

گھٹن محسوس ہوتی ہے فضا میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں