نسل انسانی کی تباہی کا راستہ
شماریاتی رپورٹ کے مطابق اس ادارے کے پاس چار ہزار سے بھی کم ملازمین موجود ہیں
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر تین یا چار منٹ کی ایک وڈیو نظر سے گزری جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی جس میں کراچی کے ایک کچی آبادی میں سیکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کا جم غفیر نشہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ کیمرے کو دیکھ کر نشے میں دھت یہ نوجوان افراد اپنے منہ چھپائے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔
عصر حاضر مادیت پرستی کا ہے جس میں اخلاقیات کے بجائے روپے پیسے کی قدر دانی ہے۔ خواہ یہ پیسہ غلط اور ناجائز ذرایع سے حاصل کیا گیا ہو۔
انسانی جانوں کی ہلاکت اور حفظان صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم سب سے پہلے اس حقیقت کو آشکارکرنے سے گریز نہیں کریں گے کہ راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھنے والے کاروباری حضرات دھوکا دہی اور صارفین کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اشیائے خوردنی کی تیاری میں ملاوٹ سے کام لیتے ہیں اور اخلاقی جرائم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں جو لامحالہ انسان کے لیے مضر صحت ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان اشیائے خوردنی کے استعمال سے انسان کی زندگی نے اپنے پر سمیٹ لیے ہیں جو نسل انسانی کی اموات کے تناسب میں اضافے کا موجب بن رہا ہے اور قومی المیہ کی طرف اشارہ بھی کررہا ہے۔ موجودہ صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ان امراض کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے بجائے نسل انسانی کا خاتمہ اسی نشے کی بدولت ہوگا۔
منشیات کا کاروبار عروج پر ہے اس میں کم ازکم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول یقینی ہے۔ قابل افسوس ہے یہ امرکہ نوجوانوں میں نشے کی لت بڑی تیزی سے ہمارے معاشرہ کو پراگندہ کررہی ہے اور اس کے خاتمے کی طرف سنجیدگی سے عمل نہیں کیا جا رہا۔
اطلاعات کیمطابق پس پردہ اس گھنائونے کاروبار میں ہمارے بعض بااثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو بلا شبہ اس لت کی روک تھام میںسب سے بڑی رکاوٹ ہیں جب کہ انسداد منشیات کے موضوع پر طویل عرصے سے پرنٹ میڈیا اور مختلف سماجی فورم پر بہت گفتگوکی جاتی رہی ہے مگر اس کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ مثبت نتائج سامنے آ نے کے بجائے اس میں روزبروز اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مینڈرس، چرس، حشیش، افیون اور نشہ میں جدیدیت کا شاہکار، ہیروئن جیسی منشیات نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو اس مرض نے تفکر وابتلا میں مبتلا کیا ہو ا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں منشیات کے کاروبار اور اس کے استعمال کے خلاف نہ صرف سخت قوانین موجود ہیں بلکہ ریاست عادی افراد کے علاج کو بھی قانونی حق سمجھتی ہے۔
اس ضمن میں اقوام متحدہ نے اپنی تازہ ترین شماریاتی رپورٹ میں واضح اشارہ دیا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد لگ بھگ 76 لاکھ ہے جن میں78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں جب کہ منشیات کے عادی افراد کا علاج کرنیوالی غیر سرکاری تنظیموں کیمطابق منشیات کے عادی افراد کی تعداد 78 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔
صرف گلی، محلے ہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کے عادی طلبا وطالبات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں اس اَمرکا عندیہ بھی دیا ہے کہ عادی افرادکی تعداد میں ہر سال سرکاری طور پر چالیس ہزار نفوس کا اضافہ ہوا ہے جس پر عالمی سطح پر منشیات کے خلاف متحرک تنظیموں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں شہر میں بمشکل ایسی جگہ نہ ہو جہاں یہ نوجوان ٹولیوںکی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ سَر جوڑے کپڑے کی چادرکے تانے فلائی اوورز اور فٹ پاتھوں پر ایک دوسرے کو انجکشن لگاتے نظر آتے ہیں، جو دیکھنے والے کو ناگوار محسوس ہوتا ہے۔
یہ نوجوان نہ صرف اللہ کی پاک ذات کی عطا کردہ دولت کی ناشکری اور کفران نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ اہل خانہ کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی نفسیاتی اعتبار سے نشہ ایک ہیجانی لگائوکا نقطہ آغاز ہے۔ نشہ ایک فریب اور دھوکا ہے جو انسانیت سے راہ فرار ہے، یہ انسان کی غیرت چھین لیتا ہے، صحت برباد کردیتا ہے۔
انسان کے دل کوکمزور و بے حس بنا دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر انسان کو جرائم کی دنیا میں پھینک کر سُکھ کا سانس لیتا ہے۔ حضرت انسان نے کائنات کے بیشتر حقائق پر عمیق تحقیق کی اور بندوق کا متبادل ایٹم دیا، وہاں ہمارے معاشرے کے بعض انسانوں نے بھی بھنگ ، چرس کی جگہ ہیروئن کو اہمیت و فوقیت دینے میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی۔
نشہ ہے دنیا میں شیطان کی چھڑی
اس کے ہمراہ رہی نہیں عقل انسانی
اس موذی مرض کی سرکوبی کے لیے وفاقی سطح پر ''انسداد منشیات فورس'' کے نام سے ادارہ بھی قائم ہے مگر اس ادارے کی کارکردگی تسلی بخش دیکھنے میں نہیں آسکی جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے پاس تربیت یافتہ عملہ کی شدید قلت ہے۔
شماریاتی رپورٹ کے مطابق اس ادارے کے پاس چار ہزار سے بھی کم ملازمین موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے والدین اور عزیزواقارب و متعلقین خواب خرگوش کا شکار ہیں۔ انھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا بیٹا کہاں ہے، ہماری دانست میں اس کے ذمے دار والدین ہیں۔
والدین کا اولین فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دیں اور ان کی سرگرمیوں پرگہری نظر رکھیں، بالخصوص جب وہ بلوغت کی حدود میں داخل ہو رہے ہوں، ان کو اچھا ماحول دیں۔ ان کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں ۔
پنچ وقتی نماز اور مطالعے کا شوق پیدا کریں۔ کہتے ہیں '' خالی دماغ، شیطان کا کارخانہ '' مصروفیت انسان کو ادھر ادھر ہونے نہیں دیتی۔ کھیل اور مختلف نوعیت کے تفریحی پروگرام میں دلچسپی پیدا کریں اور ان کو متحرک بنائیں ۔ ہمارے سماج کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کی پیدائش کے جتن کرتے ہیں۔
قابل تحسین ہیں، وہ صاحب جنھوں نے اپنے موبائل کیمرے کی مدد سے اس کی مکمل کوریج کے ساتھ ساتھ حکومت وقت سے دہائی ڈالی اور مزید تباہی کی طر ف اشارہ کیا۔ ایسے ہی نوجوانوں نے شہرکی ہیئت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ شہر میں جا بجا چوری کے واقعات رونما ہورہے ہیں ممکن ہے یہ کارروائیاں ان ہی منشیات زدہ نوجوانوں کی ہی ہوں۔
پارکوں،کھیلوں کے میدانوں، مین شاہراہوں اور سڑکوں کے اطراف میں نصب لوہے کی باڑوںکی اکھاڑ پچھاڑ، سڑکوں کے بیچوں بیچ بچھائی گئی سیوریج لائنوں کے مین ہولز کے ڈھکن کی چوری سے نہ صرف ٹریفک کی روانی میں خلل پڑرہا ہے بلکہ خطرناک ٹریفک حادثات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ان منشیات کے عادی افراد کا علاج ممکن ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہمارے ہاں اس مخصوص علاج کے لیے سرکار ی سطح پر اسپتال کے قیام کی بے حد ضرورت ہے۔
شہر میں بے شمارفلاحی تنظیمیں موجود ہیں جو صحت مند افراد کے لیے فٹ پاتھوں پر دستر خوان کا اہتمام کرتی ہیں، ان کو چاہیے کہ ایسے افراد کے علاج معالجے کی سہولیات کے لیے اسپتال ہی قائم کر دیں، تاکہ یہ لوگ سر عام کوڑے کے ڈھیر اور مصروف ترین سڑکوں، شاہراہوں کے فٹ پاتھوں پر پڑے نشے میں دھت نظر نہ آئیں۔
شراب ذہن کا فتور ہے اور ہیروئن عقل و خرد کی موت ہے، آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم نے ہلاکت سے بچنا ہوگا، فتور سے نکلنا ہوگا۔ موت کو زندگی میں بدلنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں معاشرے سے منشیات کے ناجائز کاروبارکا جڑ سے خاتمہ کرنا ہوگا، جو بلاشبہ ملک و قوم کی تعمیروترقی کا ضامن ہے۔