رقبہ دو مرلے

میں جو دو مرلہ اراضی کی ملکیت کا کیس دیکھنے فائل کے اوراق پلٹ رہا تھا قتلوں کے حوالے میں الجھ کر رہ گیا


Hameed Ahmed Sethi June 01, 2014
[email protected]

اٹھارہ بیس سال پرانی بات ہے عدالت کے ریڈر نے ایک غیر معمولی فربہ فائل میرے سامنے رکھ دی اور فریقین مقدمہ کو آواز دلوائی۔ ایک فریق حاضر ہو گیا دوسرے فریق کے نمائندے نے درخواست پیش کی کہ اس کے وکیل کسی دوسری عدالت میں مصروفیت کی وجہ سے التوا چاہتے ہیں۔

فائل کی جسامت کے پیش نظر میں نے بھی درخواست فوراً منظور کرتے ہوئے اسے زیر التوا رکھنے ہی میں سکون محسوس کیا اور دو ماہ بعد کی تاریخ مقرر کر دی۔ یاد پڑتا ہے کہ کسی نہ کسی تکنیکی وجہ سے سات آٹھ ماہ تک مجھے وہ فائل کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی البتہ ایک بار فریقین کے وکلا حاضر تھے تو میں نے دس کلو وزنی فائل کھول کر ورق گردانی شروع کی تو ایک فریق کے وکیل نے تیاری مقدمہ کے لیے مہلت کی درخواست کر دی۔ یوں میں اس کیس کی بنائے تنازعہ جاننے سے بھی محروم رہ گیا۔

عموماً فریقین مقدمہ باری آنے یا پکارے جانے پر عدالت میں حاضر ہونے یا ہر دو جانب کے وکلاء کو لانے میں تاخیر کر دیتے ہیں لیکن مذکورہ کیس کے فریقین گویا حاضری کے لیے بے چین پائے جاتے ہیں اور ایک جمگھٹے میں کمرہ عدالت کو چند سیکنڈ میں بھر دیتے۔ تجسس کی بنا پر ایک روز فرصت پا کر ریٹائرنگ روم میں فائل کھول ہی لی۔

فریقین مقدمہ قریبی رشتہ دار نکلے ان کی زرعی اراضی ایک دوسرے کے قریب بلکہ دو ایک جگہ ایک دوسرے کو چھوتی تھیں۔ ایک روز جب 18 سال قبل تنازع کی ابتدا ہوئی تو پانی کی زیادتی کی وجہ سے فریقین کی چند کرم رقبے کے اِدھر اُدھر ہونے کی وجہ سے ملکیت پر اختلاف کی بنا پر ہاتھا پائی بڑھ کر لڑائی اور پھر بندوق کے ایک فائر تک پہنچ گئی۔

ایک فریقین کے نوجوانوں تک فائرنگ کی اطلاع پہنچی تو وہ مشتعل اور مسلح ہو کر جوابی ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔ دونوں طرف کے بزرگوں نے اس معاملے پر صلح صفائی تو کرا دی لیکن فضا میں بارود کی بو سب نے سونگھ لی تھی اور لڑنے سے لڑانے والے اس قسم کی بنیادی طور پر معمولی تنازعے پر تیل چھڑکنے اور اسے تیلی کا شعلہ دکھانے میں تیزی دکھاتے ہیں پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا تاریکی میں فائر ہوا اور ایک لاش گر گئی۔

بلبلے جیسا تنازعہ لہو میں نہا گیا۔ دو مرلہ زمین کا تنازعہ جس پر محکمہ مال والوں نے بھی ابھی رائے نہیں دی تھی کہ اس میں کوئی حقیقت بھی تھی یا محض مغالطہ یا پیمائش کی غلطی کی وجہ سے بات بتنگڑ میں چلی گئی تھی اور وہ معاملہ جو پٹواری یا زیادہ سے زیادہ تحصیلدار نے طے کر دینا تھا قتل کی دشمنی سے سیشن عدالت اور عدالت عالیہ کے زیر سماعت آ چکا تھا۔ اس ایک قتل کا جواب بھی تو آنا تھا۔ یوں ایک اور قتل ہوا مزید گرفتاریاں ہوئیں اور اب یہ پر امن افراد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر اپنے گروپ کے محافظ اور مخالف گروہ کے دشمن ہو گئے۔

میں جو دو مرلہ اراضی کی ملکیت کا کیس دیکھنے فائل کے اوراق پلٹ رہا تھا قتلوں کے حوالے میں الجھ کر رہ گیا۔ جیسے جیسے میں مثل کے ورق آگے کی طرف لے جا رہا تھا دو مرلے کے فریقین کے قتلوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ فائل دراصل اس وقت بہت سی سیڑھیاں اتر کر یعنی Remand ہو کر مجھ تک پہنچی تھی ایک جگہ مجھے اسی یعنی اپنی عدالت کا فیصلہ بھی نظر آ گیا جو کئی سال قبل میرے ایک پیش رو کا تحریر کردہ اور میرے تجربے کے مطابق درست تھا لیکن یہاں تو کھلی چھوٹ ہے اپیل در اپیل۔ دراصل بہت سے قتلوں کے مقدمات جو ان دو مرلوں نے کروائے ابھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچے تھے اور وکلاء کی موج لگی ہوئی تھی ہر کسی کے پاس ان ہی فریقین کے قتلوں کے مقدمات بھی تھے۔ کسی کے پاس چار کسی کے پاس تین کسی کے پاس دو اور شاید ابھی اور ہونے تھے۔

میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک دو کلاء حضرات اس بھاری بھرکم مثل مقدمہ کے ساتھ دوڑتے دوڑتے تھک کر اللہ کو پیارے بھی ہو گئے تھے۔ میں نے لائٹ موڈ میں ایک باریش فریق مقدمہ سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ اسکول جاتا تھا جب مقدمہ شروع ہوا اب وہ چار بچوں کا باپ تھا جس اراضی کا تنازعہ تھا اب ویران پڑی تھی اور کئی ایک بزرگوں نے اپنی زمینیں بیچ باچ دی ہوئی تھیں کئی خوشحال اب کنگال ہو چکے تھے نہ وہ مقدمہ چھوڑنے کی پوزیشن میں رہ گئے تھے نہ مقدمہ ان کی جان چھوڑتا تھا۔ عزت اور غیرت نے ان کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا اور اب تو مقدمے کی تاریخ پر عدالت میں اصل مدعیان و مدعا علیہ کے پوتے نواسے بھی بزرگوں کا ساتھ دینے یعنی غیرتوں کے رکھوالے بھی عدالت میں آتے تھے۔

دیکھئے میں نے نصف سے زیادہ مثل کے اوراق پلٹ دیے ہیں اور ان دو مرلوں کی سیر نہ خود کی ہے نہ آپ کے پلے کچھ پڑنے دیا ہے۔ کیونکہ یہ مثل ایک مردہ فائل ہے جس نے درجنوں قتل کروا دیے۔ شاید آپ اسے بھوت فائل کہیں جس کی زندگی کا مقصد قتل انسانیت رزق وکلا مصروفیت عدلیہ بیشمار اہلکاران ماتحت عدلیہ کا شغل بے مقصد اور مجھ جیسے قلم کاروں کے ذریعے ایسے مقدموں کی حقیقت کھولنا ہے جن میں سے آنے والی سرانڈ کا ذکر بھی وہ اٹھارہ بیس سال بعد کرتے ہیں۔

دراصل مجھے یاد آیا اپنے وزیر اعظم کا بھارتی وزیر اعظم کی حلف وفاداری پر انڈیا جانا اور وہاں جا کر مقبوضہ کشمیر کے بارے تقاضائے انصاف نہ کرنا۔ اور بھول جانا یونائیٹڈ نیشن کی قرارداد کا ذکر کرنا اور اگر یونائیٹڈ نیشن اپنی قرارداد سے منحرف ہے اور کم از کم اس ایشو کو پھر وہیں لے جانا یا پھر کتاب عشق کا اگلا ورق کھولنا ہے تو اس مثل کا وزن بھی بڑھتا ہی جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں