مولانا مسعود الرحمن عثمانی کی شہادت

ہمہ وقت درس و تدریس میں مصروف رہنے والے ڈاکٹر عادل کو کراچی میں شہید کیا گیا


[email protected]

سنی علماء کونسل کے رہنما اور ملک کے معروف عالم دین مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی کو شہر اقتدار کے گنجان آباد علاقے غوری ٹاؤن کے داخلی راستے پر دن دیہاڑے انتہائی بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی اپنی گاڑی میں غوری ٹاؤن سے نکل رہے تھے، نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر گولیاں برسا دیں۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دونوں دہشت گردوں کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ آس پاس لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی، لیکن دہشت گردوں نے بلاخوف و خطر یہ وحشیانہ عمل مکمل کیا اور بڑے اطمینان سے اپنی موٹر سائیکل کو مولانا کی گاڑی کے آگے سے موڑا اور فرار ہوگئے۔

سارے واقعے اور ملزمان کے فرار ہونے کی مکمل وڈیو سی سی ٹی وی کیمروں نے محفوظ کرلی جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے۔ اس اندوہناک واقعے میں مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی اور ان کے ڈرائیور شدید زخمی ہوئے، جنھیں فوری طور پر قریبی اسپتال لے جایا گیا لیکن مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا، تاہم ان کے ڈرائیور کی جان اللہ نے بچا لی۔

بلا شک و شبہ یہ اندوہناک قتل ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی جانب دھکیلنے کی ایک گھناؤنی سازش کا حصہ ہے، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، دو چار نہیں، ہم نے ہزاروں علماء ایسے واقعات میں گنوا دیے ہیں۔

ہمہ وقت درس و تدریس میں مصروف رہنے والے ڈاکٹر عادل کو کراچی میں شہید کیا گیا، ابھی چند روز قبل نامور عالم دین علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، بزرگ عالم دین مولانا سمیع الحق کو بے دردی سے شہید کیا گیا، مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی جس قافلہِ حق سے تعلق رکھتے تھے اس قافلہِ حق کے ہزاروں علماء نے شہادت کے جام پیئے۔ علماء کی شہادتوں کی بڑی طویل اور تکلیف دینے والی فہرست ہے۔

کس کس کا نام لوں، سب ایک سے بڑھ کر ایک عالم ، منبر رسول کے وارث، دین مبین کے مبلغ تھے، ان میں سے کسی نے مرتے دم تک اﷲ کے دین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اﷲ کے دین پر کسی نے انگلی اٹھائی تو انھوں نے دلائل کے انبار لگا دیے، کبھی گولی کی بات نہیں کی، ہمیشہ دلیل سے بات کی، مگر جاہل اور دلیل سے معذور دشمن نے انھیں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی نام کے عثمانی تھے،کردار و گفتار میں فاروقی رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غیرت و استقامت کے پہاڑ اور دلیل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے، انھوں نے ہمیشہ دہشت گردی سے برملا نفرت اور اس کی مذمت کی، لیکن دلائل کی زبان میں ان سے بات کرنے والا کوئی مائی کا لعل نہیں آیا، اگر کوئی سامنے آیا تو گولی سے بات کرنے والا بزدل قاتل آیا۔

مولانا عثمانی ساری زندگی بلا خوف و خطر اپنی نرالی طرز پر بولتے رہے، ان کے پرجوش اندازِ خطابت پر اختلاف ہوسکتا ہے مگر اہل بیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ان کی عقیدت قابل رشک و قابل تقلید ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں میں ان کی تقاریر بڑی وائرل رہیں، وہ ایک جذباتی خطیب ضرور تھے لیکن انھوں نے بڑے دردناک اور المناک مواقعے پر بھی جذبات میں ہوش کا دامن نہیں چھوڑا، مولانا عثمانی جب اسمِ محمد ﷺ جیسے حسین موضوع پر برسات کی بوندوں کی طرح بولتے تو یوں لگتا تھا کہ علم کے جھرنے بہہ رہے ہیں اور نقیبِ خطابت اپنے اوجِ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔

مولانا ہارون قاسمی کو اٹھارہ ذوالحجہ کو شہید کیا گیا جب مولانا مسعود الرحمٰن عثمانی ان کی تدفین سے فارغ ہوکر آئے، مسجد میں مائیک سنبھالا اور اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں لہرا کر کہنے لگے کہ میرے ہاتھ میں قاسمی صاحب کی تربت کی مٹی اب تک لگی ہوئی ہے، کیا ہی خوش نصیبی انھوں نے پائی ہے کہ یومِ عثمان پر خدا نے انھیں حضرت عثمان کی طرح شہادت سے سرفراز فرمایا، اے کاش! ان کی جگہ میں ہوتا! اے کاش! ان کی جگہ میں ہوتا! خیر، آج نہیں تو کل ہماری باری ہے، بس اﷲ سے ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ اسی طرح کی سعادت مندی والی موت ہمیں بھی نصیب فرمانا۔ اﷲ تعالی نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا، اور ان کو یومِ صدیق اکبرؓ، جمعہ کا دن اور عصر تا مغرب کا وقت شہادت کے لیے ملا، یہ سعادت نہیں تو بھلا اور کیا ہے کہ قیامت تک ان کی نسبت یوم صدیق اکبر سے جڑ گئی۔

ان کی شہادت کی خبر پورے ملک میں جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گئی، دور دراز سے ان کے چاہنے والے اسلام آباد پہنچ گئے، ان کے جسد خاکی کو آبپارہ چوک لایا گیا، ہزاروں علماء اور ان کے دیوانے جمع ہوگئے، اپنے شہید قائد کے کے آخری دیدار کے لیے، انھیں کندھا دینے کے لیے، انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اور ان کے قتل ناحق کی پرزور مذمت کے لیے، سب آبپارہ چوک میں جمع تھے، بڑے بڑے علماء و مشائخ نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔

جانشین حضرت عزیز الرحمان ہزاروی رحمہ اللہ مولانا مفتی اویس عزیز ہزاروی نے بڑی فکر انگیز گفتگو کی، یہ ایسی گفتگو تھی جسے دین کا درد رکھنے والے ہر شخص کو ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے، جس معاشرے میں علماء کرام کی ایک تسلسل کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہو، بے شمار جید علماء کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں ایسے معاشرے میں بسنے والے ہر ہر فرد کے لیے یہ بڑی اہم گفتگو ہے، کب تک ہم حکومتوں کے پیچھے پڑے رہیں گے، ہمیں کیا کرنا ہے، اس کا حل برادر عزیز مفتی اویس عزیز نے بتا دیا، ان کی گفتگو پر کالم کا اختتام کرنے جارہا ہوں کیونکہ اس کے بعد لکھنے والی کوئی بات نہیں، ہاں بحیثیت مسلمان سوچنے کی بات ہم سب کے لیے ہے۔ تو پڑھیے مفتی اویس عزیز ہزاروی کی تقریر سے اقتباس:

''ہمارے ہاں غفلت ہے اور بے انتہا ہے، ناقدری ہے اور حد سے زیادہ ہے، کتنے قیمتی ہیرے گنوا دیے، کتنے جنازے پڑھ چکے، کتنی نعشیں اٹھا چکے، کتنے حادثوں کا سامنا کر چکے لیکن اس کے باوجود نہ تو علماء کرام اور اہم شخصیات کی سیکیورٹی کا تسلی بخش انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی میں ان شخصیات کی اہمیت اور کردار و خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔

حادثہ ہو جانے کے بعد بھی کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آتی تاکہ اس سلسلے کو روکا جا سکے، کتنے لوگ ہیں جو مختلف شعبوں میں گرانقدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو بہت حساس اور اہم محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں لیکن ان کے گرد و پیش رہنے والوں نے کبھی ان کی خیر خبر لی؟

ان کی سیکیورٹی کا تسلی بخش انتظام کیا؟ جلسوں اور پروگراموں کے لیے اور دیگر بہت سے مصارف کے لیے لوگ چندہ دیتے ہیں لیکن اپنے علماء اور قیمتی لوگوں کی سیکیورٹی اور ضروریات کی مد میں خرچہ کرنے کا تصور اور شعور ہی نہیں اور پھر حادثات ہو جانے کے بعد روایتی تقریروں اور اظہار افسوس کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاتا، ہمارے سرکردہ حضرات کبھی اس حوالے سے فکر مند نہیں ہوئے، کبھی اہم شخصیات سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں اور کبھی اس پر غور و خوض نہیں ہوا کہ علماء اور مذہبی کارکنوں کی شہادتوں کے اس سلسلے کو کیسے روکا جائے؟ اس اہم ترین معاملے میں اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس کیجیے اور اپنا اپنا کردار ادا کیجیے۔

اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور مختلف شعبوں میں دینی خدمات سرانجام دینے والوں کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو اپنی ذمے داریاں سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔'' آمین

مفتی اویس عزیز ہزاروی کی بات بجا مگر ہمارے اکابرین کو بھی خود احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ریاست بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے، لہٰذا ریاست کو بھی ہوش کے ناخن لے کر علمائے کرام کو بھرپور سیکیورٹی مہیا کرنی چاہیے ورنہ اس طرح کے واقعات ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں