کوچۂ سخن

میرا تجھ پر یقین محکم ہے<br /> محسنِ جاں ہے تُو پریتم ہے


Arif Aziz January 07, 2024
فوٹو: فائل

غزل
میرا تجھ پر یقین محکم ہے
محسنِ جاں ہے تُو پریتم ہے
تیرے ہاتھوں میں غم کا پرچم ہے
تُو پرایا نہیں ہے محرم ہے
میں نے سب وقت کر دیا برباد
کون ہے جس کے پاس مرہم ہے
میں نے دیکھا ہے خواب میں منظر
ایک چہرہ ہے اور وہ مبہم ہے
تجھ تغافل کا سامنا ہے مجھے
یوں بھی برہم نظامِ عالم ہے
تیری یادیں ہیں زیست کا مقصد
تیری صورت ہی اسمِ اعظم ہے
سن کے دل میں اترنے لگتے ہیں
میرے شعروں میں سوزِ بیدمؔ ہے
(مستحسن جامی۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
چاند راتوں پہ بات کرتے ہیں
آؤ خوابوں پہ بات کرتے ہیں
کھول کر وقت کے دریچوں کو
تیرے وعدوں پہ بات کرتے ہیں
روز تازہ غزل کا مطلب ہے
تیری آنکھوں پہ بات کرتے ہیں
کوئی بھر جائے گھاؤ ملنے سے
پھر سے زخموں پہ بات کرتے ہیں
دل جلوں سے بلالؔ مل کر ہم
اپنے شعروں پہ بات کرتے ہیں
(بلال اختر۔ رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
نگاہ میں تو اپنا پن ہے،اور لہجہ اجنبی
وہ آشنا سا آشنا وہ اجنبی سا اجنبی
جو آشنائے دل رہا ہے فاصلوں کے باوجود
قریب آ کے لگ رہا ہے مجھ کو کتنا اجنبی
ملا تو جیسے زندگی میں آ گئی بہار سی
گیا تو پھول پھول مجھ سے ہو گیا تھا اجنبی
بس ایک آشنائی سے بدل گئی ہے کائنات
یہ لوگ سارے اجنبی ہیں شہر سارا اجنبی
میں عنبرین صرف ایک نام پر فدا رہی
کہیں جہاں میں ہے کسی کو اتنا پیارا اجنبی
(عنبرین خان۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
لہروں پہ ڈال دو جو بھنور میں ہو ناؤ تو
تم بھی خدا کی طرح کرو ناخداؤ تو؟
ایسا تھا ایک شوخ کی چارہ گری کا حسن
بھرنے کو آ گیا تھا کئی بار گھاؤ تو
دونوں وہ صورتیں ہیں کہ جلنے لگے ہے جسم
صحبت میں شعلہ رُو کی نہ آؤ تو، آؤ تو
ہاں دوست دکھ کوئی نہیں سنتا، بجا کہا
کیا کچھ تمہارا حال رہا ہے؟ سناؤ تو
ہم وہ فقیر ہیں جنہیں کہتا رہے نصیب
جو کچھ بھی چاہیے ہے بتاؤ، بتاؤ تو
لب کیوں بکھیرتے ہیں دھوئیں کی جگہ پہ مشک
دل میں اُسی طرح ہے ابھی بھی الاؤ تو
اب حل یہی ہے سارے ملو اور پِل پڑو
کر ہی رہے ہو ورنہـ' بچاؤ بچاؤ ' تو
وہ عالمِ طلب ہے کہ ہاتھوں سے چھین لیں
قدرت کو یہ پڑی ہے کہ صبر آزماؤ تو
کیوں دنگ ہو زبیر! سنو دوستوں کے جھوٹ
فن کار کیا کمال کے ہیں، مسکراؤ تو
(زبیرحمزہ۔قلعہ دیدار سنگھ)


۔۔۔
غزل
ہر گھڑی راہِ یار میں،مَیں ہوں
اب تلک انتظار میں، مَیں ہوں
ہجر کی شب ہے اور ترا غم ہے
اس اکیلے دیار میں، میں ہوں
تو فقط ہے مری کہانی میں
قصۂ بے شمار میں،مَیں ہوں
میرا دشمن خزاں کا موسم ہے
اور وقتِ بہار میں،میں ہوں
مجھ کو اتنا بتاؤ کیا تیرے
دوستوں کے شمار میں،میں ہوں
میری ہر آہ میں بسی تو ہے
تری ہر اک پکار میں،مَیں ہوں
اپنا غم دو مری خوشی لے لو
اک نئے کاروبار میں،میں ہوں
دل ہے زندانِ مہر میں الہام
یار کے اختیار میں،میں ہوں
(الہام بلیاری ۔اسکردو)


۔۔۔
غزل
سہا نہیں گیا چھوٹی سی ایک جان کا بوجھ
ہَوا پہ بڑھنے لگا ہے مری اڑان کا بوجھ
ہم ایسے لوگ نمودار ہو کے رہتے ہیں
اگرچہ ہوتا ہے ہم پر کسی چٹان کا بوجھ
نشانچی ہوں مجھے سَمت کا تعین کر
میں جانتا ہوں ہَوا، تیر اور کمان کا بوجھ
یہ دائرانہ مسافت زمیں کو روکتی ہے
وگرنہ سَر سے اتارے یہ آسمان کا بوجھ
بناتا رہتا ہوں محراب میں جبینوں پر
دکھاتا رہتا ہوں ماتھے پہ اک نشان کا بوجھ
فصیل اب بھی نہ گرتی تو اور کیا کرتی
تمام شہر نے رکھا تھا اس پہ کان کا بوجھ
میں جست بھر کے کسی آنکھ میں اتر گیا ہوں
اتار پھینکا ہے میں نے ترے جہان کا بوجھ
قسم اٹھاؤں یا قرآن! فائدہ کیا ہے
مرے یقین پہ آیا ترے گمان کا بوجھ
(مصور عباس۔ بلوٹ، ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
عزیز لاش پہ لائے ہیں اختلاف تمام
مگر سبھی کو کروں گا نہیں معاف تمام
ہمیں بھی رقصِ خودی اب کشید کرنا ہے
جناب شیخِ ذرا کیجیے طواف تمام
تمھارے سر سے جسے بھی ہوئی کوئی نسبت
بنا نہیں سکیں گے کوئی شال باف تمام
سبھی کے دل میں کوئی نہ کوئی کہانی ہے
مگر بتانے سے کتراتے ہیں وہ صاف تمام
جبین بغض پہ عریاں منافقت دیکھی
ہمارے نام سے ہے جن کو انحراف تمام
عجیب عالمِ گریہ میں شہرِ خاموشی
دعا میں ہاتھ ہیں دل سے مگر خلاف تمام
اگرچہ اپنے تئیں کی گئی بہت کوشش
نہ کر سکا کوئی دیوار کا شگاف تمام
شبِ شباب گزاری ہے کس طبیعت میں
چناری آنکھ سے ہوتے ہیں انکشاف تمام
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
علَم جن کا ہے حق پر اُن کو خیرِ عام بھیجے گا
خدا الفت کے بندوں کو سبھی پیغام بھیجے گا
کبھی بتلائیں گے وہ کتنی دہری چال والا ہے
ہمارے سامنے بیٹھے ہوؤں کو جام بھیجے گا
اُسے معلوم ہے ہم کو سبھی اچھوں سے الجھن ہے
ہمارے پاس وہ قاصد کوئی بدنام بھیجے گا
بڑی تہہ داری آتی جا رہی ہے بات میں اُس کی
کسی سے ہم سخن ہوگا کسی کے نام بھیجے گا
کسی کے خط دوبارہ پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے
کبھی تحفے میں اپنی ایک دو وہ شام بھیجے گا
(عظیم کامل۔ جام پور)


۔۔۔
'' موسم''
محبتوں کا ہر ایک رشتہ
عداوتوں کا ہر ایک ناتا
دکھوں کی دلدل میں دہنس چکا ہے
سکھوں کا موسم گزر چکا ہے
سکھوں کی بستی اجڑ چکی ہے
ہماری سوچیں بدل چکی ہیں
انا کی میلی سیاہ چادر
بدن سے آ کر لپٹ چکی ہے
ہماری اپنی ہی بدگمانی کے جنگلوں میں
ہمارے سپنے اجڑ رہے ہیں
محبتوں کا ہر ایک رشتہ
دکھوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے
سکھوں کا موسم گزر چکا ہے
(رابعہ عمران۔رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
سن! اے میرِ کارواں خاموش رہ
کٹ نہ جائے یہ زباں خاموش رہ
جاہلوں کے سامنے لب کھول مت
گونگے بہرے ہیں یہاں خاموش رہ
سچ کا سودا اور منڈی جھوٹ کی
بولنا ہے رائیگاں خاموش رہ
ہو چکا ہے سچ پہ غلبہ جھوٹ کا
چیختا ہے آسماں خاموش رہ
بھوک، غربت، بے بسی کی آگ میں
ہو گیا سب کچھ دھواں خاموش رہ
گردنوں میں طوق ہے اک خوف کا
ظلمتوں کا ہے سماں خاموش رہ
ہر طرف آہ و فغاں اور خوف ہے
غم بھری ہے داستاں خاموش رہ
بے ضمیروں کو دکھا مت آئینہ
تو یہاں طلحہ میاں خاموش رہ
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
مفتی صاحب کی اک پہیلی کی
کیا کہوں آپ سے میں 'ایلی' کی
مائیں ایسا وجود ہوتی ہیں
جیسے خوشبو کوئی چنبیلی کی
ایک بوڑھا شجر سلامت ہے
رونقیں ہیں ابھی حویلی کی
مجھ کو تازہ ہوا کی مانند ہیں
صحبتیں ہیں جو یار بیلی کی
اپنے محبوب پر کرو فوکس
چھوڑ دو جان تم سہیلی کی
(حارث انعام ۔نوشہرہ)


۔۔۔
غزل
افلاک کے پردوں میں خدا ہے کہ نہیں ہے
کچھ پوچھ رہا ہوں میں بتا ہے کہ نہیں ہے
کیا ہے ترے معیار کا میعاد کا محور
من میں کبھی طوفان اٹھا ہے کہ نہیں ہے
مالک ترے دروازے پہ اک شخص کھڑا تھا
وہ دیکھ کے لوٹا ہے کھلا ہے کہ نہیں ہے
طوفان میں کوئل کی طرح اڑ گئے مصرعے
یہ کس نے صدا دی کہ فضا ہے کہ نہیں ہے
کیوں ہے ترا شہکار خیالوں میں مصور
اک ضرب یوں سینے پہ لگا ہے کہ نہیں ہے
بارش میں کبھی آنا مرے گاؤں کی جانب
پھر دیکھنا مٹی میں نشہ ہے کہ نہیں ہے
ہم بھی کبھی دیتے تھے درِ یار پہ دستک
دیکھے بنا یہ قفل لگا ہے کہ نہیں ہے
(عاشق ہری۔ گانچھے ،گلگت بلتستان)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں