خواہشیں اور خدشے
بھارت اگر بڑا بھائی بن کر رہنا چاہتا ہے تو بے شک رہے لیکن اس کے لیے اس کو اپنے اندروہ ’’بڑا پن‘‘ بھی پیدا کرنا پڑے گا
نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اپنے وفد کے ارکان کے علاوہ کچھ خواہشیں اور خدشے بھی ساتھ لے کر گئے تھے، میڈیا کی اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواہشیں تو شاید ان کے دل میں ہی رہ گئیں البتہ کچھ مزید خدشے ان کی جھولی میں ڈال دیے گئے ہیں، ضروری نہیں کہ میڈیا میں دیا جانے والا یہ تاثر سو فی صد صحیح ہو، کچھ احباب اس سے عدم اتفاق بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ ایسے دوستوں کی اکثریت کا تعلق براہ راست مسلم لیگ ن یا اس کی قیادت سے ہے اور شاید اس حمایت کے ذریعے وہ محض حق نمک ادا کر رہے ہوں)۔
عزیزہ مریم نواز کا تعلق چونکہ خود حکومتی خاندان سے ہے اس لیے اگر وہ یہ کہیں کہ ان کے والد صاحب نے مخالفت کو دوستی میں بدل کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ قیادت اس کو کہتے ہیں تو ان کے اس بیان کو نمک خواروں اور بہی خواہوں کے ارشادات سے علیحدہ رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ کہ آخر پروٹوکول بھی کوئی چیز ہے۔اتفاق سے یہ کالم 28 مئی کو لکھا جا رہا ہے جسے پوری قوم ''یوم تکبیر کے نام سے یاد کرتی ہے کہ آج سے سولہ برس قبل اسی روز ہم نے بھارت کی مسلسل دھمکیوں اور ممکنہ حملے کے جواب میں ایٹمی دھماکوں کی شکل میں ایک ایسا دفاعی حصار تعمیر کر لیا تھا جسے اگر صحیح طور پر استعمال کیا جاتا تو شاید آج وطن عزیز ہر اعتبار سے ایک بہتر' محفوظ اور ترقی پذیر ملک ہوتا اور جہاں تک اس کی سیاسی اہمیت کا تعلق ہے۔
میری ذاتی رائے میں اگر ہم اس کی موجودگی کے باوجود بھارت سے کشمیر' بلوچستان' پانی اور ہماری سرحدوں پر کی جانے والی تخریبی کارروائیوں کے مسائل پر نتیجہ خیز گفتگو نہیں کر سکتے تو پھر اس کی حیثیت بھی کسی نام نہاد تخلیق کار کے اس قلم جیسی ہی ہو گی جس سے صرف شلوار میں ازار بند ڈالنے کا کام ہی لیا جا سکتا ہے۔ اپنی تمام تر قابل نفرت خرابیوں کے باوجود فی الوقت ایٹم بم عالمی امن کو قائم رکھنے کے ضمن میں ایک ایجنٹ کا کام کر رہا ہے سو اس کی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانا دانشمندی بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ اس کو چلا کر دکھانا کسی بھی صورت میں ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے لیکن اس کے چل جانے سے پیدا ہونے والی تباہی کا احساس دلاتے رہنا پاکستان اور بھارت سمیت ساری دنیا کے لیے ضروری ہے کہ خدانخواستہ اب کوئی عالمی جنگ ہوئی تو وہ تیسری نہیں آخری ہو گی۔
یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ میاں صاحب ایک رسمی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو صرف مبارک باد دینے کے لیے گئے تھے اور یہ موقع دلہن کی رونمائی جیسا ہوتا ہے کہ ایسے میں تعریف اور دعا کے علاوہ سب لفظ بے موقع ٹھہرتے ہیں لیکن بالکل اسی طرح دلہن والوں پر بھی مہمانوں اور باراتیوں کی تعظیم لازم ہے کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے سو جب مودی حکومت کی طرف سے پاکستان کو کچھ معاملات پر شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تو ہمارا بھی حق بنتا تھا کہ ہم بھی جوابی شوکاز نوٹس ان کی خدمت میں پیش کر دیتے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق بھارتی میڈیا نے میاں صاحب کی تو بہت پذیرائی کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج پر مسلسل کی جانے والی تنقید کی شدت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
ایک زیرک سیاستدان اور مدبرانہ سیاسی وژن رکھنے والے قومی لیڈر کو ان کے اس بھرے میں نہیں آنا چاہیے فوج اور حکومت میں کسی مسئلے پر اختلاف ہو سکتا ہے اور دنیا بھر میں ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن جب سامنے کوئی تیسرا ہو (اور وہ بھی ایک مخصوص ایجنڈے کا حامل) تو دونوں کو ایک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہونا چاہیے کہ جو بظاہر الگ الگ ہوتی ہیں لیکن جب دفاع کے لیے مکے کی شکل اختیار کرتی ہیں تو ان میں کہیں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ فوج کے حوالے سے میاں صاحب کے سابقہ تجربات کا نفسیاتی ردعمل اپنی جگہ مگر اب وہ صرف ایک شکایت کنندہ ہی نہیں ایک ایسی حیثیت بھی رکھتے ہیں جو سپریم کورٹ سے دی جانے والی موت کی سزا کو بھی ختم یا معطل کرنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ انکسار اور عاجزی بہت اچھی چیز ہے اور اللہ کو بہت پسند بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کی حفاظت کو بھی انسان کے لیے ضروری اور لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اور بے موقع انکسار آپ کی کمزوری بھی بن سکتا ہے۔بھارتی حکومت کے پیش کردہ مطالبات ان کے نزدیک اہم ہو سکتے ہیں لیکن ان کا مقابلہ کسی طرح بھی ہماری سرحدوں پر جاری بھارتی دراندازی' مسئلہ کشمیر' بلوچستان کے معاملات میں مداخلت اور پانی کی تقسیم کے بحران سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بھارت کے اہل فکر و نظر کے بھی علم میں ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کا ادراک موجود ہے ضرورت صرف دانش' حوصلے، تدبر اور انصاف کے ساتھ ان معاملات کو حل کرنے کی ہے۔
بھارت اگر بڑا بھائی بن کر رہنا چاہتا ہے تو بے شک رہے لیکن اس کے لیے اس کو اپنے اندر وہ ''بڑا پن'' بھی پیدا کرنا پڑے گا جو اس رشتے کا اٹوٹ انگ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ پہلے وہ ''بھائی'' تو بنے کہ بڑا بھائی بننے کے لیے بھائی بننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا انٹرنیشنل بننے کے لیے پہلے نیشنل بننا۔میاں برادران نے یقیناً بھٹو دور میں مشہور ہونے والا وہ لطیفہ سنا ہو گا جب ایک بندر کو Rotation کے نظام کے تحت جنگل کی بادشاہت مل گئی تھی چھوٹے موٹے معاملات میں تو وہ فیصلے کرتا رہا مگر جب باری شیرکے خلاف ایک درخواست کی آئی تو اس نے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ شکایت کنندہ نے تنگ آ کر کہا، ''جناب میرے مقدمے کا فیصلہ کیجیے''۔
بندر نے ایک اور درخت پر چھلانگ لگائی اورکہا
''فیصلے پر لعنت بھیجو یہ دیکھو کہ میں دوڑ دھوپ کتنی کر رہا ہوں''
بدقسمتی سے آج کل ان کے کچھ وزراء بھی اسی طرح کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ان کو بھی اس کام سے روکیں اور خود اپنی دوڑ دھوپ کو بھی موثر اور نتیجہ خیز بنائیں۔