اسرائیلی تھنک ٹینک اپنی سوچ اور تکنیک میں اس وقت سب سے آگے ہیں۔ ان کی حکمت عملی کے نتائج ملاحظہ فرمائیں کہ کیسے ساری دنیا کو اپنی سوچ اور طریقہ کار سے اپنے سحر اور حصار میں لے لیا ہے۔ غزہ پر حملے کے بعد ساری دنیا باتیں حماس کی حمایت میں کر رہی ہے مگر عملی طور پر ساتھ اسرائیل کا دے رہی ہے۔ ذکر فلسطین کے جانی اور مالی نقصان کا ہورہا ہے مگر تحفظ اسرائیل کے مفادات کا ہورہا ہے۔ ایسے حالات اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ حماس اور ایران بھی بالواسطہ اسرائیل کی پالیسی کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔
ایسا صرف اس بار ہی نہیں ہوا بلکہ اسرائیل ہمیشہ سے ایسا ہی کرتا چلا آرہا ہے۔ حماس کو اسرائیل اپنے مقاصد کےلیے ایسے استعمال کرتا آرہا ہے جس طرح مشرق وسطیٰ میں امریکا ایران کو استعمال کرتا آرہا ہے۔ جہاں اسرائیل یا امریکا نے اپنے مفادات حاصل کرنا ہوتے ہیں وہاں وہ حماس اور ایران کو ششکارتے ہیں کہ وہ وہاں پر کوئی ایسا قدم اٹھائیں کہ اسرائیل اور امریکا کو وہاں دخل اندازی کا موقع مل جائے۔ غزہ پر حملہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔
اسرائیلی 7 اکتوبر کے حملے کو جان بوجھ کر اپنی انٹیلی جنس کی ناکامی تصور کرا رہے ہیں۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ وہ ملک جو ساری دنیا کو طاقتور آلاتِ جاسوسی برآمد کررہا ہو وہ انٹیلی جنس میں غفلت یا کوتاہی برت سکتا ہے؟ دراصل یہ نقلی ناکامی ان کی ایک چال تھی کیونکہ وہ یہ حملہ خود کروانا چاہتے تھے، تاکہ غزہ پر حملہ کرنے کا جواز اور بہانہ مل جائے۔ ایسا ہی ہوا، حماس کو جب اسرائیلی انٹیلی جنس کے بگلا بھگت بننے کا عندیہ ملا تو اس نے فرمائشی حملہ کردیا۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ اس کا خمیازہ اب فلسطینی نہتے عوام بھگتیں گے جبکہ حماس کی لیڈرشپ اپنے محفوظ بنکروں میں پردہ نشیں ہوجائے گی۔
اسرائیلی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ ناجائز قبضے کو مضبوط کیا جائے۔ اس سے پہلے اسرائیل نے غزہ کے جتنے حصے پر قبضہ کیا تھا اب وہ ماضی کا حصہ بن چکا تھا، تب اس نے اپنا کنٹرول بڑھانے کےلیے یہ قدم اٹھایا۔ ساری سفارت کاری مکمل کرنے کے بعد یہ عمل کیا گیا، تبھی تو غزہ پر اسرائیلی حملے اور مظالم کی امریکا نے کھل کر حمایت کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ حمایت کے حوالے سے عالمی رائے عامہ نہ امریکا کو کوئی نقصان پہنچا سکی اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی اثر ڈال سکی۔ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت سے امریکی خارجہ پالیسی کو ذرا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ دنیا اخلاقیات پر نہیں بلکہ مفادات پر قائم ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ماضی قریب میں فرضی القاعدہ کے بعد اگر امریکی مداخلت کا جواز پیدا کیا تو ایران نے کیا، یا کم از کم ایران اس کی وجہ ضرور بنا۔ ادھر فلسطین میں اسرائیلی مفادات کو آگے بڑھانے میں حماس ملوث پائی گئی۔ کیونکہ فلسطین اتھارٹی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ حماس نے کہاں اور کیوں حملہ کیا اور بے چارے ہزاروں فلسطینی شہید کردیے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ اب وہ کبھی غزہ اپنے گھر نہیں جاسکیں گے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کبھی خالی نہیں کرنا بلکہ اس پر اپنا قبضہ اور بھی مضبوط کرنا ہے۔ اسرائیل کو جو ڈر تھا کہ مسلم دنیا اس کے خلاف سینہ سپر ہوجائے گی وہ بالکل اس کے برعکس ہوا۔ سوائے اپنے ہی ممالک میں اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگانے کے کوئی مسلم ملک کسی طرح کا کوئی دباؤ اسرائیل پر نہ ڈال سکا۔ اس کے برعکس بہت سے مشرق وسطیٰ کے ممالک نے تو سرے سے حماس کی ہی مخالفت کردی کہ وہ ان کی فضائی حدود ہی استعمال نہ کرے۔
کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل سے تعلقات کو گزند نہیں پہنچنے دی۔ اس بار نہ صرف اسرائیل اور امریکا ہمیشہ کی طرح متحد نظر آئے بلکہ بالعموم ساری دنیا ہی اسرائیل کی حمایت ہی کرتی رہی۔ امریکی وزیر خارجہ اور صدر نے اسرائیل جاکر یہودیوں کی ہرطرح کی مدد کا اعادہ اور وعدہ کیا، مسلم ممالک اور عوام کو دھمکی بھی دی کہ امریکا اسرائیل کا کوئی نقصان برداشت نہیں کرے گا اور جو بھی ایسا کرنے کا سوچے گا اسے خوفناک نتائج کےلیے تیار رہنا ہوگا۔
امریکا نے ہر اس قرار داد کو ویٹو کیا جو سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی۔ امریکی عوام بھی اسرائیلیوں کی حمایتی ہی رہی ہے۔ اور تمام سیاسی پارٹیاں اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہمیشہ ہی خواہش مند رہی ہیں کہ وہ ان پارٹیوں کے جیتنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسرائیل کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کردے امریکی اسی کا ساتھ ہی دیں گے۔ امریکیوں کے علاوہ یورپی بھی عام طور پر اسرائیل کے اتحادی ہی ہیں۔ اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنے ہم خیال میڈیا کے ذریعے یہ باتیں پھیلا دی ہیں کہ حماس والے اموات اور زخمیوں کے حوالے سے مبالغہ آرائی کررہے ہیں۔ اسرائیل نے جنگ بندی کو ایک چال کے طور پر استعمال کیا اور اپنی افواج کو ذرا آرام کا موقع بھی دیا اور دنیا کی ہمدردی بھی حاصل کرلی کہ اسرائیل تو جنگ بند کرنا چاہتا تھا حماس نے پھر حملہ کردیا۔
میرے خیال میں وہ تجزیہ نگار جو حماس کی برتری دکھا رہے ہیں وہ یہودی تھنک ٹینک کے نظریات پر ہی عمل پیرا ہیں کہ دنیا کو یہ باور کراؤ کہ حماس بہت طاقتور اور پرعزم ہے اور یہودیوں کی اینٹ سے اینٹ بجارہی ہے تاکہ ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ ہمدردی برقرار رکھے اور اس مفروضے کے پردے میں عام فلسطینیوں کا قتل عام کرتے جاؤ، غزہ پر اپنا قبضہ پکا کرلو، پھر خاموشی اختیار کرلو کہ دنیا کو کہنے دو جو بھی وہ کہتی ہے۔ حماس کے دعوے قیاسات پر مبنی تو ہوسکتے ہیں حقائق پر نہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج کے پاس دنیا کے جدید ترین جنگی آلات ہیں اور ایک جدید تربیت یافتہ فوج ہے جسے کسی طرح بھی گھات لگا کر نقصان پہنچانا مشکل نظر آتا ہے۔
اسرائیل نے تو نام نہاد سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کو بھی آنکھیں دکھائیں اور ان اہلکاروں کو خوب برا بھلا کہا جنہوں نے فلسطینیوں کے حقوق کی محض بات کرنا چاہی۔
اسرائیلی اپنے اندازوں کے مطابق اپنا مقصد حاصل کرچکے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ وہ حماس کا تیس فی صد تباہ کرنے ہی والے ہیں۔ تیس فی صد نظریے والے صیہونی تجزیہ نگاروں کے مطابق سخت ترین جنگجوؤں پر مشتمل افواج کے تیس فی صد کو اگر ختم یا تہہ تیغ کردیا جائے تو وہ افواج ہار مان لیتی ہے۔ اس تیس فی صد والے مفروضے کے مطابق تیس سالہ جنگ، نپولین کی جنگوں، امریکی سول وار، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ایسا ہی ہوا۔ حماس کے ساتھ بھی تیس فی صد والا کلیہ لگ چکا ہے۔
اس جنگ کے بھیانک نتائج یہ ہیں کہ اب اسرائیلی نہ تو کبھی غزہ چھوڑیں گے اور نہ ہی لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ پائیں گے بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ اردگرد کے ممالک میں ہی کہیں ضم ہوجائیں گے۔
اس وسیع تباہی کا ذمے دار کون ہے؟ کسے قصور وار قرار دیا جائے، اسرائیل یا حماس کو، ایران کو، امریکا یا اقوام متحدہ کو یا مسلمانوں کی بے حسی کو؟ قصور سب کا ہی ہے لیکن مارے تو بیچارے فلسطینی گئے جن کے گھر بار، بال بچے چھن گئے اور ان کےلیے قیامت سے پہلے ہی قیامت برپا ہوگئی۔ دنیا اخلاقیات کی بات تو کرتی رہی مگر ساتھ اپنے اپنے مفادات کا دیا، کیونکہ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔