کسی ریٹائرڈ ملازم یا بیوہ سے مکان یا فلیٹ خالی نہیں کروا رہے اسٹیٹ آفس کراچی

اسٹیٹ آفس کراچی نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ہے


عامر خان December 20, 2023
فوٹو : سوشل میڈیا

کراچی میں وفاقی رہائشی کالونیوں میں کسی ریٹائرڈ ملازم یا انتقال کر جانے والے ملازم کی بیوہ سے کوئی سرکاری مکان یا فلیٹ فی الحال خالی نہیں کرایا جا رہا ہے بلکہ ان وفاقی سرکاری مکانات اور فلیٹوں کو خالی کرانے کے لیے اسٹیٹ آفس کارروائی کر رہا ہے جن پر قبضہ ہو چکا ہے۔

یہ بات وفاقی وزارت ہاؤسنگ کے ذیلی ادارے ریجنل ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ آفس منیجمنٹ کراچی کے اعلیٰ حکام نے ایکسپریس کو بتائی۔ حکام نے بتایا کہ یہ اطلاعات غلط ہیں کہ اسٹیٹ آفس کراچی قانونی طور پر رہائش پذیر ریٹائرڈ ملازم یا انتقال کر جانے والے ملازم کی بیوہ سے سرکاری مکان یا فلیٹ خالی کروا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریٹائرڈ ملازمین کی اکثریت جن کے پاس سرکاری مکان یا فلیٹ ہیں، وہ قانون کے مطابق ''سیلنگ رینٹ'' ادا نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ریٹائرڈ ملازم اپنے کرائے ماہانہ طور پر ازخود اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسٹیٹ آفس کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ تمام سرکاری ریٹائرڈ ملازمین، جن کے پاس سرکاری مکانات یا فلیٹ اپنی سروس کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی موجود ہیں، ان کے کرائے کی کٹوتی ان کی پینشن سے کرائیں اور ان کا ریکارڈ اے جی پی آر (اکاونٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو) کو بھیجیں۔ ان ہدایات کے بعد مرحلہ وار ان ملازمین کا ریکارڈ اے جی پی آر کو بھیجا جا رہا ہے اور اے جی پی آر قانون کے مطابق ان مکانات کے کرائے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن سے '''منہا'' کر رہا ہے۔

حکام نے بتایا کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی رہائش خالی کرانے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی اور جو احکامات ملیں گے، اس پر عمل ہوگا۔ فی الحال مکانات یا فلیٹ خالی کرانے کے لیے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا جا رہا اور نہ اس حوالے سے کوئی کارروائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ کارروائیوں میں اسٹیٹ آفس نے کراچی میں 600 سے زائد سرکاری مکانات اور فلیٹ خالی کرائے ہیں اور یہ تمام کارروائی قانون کے مطابق کی گئی ہے۔

حکام نے بتایا کہ کراچی میں اسٹیٹ آفس کے تحت پاکستان کوارٹر، مارٹن کوارٹر، جہانگیر روڈ، کلفٹن، ایف سی ایریا اور دیگر وفاقی رہائشی کالونیوں میں 7852 سرکاری مکان یا فلیٹ ہیں جن میں حاضر سروس، ریٹائرڈ یا انتقال کرنے جانے والے ملازمین کے اہلخانہ موجود ہیں۔ بیشتر پر قبضہ ہے جن کو خالی کرانے کے لیے اسٹیٹ آفس کراچی ایکشن لے رہا ہے۔

اسٹیٹ آفس کے حکام نے بتایا کہ کراچی میں پرانے وفاقی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین یا انتقال کر جانے والے ملازم کی بیوہ جن کے پاس سرکاری مکان یا فلیٹ موجود ہے، ان کی پینشن بند کرنے کے حوالے سے اے جی پی آر کو کوئی احکامات جاری نہیں کیے ہیں۔ اس حوالے سے جو اطلاعات زیر گردش ہیں، وہ غلط ہیں۔

اسٹیٹ آفس کراچی کے حکام کے مطابق اسٹیٹ آفس این او سی حاصل کرنے والے کسی بھی ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی پینشن بند نہیں کر سکتا ہے، گزشتہ دنوں ایک لیٹر جو مختلف حلقوں میں زیر گردش ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ آفس نے 12 وفاقی محکموں کو خط لکھا ہے، اس خط کے بارے میں یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ اسٹیٹ آفس نے این او سی جاری ہونے کے بعد وہ تمام ریٹائرڈ ملازم، جن کے پاس سرکاری فلیٹ یا مکان ہیں، ان کی پینشن بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یہ اطلاعات درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ریٹائرڈ ملازم جو اپنی سروس کی مدت پوری کر چکے ہیں اور انہیں اسٹیٹ آفس نے تمام قانونی امور مکمل ہونے کے بعد این او سی جاری کی ہے اور انہیں پینشن مل رہی ہے اور ان کے پاس سرکاری مکان یا فلیٹ موجود ہے، ان کی پینشن کو روکنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان سے فی الحال کوئی مکان یا فلیٹ خالی کرایا جائے گا۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کی پالیسی کے مطابق ہوگا۔

اسٹیٹ آفس کے حکام نے بتایا کہ جو وفاقی ملازمین کراچی میں گزشتہ چند ماہ میں اپنے محکموں سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں، ان ملازمین کے پاس اگر سرکاری رہائش موجود ہے، ان سرکاری ملازمین کو این او سی جاری نہیں کی جا رہی ہے۔ این او سی کے اجراء پر پابندی گزشتہ وفاقی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے لگائی تھی اور یہ این او سی سرکاری مکان یا فلیٹ خالی کرنے سے مشروط ہے، جو ریٹائرڈ ملازم سرکاری فلیٹ یا مکان خالی کر رہا ہے، ان کو اسٹیٹ آفس این او سی جاری کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 200 سے زائد این او سی کیسز اسٹیٹ آفس کے پاس موجود ہیں۔ یہ ملازمین مختلف سرکاری محکموں سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور ان کے پاس سرکاری فلیٹ یا مکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این او سی کے اس فیصلے کو اسٹیٹ آفس ختم نہیں کر سکتا۔ یہ فیصلہ برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا معاملہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی پبلک اکاونٹس کمیٹی طے کر ے گی۔

اعلیٰ حکام نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اسٹیٹ آفس نے ایسے چند کیسز پکڑے ہیں جس میں کچھ ریٹائرڈ ملازمین نے جعلی این اوسیز بنا کر اے جی پی آر میں جمع کرائی تھیں اور اپنی پینشن اور واجبات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ جعلی این او سی کے کیسز اے جی پی آر نے اسٹیٹ آفس کو بھیجے ہیں۔ ان ملازمین کے خلاف کارروائی کے لیے ان کے متعلقہ محکموں کو خطوط بھیج دیے گئے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ یہ ریٹائرڈ ملازمین سرکاری رہائش خالی کر دیں گے تو ہم انہیں این او سی جاری کر دیں گے جس کے بعد یہ ملازمین اپنی پینشن اور واجبات اے جی پی آر سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے تمام وفاقی محکمے جن کے ملازمین کو اسٹیٹ آفس مکان یا فلیٹ ان کے گریڈ کے مطابق الاٹ کرتا ہے، ان کے ملازمین جب ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو ان محکموں کو اسٹیٹ آفس نے بذریعہ خط مطلع کیا ہے کہ وہ اپنے ریٹائرڈ ملازمین کے کیس براہ راست اے جی پی آر کو نہ بھیجیں بلکہ پہلے اسٹیٹ آفس کراچی سے این او سی حاصل کریں۔ ان محکموں سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ اسٹیٹ آفس وفاقی سیکریٹری وزارت ہاوسنگ اور ڈی جی اسٹیٹ کے احکامات کا پابند ہے۔ یہ دونوں اعلیٰ افسران محکمے کے تمام شعبوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔

اسٹیٹ آفس کے حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کی وفاقی رہائشی کالونیوں میں رہائش پذیر ریٹائرڈ ملازمین سے درخواست ہے کہ اگر ان کی پینشن سے کرایہ نہیں کٹ رہا ہے تو وہ فوری طور پر اپنے مکان یا فلیٹ کا کرایہ اسٹیٹ آفس کراچی کے رینٹ سیکشن سے دفتری اوقات میں بنوائیں اور انہیں طریقہ کار کے مطابق اسٹیٹ بینک میں جمع کرائیں۔

حالیہ دنوں میں ریٹائرڈ ہونے والے وفاقی سرکاری ملازمین جن کے پاس سرکاری مکان یا فلیٹ ہے، وہ اسٹیٹ آفس کراچی سے این او سی جاری نہ ہونے کے سبب مالی پر طور پر سخت پریشان ہیں۔

کئی ملازمین نے بتایا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے این او سی کو مکان خالی کرنے سے مشروط کرنے کے فیصلے سے ہماری پینشن اور واجبات اے جی پی آر نے روک دیے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی کے اس دور میں ہمارے لیے اپنے اہلخانہ کی کفالت کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے نگراں وزیر اعظم سے درخواست کی کہ انسانی ہمدردی کے مطابق اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے، کم از کم ہماری ماہانہ پینشن جاری کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔