لیلیٰ مجنوں
فارسی ادب میں لیلیٰ مجنوں کی محبت کا اصل واقعہ وہی ہے جو عربی ادب میں ہے ۔۔۔
جامعہ ازہر شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نے خیال ظاہر کیا ہے۔ یہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے جو عرب کے نجد کے علاقے میں رونما ہوا اور لازوال بن گیا۔
ڈاکٹر ابراہیم جو 2006سے 2011تک پانچ سال پنجاب یونیورسٹی کے فارن پروفیسر رہے ہیں اپنی کتاب ''لیلیٰ مجنوں...عربی، فارسی اور اردو شاعری میں'' لکھتے ہیں کہ مجنوں کا نام قیس تھا اور وہ ایک مالدار نجدی قبیلے بنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہ ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا۔ شاعر تھا۔ لیلیٰ جس کی محبت میں وہ مجنوں کہلایا، قیس ہی کے قبیلے کی ایک لڑکی تھی۔ مہدی بن سعد اس کا باپ تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔
قیس نے اپنے اشعار میں اس کی یوں تعریف کی ہے۔ ''وہ ایک چاند ہے جو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے، وہ نہایت حسین ہے۔ اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت نہیں۔'' کتاب الاغانی کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم لکھتے ہیں۔ ''ایک مرتبہ لیلیٰ نے اپنی پڑوسن کو قسم دے کر پوچھا، سچ بتا وہ جو مرے حسن کی اس قدر تعریف کرتا ہے، سچی تعریف ہے یا جھوٹی'' پڑوسن نے جواب دیا کہ ''وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا۔ تم ویسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہے۔''
''کتاب الاغانی'' جس کے مصنف ابوالفرج اصفہانی ہیں، لیلیٰ مجنوں کے قصے میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس قصے کی زبان سے زیادہ تفصیلات اسی میں پہلی مرتبہ سامنے آئیں۔ امام جاحظ نے بھی قیس کا ذکر کیا ہے عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کا قصہ یہ ہے کہ بچپن میں قیس اور لیلیٰ دونوں اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے تھے۔ وہ ساتھ بیٹھتے اور آپس میں باتیں کرتے۔ اس دوران انھیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ جب یہ دونوں بڑے ہوئے اور شباب کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی باہمی دلچسپی روز بہ روز بڑھنے لگی۔ پھر لیلیٰ پر پردہ کی پابندی لگ گئی۔ لیلیٰ کے پردے میں چلے جانے سے ملنا جلنا ختم ہوا۔ اس سے قیس کا اضطراب بڑھنے لگا اور محبت میں شدت آ گئی۔ قیس چوں کہ خوش بیان شاعر تھا اس لیے لیلیٰ کا ذکر اپنے اشعار میں کرنے لگا۔ اپنے ایک شعر میں وہ کہتا ہے۔
اے لیلیٰ! میں اس سچے عاشق کی طرح تجھ سے محبت کرتا ہوں جس کے لیے راہ محبت میں تمام دشواریاں جھیلنا آسان ہوتا ہے۔ میں تجھ سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ اگر تو بھی مجھ سے ایسی محبت کرنے لگے تو بھی جنون میں مبتلا ہو جائے گی۔ اس قسم کے جذباتی اشعار لیلیٰ کی رسوائی کا باعث ہوئے اور لیلیٰ سے قیس کی محبت کا قصہ مشہور ہو گیا اور قیس کی وارفتگی بھی بڑھنے لگی تو اس کے ماں باپ کو فکر ہوئی۔ وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا۔ لیلیٰ کے ماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اور انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا، لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا۔ لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔
اس صورت حال نے قیس کو اس قدر مضطرب کیا کہ وہ بیمار ہو گیا۔ اس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھا کہ واپسی ممکن نہ تھی۔ رفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائے اور بیت اللہ کی پناہ میں دعا مانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰ اور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔ اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔
راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔ اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کے باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گئے تا کہ انھیں لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادی پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ پھر لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔
جب قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بے تابی اور بے قراری بڑھ گئی۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔ نہ کھانے کی پرواہ نہ کپڑوں کی۔ گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔ لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔ اسی حال میں ایک دن اس کی نظر ایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔
چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا۔ڈاکٹر ابراہیم المصری لکھتے ہیں ''جہاں تک اس قصے کے ہیرو کا تعلق ہے تو وہ ایسے شاعر ہیں جن کو صحرا کے باسی ہونے کی وجہ سے انتہائی اعلیٰ درجے کی ذکاوت طبع اور وسعت خیال حاصل تھی۔ قیس ایک حساس اور رقیق القلب شاعر تھا اور بعض روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں حالانکہ یہ ممکن تھا کہ یہ محبت شادی کے ذریعے ان کے اجتماع پر منتج ہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔''
اس کے باوجود قدیم عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کے قصے کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق تھا۔ کسی شاعر یا ادیب نے اس کو اپنے تخلیقی کام کا موضوع بنا کر اس کو ادبی جامہ نہیں پہنایا۔ اس پر صرف اتنا کام ہوا کہ اسے تاریخ ادب کی کتابوں میں درج کر دیا گیا۔
ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں کہ ''لیلیٰ مجنوں کا قصہ عربی سے فارسی میں منتقل ہوا، اور اس کو فارسی ادب کا جامہ پہنایا گیا تو یہ شعرا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ صوفیہ کے اس نظریے کے تحت کہ انسانی محبت بعض اوقات عاشق کی روح کو رفعتوں سے ہمکنار کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کی یاد دلاتی ہے جس کے نتیجے میں عاشق انسانی محبت کی اعلیٰ منزل تک رسائی حاصل کر کے عاشق الٰہی بن جاتا ہے اور اس پر وجد اور وارفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، انسانی عشق کا یہ قصہ عشق الٰہی تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیا۔ نظامی گنجوی، خسرو، جامی اور مکتبی شیرازی جیسے بڑے فارسی شعرا نے اس قصے کو منظوم کیا ہے۔''
فارسی ادب میں لیلیٰ مجنوں کی محبت کا اصل واقعہ وہی ہے جو عربی ادب میں ہے لیکن تفصیلات میں فرق ہے۔ ہر شاعر نے اپنے قصے کے لیے عربی ادب سے اپنی پسند کی روایت اخذ کی ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کے قصے کا ماحول صحرائی ہے اور فارسی میں شہری۔ عربی ادب میں قیس اور لیلیٰ کی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے تھے مگر فارسی ادب میں ان کا ایک دوسرے سے تعارف مدرسہ میں ہوتا ہے جہاں وہ پڑھنے آتے تھے۔فارسی ادب میں یہ قصہ بہت مقبول ہوا۔
اگرچہ فارسی میں منتقل ہونے سے پہلے اس پر کسی حد تک تصوف کا رنگ چڑھ گیا تھا لیکن فارسی ادب میں یہ غالب طور پر تصوف ہی کا قصہ بن گیا۔ صوفیائے کرام اپنی محرومی، دکھ درد اور فراق کی ترجمانی کے لیے مجنوں کے اشعار پڑھا کرتے اور بہ طور مثال بیان کرتے۔ شبلی کہتے ہیں ''اے قوم! یہ مجنوں عامری ہے کہ جب بھی اس سے لیلیٰ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ہی لیلیٰ ہوں۔''
فارسی ادب سے یہ قصہ اردو ادب میں منتقل ہوا اور کئی شعرا نے جن میں دکنی شعرا، سر فہرست ہیں اسے نظم کا جامہ پہنایا۔ بہرحال قصہ لیلیٰ و مجنوں چاہے عربی میں ہو یا فارسی یا اردو میں، خلاصہ اس کا یہ ہے کہ قیس نے لیلیٰ سے محبت کی اور ایسی محبت کہ مجنوں کہلایا مگر لیلیٰ کو وہ نہ پا سکا۔ اصل قصہ تو یہی ہے باقی مختلف ادبیات عربی، ترکی، فارسی، اور اردو میں اس کی تفصیلات میں فرق ہے کہیں کم کہیں زیادہ۔ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری نے اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کی کتاب ایک تقابلی مطالعے سے بڑھ کر ہے۔ اس کی تحقیقی اہمیت ہے جس میں عربی، فارسی اور اردو شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔