چل گھر جلدی ہوگئی دیر
ہندوستان کی ایک فلم سوداگر سے بات شروع کروں گا۔ فلم کے اہم کردار دلیپ کمار اور راج کمار نے ادا کیے تھے
ہندوستان کی ایک فلم سوداگر سے بات شروع کروں گا۔ فلم کے اہم کردار دلیپ کمار اور راج کمار نے ادا کیے تھے اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کی ٹکر پر کمال اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کا تھیم سانگ ان ہی دنوں پر فلمایا گیا جس کے بول تھے:
املی کا بوٹا بیری کے بیر
املی کھٹی' میٹھے بیر
اس جنگل میں ہم دو شیر
چل گھر جلدی ہوگئی دیر
ہمارے جنگل کے بھی دو شیر ہیں، ایک وہ جس کا نشان شیر ہے اور دوسرا وہ جو خود کو ٹائیگر کہتا ہے۔ جنگل نے دونوں کی بادشاہت کو مہر لگا کر تسلیم کرلیا ہے اور دونوں اوپر تلے کامیاب ہوئے ہیں۔ پہلے نمبر والے شیر کو بڑا جنگل دیا ہے اور دوسرے نمبر والے کو چھوٹا۔ چونکہ دونوں شیر ہیں تو دھاڑتے رہتے ہیں، پہلے نمبر والا کم اور دوسرے نمبر والا زیادہ۔
دوسرے نمبر والا شیر جنگل کی بڑا چہیتا ہے۔ اس کی چال ڈھال، اکھڑ پن، سب کو اچھا لگتا ہے۔ مگر آج کل وہ کچھ زیادہ ہی شوخ ہوگیا ہے۔ اپنے پہاڑوں سے اتر کر دوسری راجدھانی میں آگھستا ہے اور زور زور سے دھاڑتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں بڑا شیر ہوں، پہلا نمبر میرا ہے۔ مجھے دھاندلی سے نیچے دھکیلا گیا ہے۔
یہ میں جن شیروں کا ذکر کر رہا ہوں سب سمجھ گئے ہوں گے۔ یہ ہمارے دونوں شیر نواز شریف اور عمران خان ہیں۔ اور مجھے اپنے پیارے عمران کا ذکر کرنا ہے۔ عمران خان سیاست میں نووارد، مگر اس نے دن رات ایک کردیے اور بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی صفوں کو چیرتا ہوا دوسرے نمبر پر آگیا۔ پورا ملک عمران خان کا گرویدہ ہے۔ خصوصاً نوجوان اس کے دیوانے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور عمران خان کو حکمرانی کا حق دار بنادیا۔
عمران خان بڑا قیمتی آدمی ہے، لوگ اسے ضایع ہوتا نہیں دیکھ سکتے الیکشن کو ایک سال ہوگیا۔ باقی چار سال بھی چٹکی بجاتے گزر جائیں گے۔ اللہ نے بڑا سنہرا موقعہ عمران خان کو عطا فرمایا ہے۔ تو اسے چاہیے کہ اپنے ''جنون'' سے کام لیتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا کے مسائل کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے۔ میرا خیال ہے کہ اگر عمران خان نے صوبے کے آدھے مسائل بھی حل کردیے تو آئندہ وزیر اعظم بننے سے اسے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اب بھی موقع ہے، عمران خان! اپنے گھر لوٹ جاؤ، وہ گھر جو تمہیں عوام نے دیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ تمہارے منتظر ہیں، وہاں بہت غربت ہے، وہاں بیماریاں ہیں، وہاں تعلیم کے دشمن ہیں، وہاں حد درجہ بے روزگاری ہے، وہاں پیٹ کی خاطر لوگ بوڑھے بیمار ماں باپ اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر بیرون ملک محنت مزدوری کرنے چلے جاتے ہیں۔ اندرون ملک بھی ان کی ہجرت جاری رہتی ہے۔ دوسرے صوبوں میں انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا نے اپنا ہمدرد، غم گسار سمجھ کر تمہیں اپنا بنایا ہے، اور تم اپنے گھر اور گھر والوں کے مسائل چھوڑ کر بیگانے لوگوں میں گھوم پھر رہے ہو۔
''تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو'' مانسہرہ میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کے لٹے پٹے گھر والے جیتے جی مر گئے ہیں، اور تم عمران خان! اب تک وہاں نہیں پہنچے۔ جس دن ڈی چوک پر ہمارا جلسہ تھا، اسی شام پشاور میں خودکش بمبار نے قیامت ڈھا دی، پانچ افراد موقعے پر ہی شہید ہوگئے، متعدد زخمی ہوئے، اس روز عمران خان! تمہیں پشاور چلے جانا چاہیے تھا۔ تمہارے باقی لوگ جلسہ کرتے رہتے۔ مگر تم جلسہ کرنے پہنچ گئے۔ بہت کچھ تو بگڑ چکا، مگر ابھی بھی وقت ہے، اپنے گھر لوٹ جاؤ، تمہارا گھر صوبہ خیبر پختون خوا، تمہارے ووٹر، سپورٹر تمہیں نوجوان کھلاڑی اسد عمر اور ولید اقبال کے ساتھ میدان عمل میں ظالموں کی وکٹیں اڑاتے اور چوکے چھکے لگاتے دیکھنا چاہتے ہیں، جیسے وسیم اکرم اور انضمام الحق نے ورلڈ کپ 1992 میں کھیل پیش کیا تھا۔
کپتان! تمہارے سینئر ساتھی، جاوید ہاشمی، شاہ محمود، جہانگیر ترین، اعظم سواتی، خورشید قصوری یہ تمہارے جاوید میانداد، معین خان، اعجاز احمد، رمیز راجہ، عاقب جاوید، مشتاق احمد ہیں۔ لوگ ان کو تمہارے ساتھ سڑکیں بنواتے، گلیاں پکی کرواتے، پل بنواتے، ریت بجلی سیمنٹ کے ڈھیروں پر بیٹھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ تم اور تمہاری ٹیم غریبوں، دکھیاروں، مظلوموں کے آنسو پونچھتے ان کے بوسیدہ گھروں میں بیٹھے نظر آئیں۔ کپتان! تم اور تمہاری ٹیم طالب علموں کے ساتھ کبھی ان کے اسکولوں کی مرمت، نئی تعمیر، صفائی ستھرائی تو کبھی کسی تفریحی پروگرام میں نظر آئیں۔ یہ طلبا و طالبات ہی تمہارا مستقبل ہیں۔
دہشت گرد آج بھی سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سرگرم عمل ہیں۔ تمہیں اور تمہاری ٹیم کو ہر ایسی جگہ فوراً پہنچنا چاہیے جہاں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو، یاد ہے ناں! جیسے بشیر بلور ہر جگہ سب سے پہلے پہنچتا تھا۔ بشیر بلور موت سے نہیں ڈرتا تھا اور یقین جانو، موت اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی۔ بشیر بلور جیسے لوگوں کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ (شاعر کا نام یاد نہیں)
مرے وجود کو تم کس طرح مٹا دو گے
بہت ہوا تو مجھے خاک میں ملادو گے
بشیر بلور کا نام اور وہ خود تاقیامت زندہ رہیں گے۔ اچھے لوگوں کے اچھے عمل کو اختیار کرنا چاہیے۔ کپتان! تم بڑے کینوس کے آدمی ہو، یہ تم کس دھماچوکڑی میں پڑگئے! یہ تمہارا معیار نہیں۔ نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ وغیرہ، یہ تم کہاں پھنس گئے۔ سنبھلو، اٹھو! اور اپنے گھر کو دیکھو، عوام نے تمہیں امتحانی پرچہ دیا ہے۔ اسے حل کرلوگے تو آگے وزارت عظمیٰ ہے۔ اپنا پرچہ حل کرو، اور اپنے عوام سے خطاب بھی اپنے گھر سے کرو۔ پشاور کے میدان میں ابھرنے والی تمہاری آواز کی گونج ملک سے باہر بھی پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ تم عوام کے دل جیت لوگے تو سب کچھ جیت لوگے۔ امریکا بہادر بھی اسی پلڑے میں اپنا وزن ڈالتا ہے، جہاں عوام کا وزن ہو۔
عمران خان! تمہارا حامد میر کی عیادت کے لیے اس کے گھر جانا، بہت اچھا لگا۔ تم نے وہاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ کہا کہ ''حامد میر میرا پسندیدہ اینکر تھا، ہے اور رہے گا''۔ تم نے ایک اور جگہ یہ الفاظ کہے ''ہم کسی چینل یا اخبار کے بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں''۔ زندہ باد! پاکستان تحریک انصاف کی یہی سوچ ہونی چاہیے۔ ایسا ہی عمل ہونا چاہیے۔ عمران خان! تم تو بھاری پتھر پر ہاتھ ڈالنے والے ہو، تم یہ چھوٹے موٹے کنکر، روڑے کیوں اٹھانے لگے، دیکھو! سنو! غور سے سنو! ''دور پربت پہ کوئی آہ و بکا کرتا ہے'' عمران! اس کی آواز سنو، اور اپنی ٹیم کے ساتھ ادھر بھاگو، جدھر سے آواز آرہی ہے۔
اگر تم نہ سنبھلے تو تمہارے گھر والے تمہیں ٹریلر دکھا چکے ہیں۔ پشاور کی سیٹ غلام احمد بلور واپس لے چکا ہے۔ وہی غلام احمد بلور جس کو تم نے عبرت کا نشان بنادیا تھا۔ اسی نے پھر تمہیں بنادیا۔ یہ جو دیوانہ وار لوگ تمہاری طرف لپکے تھے، یہ پلٹنا بھی جانتے ہیں۔ باقی تم اور تمہاری ٹیم سمجھدار لوگ ہو۔ ''ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں''۔
عمران خان! سیاست کے میدان میں کودے ہو، تو سمجھ لو بقول جگر مراد آبادی:
یہ عشق نہیں آساں' بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اور اس آگ کے دریا میں ڈوب کر پار اترنے والوں کا جنون یہ ہوتا ہے کہ :
کیا حسن نے سمجھا ہے' کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
یہ خاک نشیں بڑے لوگ کیا کیا باتیں کہہ گئے ہیں، جینے کے ڈھنگ سکھا گئے ہیں، جالب بھی کہہ کر گیا ہے:
جیو ہماری طرح سے' مرو ہماری طرح سے
نظام زر تو اسی سادگی سے جائے گا
اپنے محلوں سے باہر نکلو، عوام میں آؤ، ہوچی منہ، نیلسن منڈیلا، لوممبا، چو این لائی، ماؤزے تنگ، خان غفار خان بن جاؤ۔ ورنہ جو کرم تم کما رہے ہو:
''ان کرموں پر کون چلے گا بولو ساتھ تمہارے''