ضروریات اور خواہشات
انسان کی بنیادی ضروریات سے کسی قیمت منہ موڑا نہیں جاسکتا جو انسانی زندگی کا خاصہ ہیں
آج سے کوئی بیس یا پچیس برس قبل کی بات ہے کہ راقم الحروف کے رشتے کے ماموں جو ایک منجھے ہوئے پاکستانی سفارت کار تھے اور سفارت کاری کے حوالے سے انھوں نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مختلف عہدوں کی ذمے داریاں نبھائی تھی، اس کے علاوہ سفیر پاکستان بھی رہے۔
غالبا یہ وہ زمانہ تھا جب آصف علی زرداری ملک کے صدرکے طور پر اپنے عہدے کا حلف اُٹھا رہے تھے اور موصوف اپنی سروس کا مقررہ عرصہ مکمل ہونے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہی ہوئے تھے۔ راقم السطورکی اسی عرصے میں ان سے نہایت مختصر ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے اس خدشے کا اظہارکیا کہ اب حکومتوں سے کسی قسم کی توقع مت رکھنا۔
پرائیویٹائزیشن کے نام پر تمام قومی اداروں کی اونے پونے فروخت کا سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ نئی صنعتوں کے فروغ توکجا، بیشتر موجودہ صنعتوں کا وجود بھی ختم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ملک کی معاشی و اقتصادی حالت نا گفتہ بہ ہوجانے کا بھی ممکنہ قوی اندیشہ ہے۔ اپنی زندگی اور مستقبل کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا۔
عالمی اور اندرونی پس منظر کے حوالے سے یہ تھیں، ان کی ملک کے مستقبل کے بارے میں تجزیے۔ ان کی یہ فکر انگیز بات سن کر ہم قدرے متفکر ہوگئے۔ ہم نے یہاں کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا تو ہمیں ان کی اس تجزیے پر قوی یقین کر نا پڑا۔ ان کی اسی بات کی روشنی میں، میں اپنی ذہنی آموختگی کا موازنہ کرتا ہوں تو آج ملک کی جو حالت زار ہے وہ قابل رنج و ماتم ہے۔ ملک کا ہر شہری شدید پریشانیوں میں بے چین نظر آتا ہے۔
بلاشبہ کرپشن ملک کی جڑوں میں سرایت کرگئی ہے، جس کا خمیازہ عوام ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ڈر ہے کہ ملک میں انارکی اور افراط زرکی سی کیفیت نہ پیدا ہوجائے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام قدرتی توانائی گیس اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات تک سے محروم ہوچکی ہے۔ نجی بجلی فراہمی کمپنیوں نے اپنا آپریشن کا پورا نظام مختلف ٹھیکیداروں کو سونپا ہوا ہے۔ بجلی کی فراہمی میں بلاوجہ تعطل اور طویل لوڈ شیڈنگ، ہوش ربا بلوں نے عام وخاص صارفین کے ہوش اڑا کر رکھ دیے ہیں۔
بات یہیں تک ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ڈالرکے معیارکی اور فی کس آمدنی پاکستانی ریزگاری کی شکل میں،کیا اسی بھیانک صورتحال کو جمہور ی عمل کہا جاسکتا ہے؟ ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب ہمارے گھر میں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی اور ہم مٹی کے تیل کے لیمپ اور لالٹین کی مدہم روشنی کا سہارا لے کر اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے سو جایا کرتے۔
قدرتی گیس کا تو سرے سے ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے۔علم معاشیات ایک عملی مضمون ہے، یہ ضروریات اور خواہشات پر تفصیل سے مطالعہ کرتا ہے اور اس تناظر میں نظریہ ترجیح (Indifference Curve)پیش کرتا ہے جس کے تحت ایک جانب انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اور دوسری طرف انسان کی نہ ختم ہونے والی خواہشات۔ معاشیات کا مطالعہ بلاشبہ انسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے متبادل کی راہ دکھاتا ہے۔
خواہشات کو کسی حد تک کچھ وقت کے لیے نظر انداز توکیا جا سکتا ہے مگر انسان کی بنیادی ضروریات سے کسی قیمت منہ موڑا نہیں جاسکتا جو انسانی زندگی کا خاصہ ہیں اور لازم وملزوم ہیں اور جس کے بغیر انسان کی زندگی محال ہے، ہم اس ترقی یافتہ دنیا میں بنیادی سہولیات سے محرومی کا شکار ہوکر قدیم زمانہ کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ علم معاشیات کا مطالعہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے اتار چڑھائو سے ہونے والی صارف کی کیفیت کے بارے میں بھی تجزیہ کرتا ہے، بچتوں کے نظام پر بھی بات کی گئی۔
بنیادی ضروریات میں خوراک، صاف پانی، تعلیم، علاج معالجہ کی سہولیات، روزگار، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ کی سستی اور آرام دہ سہولیات کی فراہمی جیسے امور ملک کی جمہوری ڈھانچہ کی بنیادی ذمے داریاں کے زمرے میں آتی ہیں۔ جمہوری حکومتیں ان ضروریات پر آنے والے اخراجات اپنے مربوط ٹیکسیشن نظام سے انجام دیتی ہے۔ ٹیکسیشن نظام جتنا شفاف ہوگا اور لیڈران اور بیوروکریسی جتنی ایمانداری ودیانت سے اس آمدنی کو ان فلاحی کاموں پر خرچ کرے گی۔
ملک کا ہر فرد خوشحال ہوگا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، مگر افسوس صد افسوس آج ملک کے معاملات اس کے برعکس ہیں۔ 76 سالہ اسلامی جمہوری ریاست تباہی کے جس دہانے پر پہنچ چکی ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ اس کی تعمیر نو میں شاید طویل عرصہ درکار ہو۔ ہر طرف نا امیدی کے گھٹا ٹوپ سائے چھائے ہوئے ہیں۔ آج سے ایک دہائی قبل ملک کی معیشت لنگڑی لولی حالت میں جیسی تیسی چل ہی رہی تھی۔
پڑھا لکھا نوجوان طبقہ اپنا سب کچھ چھوڑکر بیرون دنیا کی طرف روانہ ہوچکا ہے اور اس عمل میں روز بروز تیزی سے اضافہ بھی ہورہا ہے۔1947 میں ہندوستان سے نو آزاد مملکت پاکستان کی طرف اتنی بڑی تعداد میں ہجرت نہیں تھی، جتنی بیرون ممالک کی طرف آج ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ یہاں جان ومال اور عزت وآبروکا تحفظ ہرگز نہیں ہے۔ بے یقینی کی اس کیفیت نے صنعت کارکو بری طرح سے متاثر کیا ہے اور وہ اپنا سرمایہ پاکستان میں لگانے کے بجائے محفوظ ممالک میں سرمایہ کاری پر زور دے رہے ہیں۔
مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت نے حکومتی تحویل میں بیشتر ادارے اپنے من پسند لوگوں کو سستے دام فروخت اس انداز سے کیے، جیسے یہ ادارے ان کی ذاتی ملکیت تھے۔ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بینک اور مالیاتی ادارے ہوتے ہیں، ہمیں پرائیویٹائزیشن سے کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں بشرطیکہ ان کا عمل منصفانہ ہو۔ پرائیویٹائزیشن کے نام پر ریاستی دھاندلی کا جوکھیل کھیلا گیا ہے اس سے ہر ذی شعور واقف ہے۔
بینکس نجی تحویل کی آڑ میں اونے پونے داموں فروخت کر دیے گئے۔ بینکوں کے نئے مالکان اور انتظامیہ سروس رولزکی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور ملازمین کا استحصال کرتے ہوئے ان کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا اور ان کے واجبات میں خرد برد کی گئی۔ ان ملازمین نے اپنے جائز حقوق کی پامالی کے خلاف ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا۔
فاضل عدالتوں نے ان کے حق میں فیصلے دیے اور بینک انتظامیہ کو پابند کیا کہ ان کے واجبات کی فوری ادائیگی کو ممکن بنایا جائے، لیکن بینکس کی انتظامیہ ان عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے سے قطعی قاصر رہی اور ملازمین کو بینکوں سے جبری فارغ کردیا گیا، اگر بینکس کے بزنس کی بات کی جائے تو ایک طرف عام اکائونٹ ہولڈرز ہوتے ہیں، جن کی پس انداز کی ہوئی رقوم بطور امانت بینکس کے پاس رہتی ہے اور دوسری طرف بینکس کی سالانہ آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ پروجیکٹ فنانسنگ تھا۔
سرمایہ دار اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے گیا، کارخانے بند ہونے شروع ہوگئے۔ اب بینکس کے لیے بھی پریشانی تھی کہ بینک اپنا سرمایہ کن کن منافع بخش صنعتی یونٹس میں لگائے۔ نتیجتاً کنزیومرز فنانسنگ کا آغاز کیا گیا جو پرائیویٹ سیکٹر کو سونپا گیا۔ غرض کہ پورے ملک کی معیشت نجی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں آگئی۔ ملک میں آج کل بجلی کا شدید بحران ہے۔ بجلی کی بلا تعطل فراہمی شہریوں کے بنیادی حقوق کے زمرے میں آتی ہے اور یہ ریاست کی اولین ذمے داری میں شامل ہے۔
بجلی کے نظام کو نجی ٹھیکے داروں کو سونپنا ریاستی ذمے داریوں سے منہ موڑنا ہے۔ آٹھ سے دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ، زائد بلنگ کی شکایات زبان زد عام ہے، مگر اس کا ازالہ نہیں کیا جا رہا۔ کراچی میں بجلی کی فراہمی کا نظام کراچی الیکٹرک کے نامزد بے شمار ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں ہے۔ ان ٹھیکے داروں کے علاقہ کارکنان خود بھاری رقوم کے عوض لوگوں کو کنڈے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور ان ہی کنڈوں میں بجلی بلا تعطل فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ کنڈے کسی بھی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔
سڑکوں پر نصب لائٹس اکثر دن میں بھی روشن رہتی ہیں جس سے بجلی کے زیاں ہوتا ہے۔ حالیہ اخباری اطلاع کے مطابق کراچی الیکٹرک شفافیت ، ذمے دارانہ طرز عمل اور مستقبل میں بجلی کی مستحکم فراہمی یقینی بنانے کے لیے کے الیکٹرک نے سسٹین ایبیلیٹی رپورٹ جاری کی ہے ۔Possilibities Powering کے تعین اور اس پر عملدرآمد کے لیے ادارے کی جانب سے لیے گئے اقدامات کا ذکرکیا گیا ہے۔