غزہ کی صورتحال اور ہماری ذمہ داری

امن و سکون سے زندگی گزارنا یہود کی فطرت کے منافی ہے


[email protected]

قوم یہود سے ہماری جنگ ازل سے جاری ہے اور روز آخر سے کچھ پہلے تک جاری و ساری رہے گی، لیکن فتح ہماری ہی ہوگی، شکست قوم یہود کا مقدر لکھ دی گئی ہے اور لکھے کو لکھنے والے کے علاوہ کوئی ٹال نہیں سکتا کیونکہ وہی مختار کل ہے۔

اس لیے قوم یہود روز آخر سے پہلے تک جتنی اُچھل کود کرنا چاہتی ہے کر لے، مسلمانوں کی برداشت اور صبر اہل فلسطین نے بتا بھی دیا اور دکھا بھی دیا ہے۔

امن و سکون سے زندگی گزارنا یہود کی فطرت کے منافی ہے۔ انھوں نے اپنی قوم، زبان اور نسل سے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ ان کی نافرمانی کی، انھیں ستایا، مذاق اڑایا، انھیں قتل کیا۔ پیکر عفت و عصمت حضرت بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی۔ نبی آخر الزماںﷺ کے ساتھ بار بار معاہدے کیے اور ہر مرتبہ انھیں توڑ کر عہد شکنی اور غداری کے مرتکب ہوئے۔

خلافت راشدہ کے دور میں انھیں مسلمانوں کے برابر اور بعض اوقات ان سے زیادہ حقوق دیے گئے۔

بدلے میں انھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اسلامی سلطنتوں کے خلاف سازشیں کیں انھیں دیمک کی طرح چاٹا۔ اندلس کی اسلامی سلطنت کے خلاف سازشیں ہوں یا انقلاب فرانس، خلافت عثمانیہ کے سقوط کا المیہ ہو یا ارض حرمین میں غیر مسلم افواج کا پڑاؤ۔ مشرق وسطیٰ کو بدامنی کی طرف دھکیلنا ہو یا پاکستان کے خلاف سازشیں، ہر جگہ صیہونیت پنجے گاڑے نظر آئی، اس کی بد فطرتی کے آثار نظر آئے۔

اس وقت صیہونیت کا ننگا ناچ ارض مقدس فلسطین میں جاری ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی جنگی مشین، جو غزہ میں حماس کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر طرح کا جرم انجام دے رہی ہے۔

اس انسان دشمن صیہونی ریاست نے حماس کی عسکری سرگرمیوں کو ختم کرنے کے بہانے غزہ کے اقتصادی انفرااسٹرکچر اور رہائشی علاقوں کو تباہ کرنے کے بعد اب اسپتالوں کی تباہی پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اسی سلسلے میں صیہونی فوج کے دستوں نے غزہ کے الشفا اسپتال پر حملہ کرکے اس پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ اسپتال کی بجلی اور انٹرنیٹ کاٹ دیا گیا ہے۔

حماس کے میڈیا آفس کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ''"قابض افواج نے شفا اسپتال پر حملہ کیا، مریضوں کے کمروں کے اندر فائرنگ کی اور قابض فورسز جو کچھ کر رہی ہیں، وہ ایک جنگی جرم ہے۔'' گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران شدید اقتصادی ناکہ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کو روکنے کے علاوہ اسرائیل نے علاقے کے کئی اسپتالوں پر بمباری کی ہے۔

اس جرم نے زخمیوں کا علاج کرنا مشکل بنا دیا ہے اور یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے غزہ کے زخمیوں کو بغیر بے ہوش کیے آپریشن تک کیے ہیں۔ غزہ میں انسانی صورتحال کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں صرف ایک اسپتال فعال ہے جو ایندھن اور بجلی کی کمی کے باعث مشکل سے چند دن تک کام کرسکتا ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اسپتالوں پر حملے ممنوع ہیں، اسرائیلی فوج نے معروف شہری مقامات کے خلاف اپنے جرائم کو جواز فراہم کرنے کے لیے نئے اقدامات کا سہارا لیا ہے، جیسا کہ عیسائی اسپتال پر حملہ کرکے یہ کہا کہ یہاں عسکریت پسند موجود تھے۔

اسرائیل کے خلاف شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسا دباؤ جو اس کے بیان کردہ اہداف کے حصول سے پہلے جنگ کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس لیے مظاہروں کی لہر کو کم کرنے کے لیے تل ابیب کے حکام صحت کے مراکز کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کرنے کے لیے حماس کے خلاف مبینہ دستاویزات اور ثبوت تلاش کر رہے ہیں۔

اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے صیہونی فوج نے شفا اسپتال کے ارد گرد موجود تمام صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو گرفتار کر لیا ہے۔

صیہونی فوجی مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، امریکا اور مغربی قوتیں ان جرائم میں اسرائیل کے برابر کے شریک ہیں۔ غزہ میں ڈیڑھ ماہ سے جاری اسرائیلی درندگی ہر لمحہ بڑھ رہی ہے، اسپتال، مساجد، تعلیمی ادارے اور رہائشی عمارات سمیت کچھ بھی اس ناجائز اور دہشت گرد ریاست کی وحشیانہ بمباری سے محفوظ نہیں۔

اس کے نتیجے میں جانی نقصان بارہ ہزار سے تجاوز کرچکا ہے اور بیشتر علاقے کھنڈر بن گئے ہیں لیکن اس سفاکی کو روکنے کے معاملے میں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سمیت عالمی برادری کا کردار اب تک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے خود اپنے متعدد کارکن اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج نے گزشتہ دنوں جبالیہ کیمپ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر فضائی حملہ کیا جس سے 200 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

اسرائیلی فوج نے جبالیہ کیمپ میں رہائشی عمارت پر بھی حملہ کیا جس کے باعث 19 بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 32افراد شہید ہوگئے۔ غزہ میں جار ی موت کے اس رقص کی تفصیلات سے ذرائع ابلاغ بھرے پڑے ہیں لیکن اصل ضرورت اسرائیل کو فی الفور اس درندگی سے روکنے اور فوری جنگ بندی کی ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی آبادی کو برسوں سے محصور رکھ کر اور رہائشی علاقوں کو وحشیانہ بمباری کا ہدف بناکر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اس لیے عالمی برادری کو بلاتاخیر بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر عراق پر صرف مہلک ہتھیاروں کے شبہ میں فوج کشی کی جاسکتی ہے۔

ایران پر اسرائیل جیسے کسی جنگی جرم اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے بغیر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، افغانستان کے اربوں ڈالر کسی جرم کے بغیر امریکا میں منجمد رکھے جاسکتے ہیں تواسرائیل پر کھلے جنگی جرائم کے باوجود پابندیاں عائد کیوں نہیں کی جاتیں؟ یہ صورتحال واضح طور پر مغربی طاقتوں خصوصاً امریکی مقتدرہ کے دہرے معیارات کی عکاس ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنے حالیہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات کے حوالے سے پوری مسلم دنیا اور انصاف پسند لوگوں کو سخت مایوس کیا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ او آئی سی بھی اسرائیلی ہٹ دھرمی کے پیش نظر حالیہ سربراہی اجلاس میں پیش کی گئی اکثریتی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اسرائیل کو تیل کی فراہمی اور دیگر پابندیوں کی تجاویز پر فوری عمل درآمد شروع کرے اور عالمی برادری تنازع فلسطین کے پائیدار اور متفقہ دوریاستی حل کو کم سے کم مدت میں یقینی بنائے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں امت مسلمہ اب کیاکرسکتی ہے؟ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے اب تک مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا، جو اسرائیل کے طرفدار ہیں، وہ آج بھی کھل کر اس کی مذمت نہیں کر پارہے، جن کے اسرائیل سے سفارتی تجارتی تعلقات ہیں۔

انھوں نے وقتی طور پر تو ان تعلقات کو ٹھنڈا کردیا ہے لیکن مکمل طور پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان نہیں کیا، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے وہ بھی مبہم پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، او آئی سی کا ناکام سربراہی اجلاس اس بات کی بڑی دلیل ہے۔

اس اجلاس میں ماسوائے مذمت کوئی بڑا فیصلہ نہیں ہوا۔ فلسطین کے معصوم بچوں کی لاشوں کو دیکھتے ہوئے مسلمان حکمرانوں کو اسرائیلی درندوں کی زندگی کو جہنم بنا کر چاروں طرف سے حملہ آور ہونا چاہیے تھا مگر وہ ایسا کرنے کی جرات نہیں کر سکے، مگر عوامی سطح پر ہم بقول شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ کے، بحیثیت مسلمان اسرائیل کی ہر مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، خاص طور پر تاجر اسرائیلی مصنوعات خریدنا چھوڑ دیں، صارفین ایسی مصنوعات لینا چھوڑ دیں۔

انڈونیشیا کے مفتیان کرام نے باقاعدہ فتویٰ جاری کیا ہے، ہم کب تک حکومتوں کی طرف دیکھتے رہیں گے، مسلم ممالک کی حکومتیں مغرب کی غلام ہیں، ان کی طرف دیکھنا چھوڑیں، تمام مکاتب فکر کے علماء مل کر فتویٰ جاری کریں جس میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے حوالے سے متفقہ موقف سامنے آئے۔

حکمرانوں کی بے حسی سے مایوس مسلمان اللہ رب العزت سے اپنا ناتا جوڑ کر خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں اورہر دعا میں فلسطین کے مظلوم عوام کو یاد رکھیں، بلا ناغہ تمام مساجد اور گھروں میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنے کا اہتمام کریں، پوری دنیا کے مسلمان اگر ہر گھر، ہر مسجد میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرینگے تو اللہ رب العزت اسرائیلی درندوں کو نشان عبرت بنا کر مظلوم فلسطینیوں کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ان شاء اللہ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں