کمزور لیبر قوانین اور غیر یقینی روزگار کے باعث لاکھوں ملازمین نفسیاتی امراض کا شکار

کنٹریکٹ پر بھرتی ہونیوالے خوف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، غیر مناسب رویے کی وجہ سے ذہنی تناؤ بڑھتا ہے، ماہرین


آصف محمود November 07, 2023
(فوٹو: فائل)

ملک میں کمزور لیبر قوانین اور غیر یقینی روزگار کی وجہ سے لاکھوں ملازمین نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔

نجی اور سرکاری اداروں میں لاکھوں افراد کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ لیبر قوانین کی کمزوری اور غیر یقینی روزگار کی صورت حال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملازمت قائم نہ رہنے کا خوف اور افسران کے امتیازی رویوں کی وجہ سے کنٹریکٹ ملازمین بے چینی اور دباؤ میں زندگی گزارتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض افراد نفسیاتی امراض کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔

45 سالہ صابر حسین ڈی ایچ اے لاہور کے معروف نجی تعلیمی ادارے میں گزشتہ 15 برس سے بطور چپراسی کام کررہے ہیں ۔ صابرحسین کے مطابق وہ یہاں یومیہ اجرت پرکام کرتے ہیں۔ ان کی ماہانہ تنخواہ 32 ہزار روپے ہے، تاہم اگر کسی وجہ سے انہیں چھٹی کرنا پڑے تو اس کے پیسے ان کی تنخواہ میں سے کاٹ لیے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اُن کے 6 بچے ہیں، جن میں سے بڑے 4 بچوں کو وہ نہیں پڑھا سکے البتہ سب سے چھوٹی دونوں بیٹیاں مقامی سرکاری اسکول میں پڑھتی ہیں اور گھر کا چولہا جلانے کے لیے ان کا 14 سالہ سب سے بڑا بیٹا بھی کام کرتا ہے۔

اسی طرح ایک نجی ادارے میں بطور باورچی کام کرنے والی 38 سالہ نسرین کوثر کو گلبرگ میں واقع ادارے میں کام کرتے ہوئے 7 برس ہونے کو ہیں تاہم انہیں ادارے کی جانب سے میڈیکل کی کوئی سہولت میسرہے اور نہ ہی ادارے کی دیگر ریگولرملازمین کی طرح مراعات ملتی ہیں۔ نسرین کوثرنے بتایا کہ ان کے شوہرکا انتقال ہوچکا ہے اور وہ بڑی مشکل سے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں۔ ہروقت ذہنی طورپرپریشان رہتی ہیں۔

واضح رہے کہ کنٹریکٹ یا یومیہ اجرت پرکام کرنے والوں کو صرف نجی اداروں ہی میں اس طرح کے مسائل کا سامنا نہیں ہے بلکہ کئی سرکاری اداروں میں بھی کنٹریکٹ ملازمین ایسی ہی صورتحال سےدوچار ہیں۔

بیشترسرکاری اور نجی اداروں میں چوکیدار، خاکروب، ڈرائیور، چپراسی، سکیورٹی گارڈ اور آفس بوائے کنٹریکٹ پر بھرتی کیے جاتے ہیں اور ہر 3 ماہ بعد ان کے کنٹریکٹ کی تجدید کردی جاتی ہے، اس طرح یہ ملازمین سالہاسال کسی بھی وقت نوکری چلے جانے کے خوف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔

ماہرنفسیات رابعہ یونس کا اس حوالے سے کہنا ہے کنٹریکٹ ملازم کی زندگی کا بیشتر حصہ بےچینی اور افسران کی دھمکیوں کے خوف میں گزر جاتا ہے۔ کنٹریکٹ ملازم ریگولر ملازمین کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں زندگی گزارتا ہے۔ ادارے کے منتظمین کا رویہ بھی کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ غیرمناسب ہوتا ہے، اس وجہ سے ایسے افراد زیادہ تر ذہنی تناؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان ورکرزفیڈریشن کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سعدمحمد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بدقسمتی سے پرائیویٹ اداروں کے ساتھ سرکاری محکموں میں بھی کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت پرملازمین رکھنے کا رحجان ہے۔ مالکان اور ادارے ٹیکس اورپیسے بچانے کے لیے ریگولر کے بجائے کنٹریکٹ ملازم رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کنٹریکٹ ملازم تعلیم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ ریگولر ملازم کی طرح چھٹیاں نہیں ملتیں۔ کنٹریکٹ ملازم اپنے اور بچوں کے علاج کے لیے 10 دن سے زیادہ چھٹیاں نہیں لے سکتا۔ کنٹریکٹ ملازم اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا رسک نہیں لے سکتا کیونکہ اسے اپنی نوکری اور تنخواہ کا بھروسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کنٹریکٹ ملازمین کو رسک الاؤنس نہیں دیا جاتا۔ بینک بھی عموماً کنٹریکٹ ملازمین کوکسی بھی قسم کا قرض یا فنانسنگ نہیں دیتے۔

سعد محمد نے کہا کہ حکومت کو کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے لیبر قوانین کو مزید سخت بنا کر آجروں، صنعتکاروں، کمپنیوں اور اداروں کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے پاس موجود ملازمین کو جاب سکیورٹی فراہم کریں، ان کو قانون کے مطابق مکمل سوشل سکیورٹی فراہم کریں، ان ملازمین کو صحت اور زندگی کی بیمہ پالیسی دی جائیں۔ ای او بی آئی کی سہولت کو مزید مؤثر بنایا جانا چاہیے ، اور کنٹریکٹ ملازمت کی کم از کم مدت 5 سے 10 سال تک ہونی چاہیے۔

محکمہ لیبر کے حکام کا اس سلسلے میں کہنا ہے قانونی طور پرکسی بھی ادارے ،فیکٹری کو کنٹریکٹ ملازمین رکھنے کی اجازت ہے تاہم قانون کے مطابق کسی بھی ملازم کو 90 دن سے زیادہ کنٹریکٹ پر نہیں رکھا جاسکتا۔ جو ملازم کسی ایک ادارے،فیکٹری میں 90 دن سے زیادہ کام کرتے ہیں ان کو ریگولرکرنا لازمی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے اداروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں