عام انتخابات

حکومت بنانے کے لیے پھر بھی نون لیگ کو پیپلز پارٹی کی نشستوں کی ضرورت پڑے گی


جاوید قاضی November 05, 2023
[email protected]

عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ایک مثبت قدم ہے جس نے ملک میں غیر یقینی صورتحال کو ختم کیا،اب آیندہ تین چار ماہ تک سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں گی۔

سپریم کورٹ کا فعال اور متحرک ہونا ہمارے لیے ایک خوش آیند بات ہے کیونکہ اب جلد سے جلد زیرا لتواء کیسز کے فیصلے سننے کو ملیں گے خصوصاً وہ فیصلے جو آئین کے حوالے سے ہیں یا پھر سیاسی نوعیت کے ہیں۔ پاکستان تعمیری انداز میں آگے بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

معاشی بحران کے مشاہدات بتا رہے ہیں کہ پچھلے دس ماہ کے تناظر میں افراط زر کمی کی طرف رہا۔ اسٹاک مارکیٹ مثبت جاری ہے۔ابھی تو منزلیں باقی ہیں، ابھی بہت سے ہینڈلرز، فنانسرز اور سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ غیرقانونی اور سہولت کاری پر مبنی افغان ٹریڈ جو ہماری معیشت کی تباہی کی بنیاد ہے، اس کی بنیادیں ہلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اس کالے دھندے کے بینیفشریز پریشان ہیں اور حالات خراب کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔

اس وقت ہماری سیاسی بحث یہ ہے کہ کیا انتخابات و قت مقررہ پر ہو رہے ہیں ؟ اور اگر ہو رہے ہیں تو کیا یہ انتخابات شفاف ہوںگے؟ یا پھر آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ جائے گا؟ اور اگر ایسا ہواتوکیا پھر ڈی چوک پر کوئی دھرنا ہوگا؟ اب دو کونسی بڑی جماعتی ہیں جن کا ٹاکرا ہوگا؟کیا وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہیں؟یا پھر پیپلز پارٹی تیسرے پائیدان پر چلی گئی ہے؟ پی ٹی آئی دور میں سب سے زیادہ مشکلات مسلم لیگ ن نے بھگتیں۔

پیپلز پارٹی نے نسبتا کم مشکلات کا سامنا کیا ہے، نہ ہی 2018 کی الیکشن میں جب دھاندلی کی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے جس کے اثرات مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم یا پھر جمعیت العلماء اسلام پر زیادہ نظر آ ئے مگر پیپلز پارٹی نے اپنی وہ تمام نشستیں حاصل کیں جو وہ ہمیشہ لیتی آئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی کار کردگی بہرحال عثمان بزدار سے تو کہیں بہتر رہی مگر شہباز شریف کے مقابلے میں کم رہی۔ ان پندرہ سالوں میں پیپلز پارٹی بہت حد تک اپنی ماہیت تبدیل کر چکی ہے یہ بات مشکل تھی کہ کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کابنے لیکن ایسا ہوا اور پیپلز پارٹی نے ایسا کر کے دکھا یا۔

بھٹوصاحب کے زمانے میں اس پارٹی کا مرکز پنجاب تھا اور بیانیہ تھا ہندوستان دشمنی، دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا سنگم تھا۔بھٹو صاحب کے بیانیے کو کچلنے کے لیے جنرل ضیا ء الحق مذہبی انتہا پسندی کے بیانیے کو ساتھ لائے، خیبر پختونخوا تو پہلے ہی اس بیانیے کا شکار بن چکا تھا، اس نے آہستہ آہستہ پنجاب میں بھی اپنی جگہ بنائی۔ پیپلز پارٹی ترقی پسند بیانیے کے ساتھ پنجاب میں اپنی جگہ برقرارنہ رکھ سکی۔

نوازشریف نے بھی اس وقت مقبولیت حاصل کی جب وہ اس وقت کی اسٹبلشمنٹ اورمخصوص مائنڈ سیٹ والی اشرافیہ کے ساتھ ٹکراؤ میں آئے۔میاں صاحب نے پنجاب کے مزاج کو سمجھتے ہوئے جمہوری تحریک کو مضبوط کیا۔ ضیاالحق رجیم کی باقیات ان سے خائف ہوئی اور پی ٹی آئی کو حکومت میں لایا گیا تاکہ نواز شریف کو سیاسی طو ر پر نیچے لایا جائے تاہم یہاں بھی ناکامی ہوئی ہے۔

ہمارے نئے سپہ سالار کو بہت سی مخالفتوں کاسامنا کرنا پڑا ،ان حلقوں کی طرف سے جو جنرل ضیاء الحق کا تسلسل تھے اور چیئرمین پی ٹی آئی کے ہمدرد۔ سیاست میں ، ہماری اسٹبلشمنٹ نے اپنی نئی ترجیحات طے کرلی ہیں، البتہ وہ اشرافیہ جس نے ایوب خان کے دور میں ریاست کے وسائل کو مفت میں ہڑپنا شروع کیا اور ضیاالحق دور میں سرکاری وسائل مفت لینے کا کلچر عروج پر پہنچا، بے نظیر بھٹو، نوازشرف کے پہلے دو اداروں اور پرویز مشرف تک یہ عروج پاتا رہا، اب حالات نیا موڑ لے چکے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے ایسا ہونا ایک رات کا عمل نہیں اور نہ ہی کوئی فطری عمل ہے، اس اشرافیہ نے جیسے مالی اور سیاسی قوت حاصل کی تھی، ویسے ہی واپس لینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس دفعہ اسٹبلشمنٹ، ماڈریٹ اشرافیہ اور سیاسی جماعتیں بہت سے نکات پر ایک رائے رکھتے ہیں۔ ملکی حالات ہی ایسے ہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی میں ملک برباد ہوا ہے۔یہ ملک اب بھی ایک بحران میں ہے لیکن خانہ جنگی کے خطرے سے نکل آیا ہے۔

نو مئی کے منصوبہ سازوں کا کوئی نظریہ تھا نہ کوئی معاشی ترقی کا روڈ میپ ، اگر نو مئی کامیاب ہوجاتا تو پاکستان انتشار کا شکار ہوجاتا اور ملک ٹونٹے کا خطرہ بڑھ جاتا لیکن ہندوستان ، اسرائیل اور افغانستان کی دیرینہ خواہش پوری نہ ہو سکی ۔موجودہ ریفارمز کے عمل میں جمہوری عمل بھی مضبوط ہوگا۔

اب سپریم کورٹ بھی مخصوص مائنڈ سیٹ سے آزاد ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان سہولت کار اس فریم میں فٹ ہوتے ہوئے کہیں نظر نہیں آ رہے۔ البتہ چیئرمین پی ٹی آئی ، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کی ڈس انفارمیشن کے بل بوتے پر ایک پاپولرامیج ضرور بنا چکے ہیں اور اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ امیج میاں صاحب کے لیے پنجاب میں مشکلات پیدا کرے گا؟یا کر سکتا ہے؟

بڑی خبر یہ آئی ہے پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف کے ساتھ مل کر پنجاب میں الیکشن اتحاد بنانے جا رہی ہے۔صحیح کہتے ہیں کہ سیاست میں زیادہ دیر تک نہ کوئی آپ کا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی آپ کا دشمن ہوتا ہے،تو کیا یہ اتحاد بن سکے گا؟ اور کیا یہ اتحاد نواز شریف کے مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟

یہ اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ تحریک انصاف کی پالیسیز جنرل ضیاء الحق کا بیانیہ ہے ۔ یہ تسلسل ہے افغان پالیسی کا، یہ تسلسل ہے حمید گل مائنڈ سیٹ کا، پھر غلام اسحاق خان مائنڈ سیٹ ،طالبان کی حمایت کا ، بھٹو کی پھانسی سے لے کے بے نظیر بھٹو کے قتل کا اور پیپلز پارٹی انھیں لوگوں کے ساتھ سیاسی اتحا د بنانے جا رہی ہے تو اسے خود کشی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے تحریک انصاف کا تو کوئی نظریہ ہی نہیں ہے ، وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے مگر نو مئی کے واقعے میں جو کیسز ان پر بن چکے ہیں ،ان سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ الیکشن میں بھر پور طریقے سے حصہ لے سکیں۔

زرداری صاحب کی پارٹی سندھ میں حکومت بنالے گی مگر وفاق میں نہیں۔الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں اکثریت مسلم لیگ نون کی ضرورہوگی مگر حکومت بنانے کے لیے پھر بھی نون لیگ کو پیپلز پارٹی کی نشستوں کی ضرورت پڑے گی۔

سندھ میں سیاسی اعتبار سے اگر دیہی اورشہری فرق ختم ہوتا ہے اور سندھیوں کا یہ ڈر کہ کہیں سندھ دو ٹکڑوں میں نہ بٹ جائے یعنی اگرمتحدہ اپنے بیانیے کی افادیت کھو دیتی ہے یا پھرایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرے جو انھوں نے 2018 میں کیا تھا، تو ہو سکتا ہے کہ سندھ میںپیپلز پارٹی ایک نئے بیانیے کے ساتھ ابھرے اور کراچی و حیدراآباد میں وہ نشستیں حاصل کرے جو پہلے نہ کر سکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں