نواب بہادر یار جنگ دوسرا اور آخری حصہ
آپ کے جنازے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں بے یارو مددگار روتے روتے تقریبا نیم مردہ ہوچکے تھے
3 رجب 1366ھ بمطابق 25 جون 1944ء کی شب دو شنبہ اپنے دوست جسٹس ہاشم علی خان کی دعوت پر ' بنجارہ ہل' تشریف لے گئے، وہیں رب کائنات کی طرف سے بلاوا آیا اور بہادر یار جنگ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ایک جمع غفیر نے دارالسلام کے وسیع و عریض میدان میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور شہر سے چار میل دور مشیر آباد میں آپ کو آسودہ خاک کردیا گیا۔
آپ کے جنازے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں بے یارو مددگار روتے روتے تقریبا نیم مردہ ہوچکے تھے اور ان سسکیوں میں اگر کوئی گونج تھی تو بس یہی کہ '' اب ہم کس کے سہارے جیئں؟ '' آپ کی رحلت کے ساتھ یہ عقدہ لوگوں پر آشکار ہوا کہ ایک آہنی ہاتھ نہ جانے کتنوں کا سہارا بنا ہوا تھا۔
اس منفرد جنازے کی سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جنازہ گاہ سے قبر تک کی طویل مسافت محمد بہادر خانؒ کے جسد خاکی نے جن کندھوں پرکی، وہ ان غریب بے سہاروں کے ہی تھے، جہاں یہ عظیم سانحہ کا ظہور ہوا وہاں ساتھ ہی ساتھ شکوک و شبہات بھی جنم دے گیا کہ یہ موت تھی یا شہادت؟ کہ اچانک حرکت قلب بند ہوگئی یا کچھ اور ... بہرحال انسان کی قدر اس کے دنیا سے جانے کے بعد ہی ہوتی ہے ان کا بدل آج تک نہ مل سکا، نہ جانے کتنے برس کی گردشوں کے بعد دنیا کو ایسی بے مثال شخصیت نصیب ہوتی ہے جو اپنی خوبیوں اور خدمات کی وجہ سے بندگان خدا کے دل میں ایک منفرد اور ممتاز مقام پا لیتے ہیں۔
آپ کی رحلت کے بعد باشندگان دکن نے مولوی ابوالحسن سید علی ایڈووکیٹ کو جو مجلس کے مدبر اور پرانے خدمت گار تھے، مجلس کے صدر نامزد کیے گئے۔ ان کے صدر بننے کے بعد عوام نے اپنا دیرینہ مطالبہ نواب مرحوم کی رحلت کے اصل شواہد جاننے کا اور خود صدر صاحب نے بھی حکومت وقت پر اس معاملے کی جلد تحقیقات کے لیے زور ڈالا، مگر حکومت وقت نے اس معاملے پر سرد مہری دکھاتے ہوئے خاموشی اختیار کیے رکھی جس کی بناء پر مولوی صاحب اس منصب سے مستعفی ہوگئے پھر مولانا مظہر علی کامل نے مجلس کی صدارت سنبھال لی جو پیشے سے وکیل تھے۔
ان کی صدارت کے ساتھ تحقیق کا یہ مطالبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ، کیونکہ آپ ایک نیک دل راسخ العقیدہ مسلمان ، خدا ترس، انسان دوست شخصیت تھے سیاسی داؤ پیچ منفی چالوں یا ہتھکنڈوں سے بالکل ناآشنا تھے۔
بہادر یار جنگ کا نادر و نایاب کتب خانہ انجمن مہدویہ چنچل گوڑہ میں محفوظ ہے مگر یہ نادر و نایاب ورثہ اگر مجلس تعمیر ملت کے سپرد کیا جاتا تو اس کی افادی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہوتی بالکل اسی طرح جس طرح آپ کی تدفین دارالسلام میں نہ کرکے شہر سے دور مشیر آباد کے مہدویہ قبرستان میں کی گئی۔
اپنے مسلک کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں کہ '' مسلک کے حوالے سے اختلافی مسائل پر گفتگو نہ کرو۔ اسلام پر وہ عبوری دور پھر آگیا ہے جب کہ تمام مسائل سے قطع نظر کر کے اعلان کی ضرورت ہے سب فرقے زمانہ امن کے لمحات فرصت کی پیداوار ہیں۔ آج جب کہ خانہ اسلام کے اطراف بارود بچھی ہوئی ہے اور شعلہ کفر اس کو بھسم کرنے کی تیاری کررہا ہے میں کافی سمجھتا ہوں کہ لوگ سب کچھ چھوڑ کر صرف لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ پر جمع ہوجائیں۔''
تنو مند خوبصورت جسم قد کاٹ، سرخ و سفید، کتابی چہرہ، خشخشی داڑھی اور کتری ہوئی موچھیں، روشن پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں جن سے ذہانت نمایاں، پنجہ مضبوط یہ آپ کے شمائل تھے۔ شیروانی اور سرخ ترکی ٹوپی کبھی کبھی عمامہ بھی باندھتے یہ آپ کا پہناوا تھا، پر ہجوم مجمع میں بھی آپ کی شخصیت نمایاں رہتی۔ نواب مرحوم انتہائی اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تھے جس کے مسلم ہی نہیں غیر مسلم بھی معترف تھے۔ آپ حق شناس اور انصاف پسند شخصیت کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی تھے۔
خطیبانہ انداز بہادر یار جنگ سے زیادہ موثر اور خود ساختہ ان کے ہم عصروں میں کہیں نظر نہ آیا ' آپ کو یہ کمال حاصل رہا کہ جب چاہیں ہجوم کو ہنسا دیں جب چاہے رلا دیں یا چونکا دیں، بڑے سے بڑے مسئلے کو اس قدر آسانی سے بیان فرما دیتے کہ جیسا وہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ مرحوم کو قرآن سے عشق تھا، آپ فرماتے '' مجھے اگر کسی عمل کے صلے میں بخشش کی توقع ہے تو وہ یہی قرآن کی خدمت ہے۔''
قائد اعظم ؒ کو آپ کی بے پناہ صلاحیتوں کا ادراک تھا وہ جانتے تھے کہ اگر نواب صاحب مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلیں تو اس سے بہت تقویت ملے گی، اسی لیے جب نواب بہادر یار جنگ باقاعدہ طور پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو قائد نے فرمایا '' مسلم لیگ تاحال بے زبان تھی اب اسے زبان مل گئی۔ ''
آپ کی شہرت سے متاثر ہو کر خواجہ حسن نظامی نے انھیں '' دکن کا ابن بطوطہ '' کے خطاب سے نوازا۔ آپ آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ کے بانی اور صدر تھے۔ نواب بہادر یار جنگ کے فکر و فلسفہ کی نشرواشاعت کے لیے کراچی میں 1966میں قائم کردہ بہادر یار جنگ اکادمی کی خدمات لائق تحسین ہیں، جس میں ہر دور میں صاحبان علم و فضل نے کلیدی کردار ادا کیا، جن میں پروفیسر میر حامد علی، شاہ بلیغ الدین، شاہ مصباح الدین، خواجہ قطب الدین، مجید فاروقی، حمید الدین شاہد و دیگر اکابرین کے ساتھ ساتھ پروفیسر اکبر حسینی کی اکادمی کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
آپ گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس سے منسلک رہے اور یہیں سے طویل خدمات کے بعد وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔ آپ نے نائجیریا میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ، گلبرگہ شریف کے سلسلے سے بھی تادم زیست وابستہ رہے۔ دور حاضر میں آپ کے بڑے فرزند صبیح الدین حسینی بحیثیت معتمد عمومی اکادمی کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
علمی اور ادبی خانوادے سے وابستگی کے سبب ہی جناب صبیح حسینی بہادر یار جنگ ؒ کے فکر کی فروغ کے لیے انتہائی منفرد تقریبات کا اہتمام ہی نہیں بلکہ ادارے کا نظم و نسق بھی بہترین انداز میں چلا رہے ہیں۔ اکادمی کی تقریبات میں اہل علم کی آمد کو آپ اپنے لیے حوصلہ افزائی گردانتے ہیں۔ آپ کے دیگر ہم پرکار جن میں ادارے کے صدر پروفیسر ڈاکٹر وسیم الدین بھی ایک جانی مانی علمی شخصیت ہیں۔
ادارے کے خازن اقبال احمد فاروقی سابق ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کے صاحبزادے ہیں۔ اراکین مجلس نظماء بھی اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی ممتاز ہیں، جن میں میر حسین علی امام، حمید الدین بوزئی و دیگر شامل ہیں۔
اکادمی کے کتب خانے میں کتابوں کا بیش بہا خزانہ محفوظ ہے جس سے علم کی چاشنی رکھنے والے متوالے فیض یاب ہو رہے ہیں، جس عمدگی سے اس انمول قومی خزانے کی نگہداشت کی جارہی ہے اس کو راقم خوش آیند قرار دیتے ہوئے اسے اکادمی کی عظیم قومی خدمت سے تعبیر کرتے ہیں۔ نواب بہادر یار جنگ کے لیے اگر یہ کہا جائے تو بلاشبہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔بقول شاعر:
لمحوں کا مسافر تھا، کام صدیوں کا کرگیا