نگار خانہ
رئیس فاطمہ نے اپنی آپ بیتی ایسی لکھی ہے جو اگر جگ بیتی کہی جائے تو غلط نہ ہوگا
الٰہ آباد کے ایک بڑے اسپتال میں 17 جولائی 1946 کو ایک خاتون کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی۔ ماں کا آپریشن ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ بچی کو نہیں بچا سکیں، لہٰذا بچی کو ایک ٹب میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ اسے نہلا کر دفنا دیا جائے۔
نرس کسی کام سے چلی گئی تھی۔ بچی کی دادی قریب ہی کرسی پر بیٹھی تھی۔ ان کی نظر اچانک مردہ بچی پر پڑی تو انھوں نے دیکھا کہ بچی کا ہاتھ ہلا ہے۔
انھوں نے قریب جا کر دیکھا تو انھیں لگا کہ بچی زندہ ہے۔ انھوں نے اپنی بہو سے کہا کہ '' وہ رونا بند کرے، اس کی بیٹی زندہ ہے۔'' بہو نے جلدی سے آنسو پونچھے اور ساس سے کہا '' اماں! جلدی سے ڈاکٹر کو بلائیں اور بچی کو ٹب سے نکال کے کپڑے پہنا دیں۔'' ساس نے جلدی سے اس نومولود کو اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔
اب بچی میں مزید حرکت پیدا ہوگئی تھی۔ انھوں نے جلدی سے انگریز ڈاکٹر کو جا کر بتایا جو اُردو بھی بہت اچھی بولتی تھی۔ وہ فوراً آگئی۔ بچی کے دل کی دھڑکن چیک کی اور مسکراتے ہوئے بولی۔ '' مبارک ہو بے بی زندہ ہے۔'' اس نے فوری طور پر نرس کو بھیجا تاکہ بچی کو تیار کرسکے۔
تھوڑی ہی دیر میں بچی کے والد بھی آگئے۔ انھیں جب پتا چلا کہ ان کی بیٹی زندہ ہے تو بہت خوش ہوئے۔ اس بچی کی ایک بڑی بہن تھی جس کا نام کنیز فاطمہ تھا، دو بڑے بھائی تھے، اقبال احمد اور ابرار احمد۔ ایک بارہ سال کے اور دوسرے دس سال کے۔ بڑی بہن پھولے نہیں سما رہی تھی، وہ بہت خوش تھی۔
ہر نماز میں اللہ سے دعا کرتی تھی کہ وہ اسے ایک بہن دے دے۔ اللہ نے دعا سن لی۔ مردہ بچی زندہ ہوگئی، اس کی گود میں آگئی۔ بچی کا عقیقہ ہوا، مہمان بلائے گئے۔ خالہ نے نام رکھا ''رئیس فاطمہ'' لیکن اس بچی کے گھر والے '' رئیسہ'' کہتے تھے۔
''نگار خانہ'' اسی رئیس فاطمہ کی آپ بیتی کا عنوان ہے۔ وہ لکھتی ہیں '' میں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو اپنے اطراف محبت کرنے والے رشتوں، کتابوں اور موسیقی کے گرام فون ریکارڈز کو پایا۔ میرے والد انگریزی اور فرنچ جانتے تھے۔
انھیں میں ہمیشہ انگریزی ناول پڑھتا دیکھتی تھی۔ رات کو وہ میوزک سنتے تھے، والدہ اور بھائی دن بھر ریڈیو سنتے تھے، بس اذان کے وقت ریڈیو بند ہوتا تھا، نمازکے بعد پھر کھل جاتا تھا۔ میرے والد نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ والد صاحب کا ایک شوق ہاکی اور فٹبال بھی تھا۔''
رئیس فاطمہ لکھتی ہیں '' مجھے کبھی لڑکیوں والے کھیل پسند نہ آئے۔ نہ میں نے گڑیاں کھیلیں اور نہ کوئی اور کھیل۔ میری دلچسپی تو صرف کتابوں میں تھی، میری دنیا کتابیں تھیں۔
کتابیں پڑھنے اورکہانیاں سننے کا مجھے ایک جنون تھا، لیکن اتنی ہی دلچسپی مجھے پڑھائی سے تھی۔ ہر کلاس میں فرسٹ آتی تھی اور یہ سلسلہ ماسٹرز کرنے تک جاری رہا۔ تعلیم کے علاوہ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بہت فعال تھی۔ تقریر، تحریر، تعلیم تینوں ''ت'' میں اول نمبر۔''
رئیس فاطمہ کی زندگی میں کراچی فار ویمن کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں وہ پڑھائی کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ یہاں ان کی صلاحیتیں چمکیں۔ یہ جب یونیورسٹی میں آئیں تو یہاں بھی ان کی وہی سرگرمیاں رہیں جوکالج میں تھی۔
انھی دنوں ان کی ملاقات قاضی اختر سے ہوئی جو مختلف مرحلوں سے گزرتی ہوئی، ان کی ان سے شادی پر منتج ہوئی اور ان کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ وہ ایک ہونہار بیٹے کی ماں بھی بن گئیں۔
رئیس فاطمہ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ہندوستان جائیں۔ یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔ لکھتی ہیں ''ہم بہ ذریعہ بس لاہور سے دلی روانہ ہوئے۔ یہ ایک عجیب سفر تھا، خوابوں کی سر زمین کا سفر۔ میں ہمیشہ سے دلی جانا چاہتی تھی۔
ہمارا بس کا سفر بہت آرام دہ اور پُرلطف تھا۔ ہمیں چھ شہروں کا ویزا ملا تھا، دلی، جے پور، احمد آباد، آگرہ، جوناگڑھ اور شملہ۔ احمد آباد میں اخترکی ننھیال ہے۔''
رئیس فاطمہ کو ہندوستان کے ایک اور سفرکی خواہش تھی اور وہ پوری ہونے والی تھی کہ قاضی اختر اچانک بیمار ہوگئے اور اسی بیماری میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔
لکھتی ہیں '' میری دنیا اندھیر ہوگئی۔ زندگی کا پہلا صدمہ میری ماں کی وفات تھی جس نے بہت کچھ میری زندگی سے چھینا اور دوسرا صدمہ اخترکی وفات تھی جس نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا۔ میں بھری دنیا میں تنہا رہ گئی۔
نہ بھائی نہ بہن، نہ ماں باپ نہ شوہر، سب چلے گئے اور اکلوتا بیٹا ملازمت کی وجہ سے کوسوں دور۔ میں آج جو کچھ ہوں اپنے والد اور شوہر کی وجہ سے ہوں۔ طالب علمی کے زمانے میں جب میرے آرٹیکل چھپتے تھے تو میری والد بہت خوش ہوتے تھے۔
شادی کے بعد اختر نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ جب میرے افسانے اور ناولٹ بہت سارے جمع ہوگئے جو مختلف رسالوں میں شایع ہوئے تھے تو انھوں نے ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اب مجھے اپنا افسانوی مجموعہ شایع کرنا چاہیے۔ پھر سارا کام انھوں نے ہی کیا کمپوزنگ سے لے کر پرنٹنگ تک، پھر ان کی رونمائی کروائی۔ میری تحریروں سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے اور دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں میری چودہ کتابیں شایع ہوچکی تھیں۔''
رئیس فاطمہ نے اپنی آپ بیتی ایسی لکھی ہے جو اگر جگ بیتی کہی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنے خاندان میں ہونے والے غیر معمولی واقعات، رشتوں کے تقاضوں سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں انھوں نے بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں۔
لکھتی ہیں '' میری آپ بیتی پڑھتے وقت آپ کو لگے گا کہ بعض واقعات کو بعد میں آنا چاہیے تھا لیکن وہ پہلے آگئے اور بعض جگہ یوں لگے گا جیسے واقعات پہلے آنا چاہیے تھے وہ بعد میں آئے۔ مجھے خود بھی اس کا احساس ہے لیکن یہ ایک سوانح ہے۔
مجھے جب بھی جو کچھ یاد آیا، وہ لکھ دیا۔ خیالات کا کاررواں قلم کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ جہاں کہیں پڑاؤ آتا ہے قلم رک جاتا ہے اور جوں ہی شہ سوار قلم پھر رواں ہوتا ہے جو یاد آتا جاتا ہے وہ لکھتی جاتی ہوں۔ خیالات کی یلغار کا میرا قلم ساتھ نہیں دے پاتا، بس چلتا رہتا ہے اور میں اسے روکتی نہیں۔''
رئیس فاطمہ نے اپنی کتاب میں کچھ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کی حرکتیں پڑھ کر شرم آتی ہے اور ان سے نمٹنے میں رئیس فاطمہ کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا پڑتی ہے۔
ایسے کمینے صفت لوگوں سے رئیس فاطمہ کو اس وقت سابقہ ہوا جب قاضی اختر اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور رئیس فاطمہ بے سہارا رہ گئی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی رئیس فاطمہ نے ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے انھیں سہارا دیا اور جس طرح ہو سکا ان کی حوصلہ افزائی کی۔