انتخابی معاملات
سیاست دانوں کو بار بار دکانداروں کی مثالیں کیوں دی گئی ہیں؟ ...
KARACHI:
آپ کے گھر کے آس پاس مٹھائی کی کتنی دکانیں ہیں؟ پرانی کتنی ہیں اور نئی کتنی کھلی ہیں؟ کراچی کے حوالے سے تجربہ ہے کہ جب بھی مٹھائی کی دکانیں ایک ساتھ کھلتی ہیں تو ایک چل جاتی ہے اور دوسری بند ہوجاتی ہے۔ برنس روڈ، حسین آباد اور عید گاہ کے حوالے سے بے شمار لوگ چشم دید گواہ ہوںگے۔ ان بند دکانوں کو کسی اور نے خریدا اور بعد میں جوتے، حلیم اور فرنیچر کی دکانیں کھل گئیں۔ کیا کسی ناکام دکاندار نے کامیاب پر حملہ کیا؟ اس کی دکان بند کروانے کے لیے غنڈے بھیجے؟ چمکتی دمکتی دکان کے گاہکوں پر فائرنگ کروائی؟ سب نے اسے قدرت کا فیصلہ یا اپنی تدبیر کی خامی سمجھ کر قبول کرلیا۔ کیا ہمارے ملک کے سیاست دان دکانداروں سے کچھ سبق حاصل کریںگے کہ کوئی دھاندلی نہ کرے۔
ایک موکل اپنے ہی کاروبار کی دوسری دکان لے رہے تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ نئی دکان کس کے نام لینی چاہیے؟ جس سے خرید رہے ہیں اسے پے منٹ کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ قانونی سوالات کے بعد ایک وکیل کی کاروباری جوابات کی حد ختم ہوگئی۔ ان سے کہا کہ آپ چالیس برسوں سے اس مارکیٹ میں ہیں۔ اپنے ہی کسی دکاندار ساتھی سے مشورہ کرلیں۔ ان کا جواب تھا کہ ہماری پیشہ ورانہ رقابت ہوتی ہے، ممکن ہے کوئی مناسب مشورہ نہ ملے۔ کاروباری شخص نے کہاکہ جب کوئی گاہک مارکیٹ میں فریج، ٹی وی یا جنریٹر لینے آتا ہے تو تمام دکانداروں کی اس پر نظر ہوتی ہے۔ ایک جیسا مال اور تقریباً ایک جیسی قیمت ہوتی ہے، گاہک سے محروم رہ جانے والے دکاندار افسوس کرتے ہیں۔ یہاں سے حسد کی آگ جنم لیتی ہے، کیا محسوس کیا آپ نے؟ اس جلا دینے والی آتش کے باوجود کوئی دکاندار کسی کے خلاف ناجائز حربہ استعمال نہیں کرتا۔ کوئی انجینئرڈ ٹیکنیک استعمال نہیں کرتا۔
ڈاکٹروں اور وکیلوں کی صورت حال مختلف ہوتی ہے، کسی ایک بلڈنگ میں درجنوں وکلا ہوں لیکن موکل اس کے دفتر میں جاتا ہے جو پہلے سے وہ سوچ کر آتا ہے۔ یہی صورت حال ڈاکٹروں کی ہوتی ہے۔ کان کا مریض آنکھوں کے اسپیشلسٹ کے پاس نہیں جائے گا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام پروفیشنلز فرشتے ہوتے ہیں۔ بے شک پیشہ ورانہ رقابت ہوتی ہے لیکن وہ حدود کے دائرے میں رہتی ہے۔ کسی اور وکیل یا ڈاکٹر کے بارے میں کوئی موکل یا مریض رائے پوچھے تو اچھے لوگ منفی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔ کوئی کمپیوٹرائزڈ حربہ استعمال نہیں کرتا۔
ملکہ برطانیہ کو ایک بیکری کے بسکٹ پسند آئے۔ انھوں نے شاہی محل کے لیے اس دکان کو چن لیا۔ یہ اس بیکری والے کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ اس نے اپنی دکان کے باہر بورڈ لگایا کہ ''برمنگھم پیلس میں بسکٹ و کیک ہماری بیکری سے جاتے ہیں ''یہ بات یقیناً قریب کے انڈے ڈبل روٹی والے کے لیے ناپسندیدہ تھی۔ اس نے کیا کیا؟ اس نے بھی ایک بورڈ لگوایا ''خدائے تعالیٰ شاہی خاندان کی صحت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے'' یہ دانش مندانہ تحریر طنز سے بھرپور تھی۔ جو یقیناً پیچھے رہ جانے پر غم و غصے کا اظہار تھی لیکن اس میں تہذیب و شائستگی نظر آتی ہے۔
کالم کا عنوان ہے ''انتخابی معاملات'' لیکن ہم مٹھائی والوں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور لندن کے بیکری والوں کی پیشہ ورانہ رقابت کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم لمحہ بہ لمحہ اپنے مقصد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں 70 کے علاوہ کوئی انتخاب آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ پچاس کے عشرے میں ''جھرلو'' کی اصطلاح ایجاد ہوئی تو 77 میں دھاندلی، نوے کے عشرے میں انجینئرڈ اور کمپیوٹرائزڈ تو نئی صدی کے انتخابات میں ٹھپے اور پنکچر لگانے جیسی بات کہی گئی ہے۔ انتخابی نظام کی خرابی پر کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں لیکن اصل بات کچھ اور ہے۔
کیا الیکشن کمشنر طاقت ور ہو تو پاکستان میں دھاندلی نہیں ہوگی؟ ریٹرننگ افسران ایماندار ہوں تو آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے گی؟ پریذائیڈنگ افسران اور عملہ تربیت یافتہ ہو تو ٹھپے نہیں لگیںگے؟ میڈیا اور کارکنان اگر پولنگ اسٹیشن پر موجود ہوں تو پنکچر نہیں لگیںگے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پورا کھیل آٹھ آدمیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر یہ آٹھ آدمی فیصلہ کریں تو کتنا بھی کمزور انتخابی نظام ہو، کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ ان آٹھ آدمیوں میں سے اکثریت کرتی کیا ہے؟ پہلے یہ لطیفہ سنیے پھر ان کی بات کرتے ہیں۔
ایک دکاندار کا بیٹا اپنے پڑوسی دکاندار کی بوری سے مال نکال کر اپنے باپ کی بوری میں ڈال رہا تھا۔ نقصان اٹھانے والا کہتا ہے کہ اپنے بیٹے کو سمجھائو، فائدہ اٹھانے والا کہتا ہے کہ یہ لڑکا پاگل ہے۔ دوسرا جواب دیتا ہے کہ پھر تمہاری بوری خالی کرکے میری بوری کیوں نہیں بھر رہا؟ پہلا دکاندار جواب دیتا ہے کہ اتنا بھی پاگل نہیں ہے۔ ان آٹھ آدمیوں کی اکثریت انتخابات والے مہینے میں خصوصاً اس اہم دن اپنے امیدواروں اور کارکنوں کو روک دے کہ دوسرے کی بوری سے مال نہیں نکالنا تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت،پیپلز پارٹی کی قیادت، عمران خان، الطاف حسین، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفندیار، اگر طے کریں کہ ہم عوام کا فیصلہ قبول کریںگے اور الیکشن والے دن ہماری جانب سے کوئی قابل اعتراض حرکت نہ ہوگی۔ اگر یہ آٹھ سیاسی رہنما طے کریں تو نہ کسی قانون سازی کی ضرورت ہے، نہ انمٹ سیاسی کی اور نہ تربیت یافتہ عملے کی۔ اگر کوئی دکان خالی ہو تو کسی کو حق نہیں کہ سامان چرائے۔ 70 میں مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ فون اور گاڑیوں کی سہولتیں آج کی سی نہ تھیں۔ اس کے باوجود منصفانہ انتخابات ہوگئے۔ معاشرہ ایماندار ہو تو چوکیداروں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
سیاست دانوں کو بار بار دکانداروں کی مثالیں کیوں دی گئی ہیں؟ اس لیے کہ تاجروں کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے حریف سے اکثر فیئر گیم کھیلتے ہیں تو ہمارے آٹھ سیاست دان کیوں اس نکتے پر اکٹھے نہیں ہوجاتے۔ بھٹو جیسے مقبول رہنما کی حکومت اور جان دھاندلی کے الزام کی بدولت گئی۔ ہمارے سیاست دان طے کریں کہ اگر پاکستان کا بالغ انسان کہے گا تو ہم ایوان میں جائیںگے ورنہ خاندان میں واپس چلے جائیںگے۔ یاد رکھیے اگر یہ نہ ہوا تو معاملات زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں اور قوانین میں خامیاں ہوں گی لیکن وہاں کے سیاست دانوں نے طے کیا ہے کہ ہم فیئر پلے کھیلیں گے۔ یہ طے نہ کرنے پر ''آپریشن فیئر پلے'' کا خطرہ رہتا ہی ہے۔ کیا یہ آٹھ سیاست دان درست کریںگے انتخابی معاملات؟