کم معاوضہ جبری مشقت تعلیم و بنیادی سہولت ندارد دیہی خواتین کا تہرا استحصال ایکسپریس فورم

6 کروڑ 40 لاکھ دیہی خواتین زراعت سے وابستہ، کوئی پرسان حال نہیں، ڈاکٹر ارم رباب


دیہی خواتین کی ترقی اور مسائل حل کرنا ریاست کی ذمے داری، رانی شمیم۔ فوٹو: ایکسپریس

ملک میں موجود ساڑھے 6 کروڑ دیہی خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں، ان کا تہرا استحصال ہو رہا ہے۔

کم معاوضہ، زیادہ کام، جبری مشقت، تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی دیہی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے، ملکی شرح نمو اور فوڈ سیکیورٹی میں دیہی خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے مگر بدقسمتی سے ان پر قانون محنت کا اطلاق نہیں ہوتا، انہیں مزدور کی حیثیت حاصل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سوشل سیکیورٹی، سوشل پروٹیکشن اور 'ای وی بی آئی' جیسی سہولیات سے محروم ہیں، انہیں یونین سازی کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی سیاسی آواز ہے۔

بدقسمتی سے حکومت، ریاست، ٹریڈ یونینز، سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے دیہی خواتین کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا، وقت ہے کہ زرعی اصلاحات لائی جائیں، ان خیالات کا اظہار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ''دیہی خواتین کے عالمی دن'' کے موقع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔

انچارج ویمن ڈویلپمنٹ سینٹر، یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور ڈاکٹر ارم رباب نے کہا کہ عورت زراعت کی بانی ہے ، پاکستان میں 6 کروڑ 40 لاکھ خواتین دیہی علاقوں میں رہتی ہیں جن میں سے بڑی تعداد کا تعلق شعبہ زراعت سے ہے مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں، بدقسمتی سے خواتین تہرے ا ستحصال کا شکار ہیں، دیہات کی خواتین سے جبری مشقت لی جا رہی ہے، کام ایک سا، کام کے اوقات ایک جیسے مگر مرد کے مقابلے میں عورت کم معاوضہ دینا رواج ہے، ان پر لیبر قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، ریاست کو قوانین بنا کر انہیں تحفظ دنیا چاہیے۔

جنرل سیکرٹری پاکستان ورکرز کنفیڈریشن آئمہ محمود نے کہا کہ محنت کش خاتون کو مرد کے مقابلے میں 40 فیصد کم معاوضہ ملتا ہے، اسے 4 سے 6 گھنٹے اضافی کام کرنا پڑتا ہے، کاروبار کیلیے قرض لینا ان کیلیے ناممکن ہے، یونین سازی کا حق بھی حاصل نہیں ہے، سوشل سکیورٹی، پروٹیکشن، ای او بی آئی جیسی کوئی سہولت میسر نہیں۔

نمائندہ دیہی خواتین رانی شمیم نے کہاکہ دیہی خواتین کی ترقی اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اقدمات کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، یہ 2023ء ہے مگر آج بھی ہمارے گائوں میں ڈسپنسری اور لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود نہیں، ساتھ والے گائوں میں ایک ڈسپنسری ہے جو 2 برس بند رہنے کے بعد بحال ہوئی ہے، 'بی ایچ یو' قدرے بہتر ہے، لیکن یہ 12 گائوں کی پہنچ سے دور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں