تحریک پاکستان کا بے تیغ سپاہی
سوچتی ہوں کہ شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے، تاریخ پاک و ہند کے وہ رہنما جنھوں نے لرزہ خیز لمحات میں جنم لیا تھا ۔۔۔
RAWALPINDI:
ابھی تک شعر میرے ذہن میں گونج رہا ہے اور بازگشت دور دور تک سنائی دے رہی ہے۔
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
چہ خوب است، ذہن شعروسخن کی آبیاری کر رہا ہے۔ نازک خیالات رقم ہورہے ہیں۔ داستان حسن و عشق کے دھنک رنگ چاروں سمت روح وجسم کے لیے موسم بہار کا اہتمام کر رہے ہیں اور وہی ہاتھ جو قلم سے جہاد کر رہا ہے جس کا عمل آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے اسی ہاتھ میں چکی تھما دی جاتی ہے۔ جسم کو مقید کردیا جاتا ہے اور قید و بند کی صعوبتوں کے توسط سے آزادی کے متوالوں پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں لیکن روح کو آزادی کے جذبے کو کون سلب کرسکتا ہے۔ تخلیق کار تو اپنے جذبے رقم کرتا رہتا ہے۔
سوری آزادی کے متوالے نے بھی دن بھر چکی پیسی جن لوگوں نے حسرت کے ہاتھوں کے نشان دیکھے ہیں وہ گواہ ہیں ان کی عظمت اور سچائی کے۔ اسی نظریے سے محبت کے جس کو تکلیف کے ہر لمحے میں عزم و حوصلے سے تازگی ملی۔ چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ حسرت نے غزل کی آبرو کا بھی خیال رکھا اور اس کو ایک نیا رنگ و آہنگ دے کر دل کی دوشیزگی کو مزید نکھارا۔ بلا شبہ یہ ایک کمال تھا۔ حسرت نے برطانوی گورنمنٹ کے زمانے میں وہ سزا کاٹی جو واقعی آزادی کے مجاہدین کو دی جاتی تھی۔ وہ سختیاں برداشت کیں جن کی ہمت صرف ان لوگوں میں تھی جو منزل مقصود کے لیے مخلص تھے۔ نہ ہی ان کی جیلیں شاہانہ ہوتی تھیں اور نہ ہی قید و بند نمائشی۔ نہ ہی گھر کے لذیذ کھانے اور نہ ہی فرمائشی پروگرام۔ ہائے زمانہ کتنا بدل گیا ہے اور تو اور قید و بند کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ چکی تو بے چارا غریب پیستا ہے۔
امیروں کی اسیری کے تو رنگ ہی منفرد ہوتے ہیں۔ قربانی لوگ کل بھی دیتے تھے اور آج بھی دے رہے ہیں لیکن قربانی کے معنی و مفہوم بدل گئے ہیں یا پھر ہم قربانی کی اصل روح تک نہیں پہنچ سکے۔ قربانی اور عشق کا ایک گہرا تعلق ہے اور شاید یہ تعلق کمزور پڑچکا ہے۔ عشق اپنی معنویت کھوچکا ہے اور ہر خاص و عام نے اسے اس طور اپنایا کہ یہ اپنی قدر کھوتا جارہا ہے۔ رہی قربانی بیچاری کہ ہر شعبہ، ہر گوشہ اور ہر مقام پر اسی قدر قربانی دی جا رہی ہے، پانی جاری ہے کہ اس کا اصل رنگ و چہرہ ہی دھندلا گیا ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھو کیا دن تھے، کیسی کیسی شخصیات تھیں با کردار لوگ، با حوصلہ رہنما، قافلے رواں دواں، قربانیوں کے گہرے رنگ، مال و متاع لٹاتا قافلہ، سر زمین پاک کے شیدائی جن کے جذبوں کے آگے پہاڑ ریزہ ریزہ تھے اور دریا بے معنی۔ حال گواہ ہے کہ اب وہ لوگ نایاب ہیں۔
حسرت کے ساتھ بے شمار نقوش ذہن کے افق پر ابھرنے لگے۔ ادب ہو، سیاست، صحافت ہو یا معاشرت، معاشرے و سماج کے تمام طبقات نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہمارا کردار کیا ہے؟ پہلے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمارا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں۔ مثبت و منفی کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔ پہلے کوئی شخصیت یا کردار تو ہو۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے عمل کی جگہ کردار و شخصیت بھی ہم سے چھن گئے ہیں۔ باقی کیا بچا شاید کچھ بھی نہیں۔ خیر ایسا بھی نہیں ہے، امید ابھی باقی ہے، بیچاری ایک کمزور سی امید کتنا بڑا مضبوط سہارا ہوتی ہے۔ ہماری آنکھوں میں خوابوں کو زندہ رکھتی ہے۔
سوچتی ہوں کہ شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے، تاریخ پاک و ہند کے وہ رہنما جنھوں نے لرزہ خیز لمحات میں جنم لیا تھا اور قیامت انگیز لمحوں میں اپنا مقام بنایا تھا۔ دوبارہ جنم لیں۔ وہ لوگ جو اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے سوچتے تھے جنھوں نے اپنے خزانے نہیں بھرے بلکہ اپنے خزانے مملکت اسلامیہ کے لیے لٹادیے لیکن پھر اسی خیال سے کانپ جاتی ہوں کہ جب تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی تو کیا میر صادق و جعفر دوبارہ جنم نہ لیں گے پھر اپنی بے وقوفی پر ہنسی آتی ہے۔
دوبارہ جنم تو وہ لے گا جو مرچکا ہو لیکن جو مرے ہی نہیں کسی نہ کسی صورت میں آج بھی زندہ ہیں اور معاشرے میں حسب فطرت اپنا کردار ادا کررہے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ ہم بہرے اور گونگے ہونے کے ساتھ ساتھ اندھے بھی ہو چکے ہیں اسی لیے پہچان کھو بیٹھے ہیں۔ کیا ہم واقعی اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں یا پہچان کا شعور بھی کھودیا ہے نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہم حسرت کی اسیری اور دور حاضر کی اسیری میں فرق نہ کر پائے، خیر اب فرق رہ بھی کیا گیا۔ اب تو رہائی میں اسیری کا رنگ غالب آتا جارہا ہے اور اسیری پر رہائی کا شبہ ہونے لگتا ہے کس قدر قربتیں ہوگئی ہیں، اسیری اور رہائی کے درمیان اسیری میں رہائی کے مزے اور رہائی میں اسیری کی بندشیں، ہم بھی کبھی کبھی لفظوں کے ہیر پھیر میں الجھ جاتے ہیں، بقول شاعر:
اظہار القضات کے پردے میں اور بھی
وعدہ عقدہ ہائے شوق کو پیچیدہ کرچلے
صاحب پیچیدہ گفتگو عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور ہمیں لفظوں کے جال بچھانے کی عادت سی ہوگئی ہے، خیر عادتوں کا کیا ہے۔ عادتیں تو بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ اب دیکھیں نا جب الیکشن کا زمانہ ہوتا ہے تو ہر شخص عاجزی کا پیکر، پرخلوص، انکسار پسند نظر آنے لگتا ہے، قوم کے درد میں مرمٹنے کو تیار، ہر قربانی کے جذبے سے سرشار لیکن بعد از انتخاب الزامات کی بھرمار، نفرت، جنگ جھگڑا، لڑائی اور اپنے اپنے مفاد کی من پسند رستے۔ کاش! ہاں یہ لفظ کاش اکثر ہماری زندگی اور سوچ میں شامل ہوجاتاہے۔ اسی لمحے میں بھی سوچ رہی ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے قول و فعل کے معاملے میں مستقل مزاج ہوجائیں۔ جیسے حسرت تھے، بے باک سیاسی لیڈر اور تحریک آزادی کا مخلص سپاہی ان کی صحافت اور سیاست بے داغ تھی۔
ہائے بے داغ سیاست اور ہماری مادی دنیا۔ ایسا لگتاہے کہ جیسے بے داغ سیاست کا تصور ایک نایاب خواب بنتا جارہاہے۔ کاش! یہ خواب حقیقت بن جائے۔ہماری طبیعت کا رنگ بھی عجیب ہے، بات ہوتی ہے سیاست کی، بات ہوتی ہے تو موضوع ادب کی طرف چلا جاتاہے۔ ادب کی گفتگو ہے تو سماج درمیان میں آجاتاہے۔ سمجھ کے مسائل ہوں تو رخ مذہب کی طرف ہوجاتاہے۔ لیکن صنف غزل کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر رخ اور رنگ کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، غزل کی آبرو کو سنبھال کر رکھنے والے اسی شاعر ناقد ادیب صحافی اور صوفی لیڈر اور آزادی کے صحافی نے شاعری میں سیاسی موضوعات اور تلخ حقائق کو سلیقہ کے ساتھ بیان کرکے ادب کو تاریخ سے قریب کردیا۔ تاریخ رقم کرنے میں ادب کے اہم کردار کو نظر انداز کرنا اب مشکل ہے۔غلامی کے دور میں آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے وہ اپنے عزم اور حکم کے ساتھ سینہ سپر رہے۔