بلیک اکانومی اور پاکستان کی ریڈ لائن

پاکستان کے پالیسی سازوں کے پاس سرد جنگ کی باقیات کو ریاستی امور سے الگ کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے


Latif Chaudhry October 06, 2023
[email protected]

پاکستان ایسے فیز میں داخل ہو چکا ہے جہاں کوئی کسی کا دوست یا بھائی نہیں ہوتا ' اپنے فیصلے خود کرنا پڑتے ہیں' دوسروںکے ساتھ تعلقات کی بنیاد ''آپ ہم سے کیا لیں گے اور بدلے میں ہمیں کیا دیں گے'' کے اصول پر ہوتی ہے۔

یہ تاریخی'ثقافتی اور نسلی رشتے کا بیانیہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں' جائیدادکی تقسیم ہو یاوراثتی حصے کی بات ہو تو بھائی اور بہنیں'اپنے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوتے۔پاکستان کو بھی اب دنیا نامی جنگل میں زندہ رہنے کے لیے اپنے مفادات کی حفاظت خود کرنا پڑے گی'دوسرے بھی اسی وقت ساتھ دینے یا تعاون کرنے پر آمادہ ہوں گے'جب انھیںپاکستان سے کچھ فائدے کی امید ہو گی۔

سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کے درمیان سرد جنگ ختم ہوئے برسوں بیت گئے ہیں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کے پاس سرد جنگ کی باقیات کو ریاستی امور سے الگ کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ افغانستان میں سرد جنگ کا آخری راؤنڈ کھیلا گیا۔

جس کا نتیجہ سوویت یونین کی تحلیل کی صورت میں نکلا 'اس کے بعد نئے میلینیم کاآغاز ہو چکا ہے' اس عرصے میں دنیا میں کئی جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوں گی' نئے ملک بنیں گے اور پرانے ملک بکھر جائیں گے ' اس کی ابتدا سوویت یونین سے ہوئی ' یوگوسلاویہ نام کی ریاست ختم ہوئی اور اس کی جگہ کئی نئی ریاستیں بن گئیں' تازہ مثالیں جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی آزادی ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن ملکوں میں سرد جنگ کے نظریات کی بنیاد پر حکمران اشرافیہ کا اقتدار قائم ہوا ' آج کی دنیا میں ان کا اقتدار قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ دنیا کا سسٹم تبدیل ہو رہا ہے اور اس سسٹم میں پرانے بلاک اور اتحادی ایک دوسرے سے الگ ہو چکے ہیں' آج کا سب سے بڑا نظریہ ریاست کا اپنا معاشی مفاد ہے۔

پاکستان کو بھی اسی اصول کے تحت زندہ رہنا ہے۔پاکستان کے شمال مغرب میں ایسے ممالک کی سرحدیں ہیں' جن پر مختلف قسم کی عالمی پابندیاں عائد ہیں' اس لیے پاکستان کو اپنی ان سرحدوں کی حفاظت کی جتنی ضرورت آج ہے 'پچھلے 75سال میںاتنی نہیں تھی' خصوصاً افغانستان تیس پنتیس برس سے میدان جنگ بنا رہا ہے 'سرد جنگ کا آخری معرکہ بھی یہیں ہوا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان بھی یہیں سجا۔

اس عرصے میں یہاں لڑنے والے گروپس نے اپنی بقا کے لیے جہاںامریکا اور اتحادی ممالک سے مدد حاصل کی' وہاں جنگی اخراجات پورا کرنے کے لیے کریمینل گینگز کا سہارا لیا گیا' اغوا برائے تاوان' بھتہ خوری اور راہداری جگہ ٹیکس لینے جیسے جرائم سے صرف نظر کیا گیا' منشیات اور ڈرگز کا کاروبار عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن گیا' منتشر اور خانہ جنگی کا شکار ریاستیں پوست کی کاشت کے لیے معاون ثابت ہوئی ہیں۔ دہشت گرد گروپوں کی معیشت اسی پر قائم ہے۔

پاکستان میں بھی دہشت گرد گروہ مضبوط ہوئے اورانھوں نے ریاست کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کا اس سے پہلے پاکستان نے سامنا نہیں کیا تھا۔ دہشت گردی اور عالمی سطح پر منشیات اور ڈرگز کا کاروبار بظاہر دو مختلف چیزیں ہیں مگریہ اپنے اپنے مفادات کے مطابق باہم جڑے ہوئے ہیں' یہ دونوں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔

منشیات کا دھندہ دہشت گردتنظیموں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے'منشیات اور ڈرگز ڈیلرز ' ممنوعہ اسلحہ ڈیلرز دہشت گردوں کی مددکرتے ہیں۔ دہشت گرد گروہ ان وائٹ کالر کریمینلز گینگز کو اپنے جنگجو یا سوئی سائیڈر فراہم کرتے ہیں جن کی مدد سے ریاستی اہلکاروں'قانونی کاروبار کرنے والوںاورسیاسی جماعتوں کو دباؤ میں لایا جاتاہے۔

یہ باتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں دہشت گرد گروہوں کوایسی ڈرگز تک رسائی مل چکی ہے جوخود کش مشن کے لیے تیار کیے گئے دہشت گردوں کو دی جاتی ہیں'جن کے کھانے یا انجیکشن کے ذریعے لینے سے وہ بے خوف اور احساسات سے عاری ہو جاتے ہیں اور وہ بے رحمی سے بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں۔

ان دونوں گروپوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین (Narcoterror) کا نام دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ کسی بھی ریاست کے لیے سنگین خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا۔

پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے بھی کہا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ پر عالمی برادری کو تشویش ہے۔ منشیات اور ڈرگز کی غیر قانونی تجارت سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں ' دہشت گردی کے لیے وسائل اسی تجارت کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں ۔

پاکستان سے کروڑوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے گئے ہیں 'اب جا کر حکومت نے اس غیر قانونی کاروبار پر گرفت کرنا شروع کی ہے' کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ امریکا' اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود طالبان کی حکومت کو سہارا مل رہا ہے'ان کی کرنسی مستحکم ہوئی ہے'پچھلے دنوں افغانستان کی حکومت نے اپنے محفوظ ذخائر سے کروڑوں ڈالر کھلی مارکیٹ میں فروخت بھی کیے ہیں۔

جب کہ پاکستان جو ایک آرگنائزڈ اور مستحکم ریاست ہے' اس کا انتظامی اور جوڈیشل ڈھانچہ مستحکم ہے' افغانستان کی نسبت پاکستان کی معیشت کا حجم بھی بہت بڑا ہے' ٹیکنالوجی میں بھی آگے ہے' ایسا ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہوا ۔ کیا یہ حیران کر دینے والی بات نہیں ہے۔ غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی بہاؤ اور اسمگلنگ افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے لائف لائن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر آ گئی ہے۔

عالمی سطح پر جیوپولیٹیکل اور جیو اکنامکس تبدیلیاں آ رہی ہیں ' عالمی پاورز کے تصور میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اب سب سے زیادہ اہمیت معیشت اور اقتصادیات کو حاصل ہو گئی ہے۔ جو ریاست معاشی طور پر مستحکم ہو گی' وہ تب ہی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر سکے گی۔دولت کے بغیر ٹیکنالوجی کا حصول ممکن نہیں ہے'اگر ٹیکنالوجی نہیں ہو گی تو ریاستی دفاعی صلاحیت میں کمپرومائز ہوگی۔

جیسے ہی کسی ریاست کی دفاعی صلاحیت کمپرومائز ہوتی ہے' ویسے ہی دہشت گرد گروہ 'وائٹ کالر کریمینلز مافیا طاقتور ہونا شروع ہو جاتا ہے 'ان گروہوں کی بقا کا دارومدار ریاستی نظام کے انتشار پر ہوتا ہے ' پاکستان میں دہشت گردی کرانے والوں کا ایجنڈا سسٹم کو تباہ کرنا ہے کیونکہ اسی میں اس کی بقا ہے۔

پاکستان میں بلیک اکانومی کا سائز ریڈ لائن کراس کر چکا ہے 'اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست بچانے اور قانون پسند شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے بلیک اکانومی کا حجم زیرو سائز پر لایا جائے' دہشت گردوں' انتہا پسندوں اور ان کے وائٹ کالر سہولت کاروںکو ریاستی نظام سے الگ کیا جائے'انھیں سیاست سے بھی الگ کرناچاہیے۔ایسا کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں