ملکہ کا خواب
ملکہ زبیدہ ہارون الرشید کی ملکہ تھیں۔ ان کے اپنے ذاتی خواب تو پورے ہوگئے لیکن وہ اپنے بیٹے
ملکہ کا لفظ دیکھ کر آپ کے ذہن میں ''ملکہ ترنم'' کا خیال آیا ہوگا۔ جی نہیں وہ تو سریلے پن کی ملکہ تھیں جو قصور میں پیدا ہوئیں اور جس کا نام اﷲ وسائی تھا۔ ان ہی کی ایک ہم نام نور جہاں تھیں جو جہانگیر کی ملکہ رہ چکی ہیں اور جن کا مقبرہ لاہور میں ہے۔ جہانگیر جب شہزادہ سلیم تھے تو ان کی بے باکی نے انارکلی کے دل میں ملکہ بننے کا خواب جگایا۔ وہ سپنا بکھر گیا۔ ان ہی بکھرتے خوابوں کی آج ہم بات کررہے ہیں جو خوب صورت، ذہین اور بادشاہوں کے قریب رہنے والی نوجوان خواتین نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ۔ یقین جانیں ملکہ کا خواب تو ایک بہانہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج انسانوں اور خاندانوں کے عروج و زوال پر گفتگو کرنی ہے۔
ملکہ زبیدہ ہارون الرشید کی ملکہ تھیں۔ ان کے اپنے ذاتی خواب تو پورے ہوگئے لیکن وہ اپنے بیٹے امین الرشید کو خلیفہ نہ بنا سکیں۔ اسی طرح جیسے نور جہاں اپنے سگے بیٹے کو بادشاہ نہ بناسکیں۔ مامون الرشید اور شاہ جہاں اپنی اپنی مشہور مائوں کے معروف سوتیلے بیٹے تھے۔ ان دونوں کی مائیں تو ہارون اور جہانگیر کی محبوب ملکائیں تھیں لیکن یہ دونوں اپنی اپنی سوتیلی مائوں کے خوابوں کو چکنا چور کرکے اقتدار کی مسند تک بیٹھ ہی گئے۔
شہنشاہ ایران کا نام بہت کم نوجوانوں نے سنا ہوگا۔ جب ایران کے نوجوان اب اپنے بادشاہ سے اتنے زیادہ واقف نہیں تو پاکستانی طالب علموں سے کیا تقاضا کرنا۔ جب ان کی اکثریت ناہید مرزا کو نہیں جانتی تو انھیں ملکہ فرح پہلوی کی کیا خبر ہوگی، شاہ ایران کی وہ ملکہ جس نے تخت کو وارث عطا کیا تھا۔ رضا شاہ نے دوسری شادی بھی اسی لیے کی تھی خوش حال ملک کے طاقت ور بادشاہ کے بیٹے کی کس شاندار انداز میں پرورش ہوئی ہوگی، کس طرح شہزادے کو امور سلطنت سنبھالنے کی تربیت دی گئی ہوگی۔ شاندار اساتذہ اور اعلیٰ ترین درسگاہیں شہزادے کو برطانیہ اور جاپان بھجوایا گیا، مقصد یہ تھا کہ وہ صدیوں پرانی بادشاہتوں کے رسوم و رواج سے واقف ہوجائیں۔
رضا شاہ پہلوی خود بھی ڈھائی ہزار سالہ ثقافت کے علم بردار تھے۔ چودہ سو سال پہلے کے حجاز و نجد سے رشتہ جوڑنے کے بجائے انھیں اس سے ایک صدی قبل کی تہذیب پسند تھی۔ فارس، وکسریٰ کی تہذیب۔ جب شہزادہ امور مملکت کو سنبھالنے اور فرح پہلوی مادر ملکہ بننے کو تیار ہوئیں تو ایران میں خمینی انقلاب آگیا۔ ایک ماہ قبل بھی امریکی دانشور کہتے تھے کہ کچھ نہ ہوگا۔ یوں بڑی مشکل سے مصر کے صدر انوارالسادات نے شاہی خاندان کو پناہ دی کہ مستقبل کا ''بادشاہ'' ان کا داماد تھا۔ یہ تھا ملکہ فرح پہلوی کا خواب جو ایران میں آنے والے انقلاب کی ٹھوکر سے بکھر کر رہ گیا، صدر سادات کی بیٹی کا سوچیں جو مصر و ایران کی بیک وقت ملکہ بننے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔
ہندوستان کی نور جہاں اور بغداد کی زبیدہ کے خوابوں سے ہوتے ہوئے ہم فارس کی ملکہ فرح کی بات کرچکے ہیں۔ اب ایک بار پھر ہندوستان میں چلتے ہیں اور وہاں سے پاکستان کی جانب آئیںگے۔ نئے زمانے کی نہ کوئی ملکہ ہے اور نہ برصغیر میں بظاہر کوئی شہزادے ۔ آج کل مغلیہ خاندان تو نہیں لیکن برسر اقتدار طبقے کے لوگ بالکل شاہی خاندانوں کے سے انداز سے اٹھتے بیٹھتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں۔ ابن خلدون نے کہا تھا قومیں(اور خاندان) انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان پر بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے بعد موت آتی ہے، ہم برصغیر کے چند بڑے سیاسی خاندانوں کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستان کے نہرو اور پاکستان کے بھٹو و شریف خاندان موجودہ دور پر گفتگو سے پہلے آیئے مغلیہ خاندان کے آخری زمانے کو تاریخ کے جھروکے سے جھانکتے ہیں۔
شہزادہ فرخ کی عمر بیالیس سال تھی اور وہ بہادر شاہ ظفر کے ولی عہد تھے۔ بادشاہ نے 65 سال کی عمر میں شادی کی تو ملکہ زینت محل ان کی چہیتی قرار پائیں، شاید ملکہ کو زبیدہ اور نور جہاں کی تاریخ معلوم ہو، وہ باخبر ہوکر مامون الرشید شاہ جہاں جسے سوتیلے بیٹوں کی بدولت ان دونوں ملکائوں کے سگے بیٹے تخت و تاج سے محروم ہوچکے تھے۔ ہارون اور جہانگیر کی محبوب ہونے کے باوجود زبیدہ و نورجہاں اپنے سگے بیٹوں کو اقتدار نہ دلاسکیں۔ ملکہ زینت بیگم نے اپنے بیٹے جواں بخت کو ولی عہد بنوایا اور شہزادہ فرخ کی بہادر شاہ ظفر نے چھٹی کروادی۔
یہ جلاوطنی اور محرومی اقتدار سے چند سال پہلے کی بات ہے۔ گیارہ سالہ ولی عہد کی شادی دس برس کی زمانی بیگم سے ہوگئی۔ سوچیں کہ اس چھوٹی سی شہزادی نے ملکہ بننے کے کیا کیا خواب نہ دیکھے ہوںگے۔ 1857 آیا اور جنگ آزادی لڑی گئی جسے انگریز غدر کہتے ہیں۔ مقدمے چلانے اور سزا سنانے کے بعد بیاسی برس کے بادشاہ کو رنگون میں جلا وطن کردیا گیا اس کے ساتھ بیس سالہ ولی عہد اور اس کی اٹھارہ سالہ بیوی یا مستقبل کی ملکہ بھی تھی۔ تاریخ نے شاید ہی کسی ملکہ کے سپنے اتنی بے دردی سے بکھیرے ہوںگے جس بے دردی سے زمانی بیگم کے خواب بکھیر دیے۔
دنیا میں پانچ بادشاہ رہ جائیںگے۔ چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔ یہ بات کسی انگریز نے کہی ہے یہ اس حد تک سچ ہے کہ دنیا میں وراثتوں کا زمانہ جمہوری دور کے سبب گہنا تو گیا ہے لیکن کم یا ختم نہیں ہوا ۔ صرف انداز بدل گئے ہیں، برصغیر پاک و ہند میں سیاسی خاندان ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر اپنی بادشاہتیں قائم کرتے ہیں، یہاں ملکہ عالیہ تو نہیں ہوتیں لیکن ''خاتون اول'' کی حیثیت ملکہ کی سی ہوتی ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں فرسٹ لیڈی کی اہمیت اس کا واضح ثبوت ہے۔ جب ملتی جلتی بادشاہتیں ہیں، ملتے جلتے شاہی خاندان ہیں، ملتی جلتی وراثتیں ہیں تو ملتی جلتی ملکائیں بھی ہوںگی۔ جب سب کچھ ہوگا تو ملتے جلتے خواب بھی ہوںگے اور ان کا بکھرنا بھی ملتا جلتا ہی ہوگا۔ کس طرح؟ آیئے بھارت کے نہرو خاندان کی شاہی زندگی جھانکنے کے لیے نئی دہلی چلتے ہیں۔
اندرا گاندھی کا اقتدار سوا نیزے پر تھا۔ پاکستان ڈھاکہ کو کاٹ کر انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی، ان کا بیٹا سنجے گاندھی ایک شہزادہ تھا اور اس کی بیوی مانیکا کی حیثیت مستقبل کی ملکہ جیسی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب راجیو گاندھی پائلٹ تھے اور ان کی اطالوی بیوی سونیا ایک گھریلو خاتون تھیں۔ اچانک سنجے گاندھی ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گئے، اندرا گاندھی کو تخت کی حفاظت کے لیے ایک وارث کی ضرورت تھی۔
پائلٹ راجیو نے اپنی فلائٹ کو ٹیک آف کیا اور ماں کے کہنے پر اپنا طیارہ دہلی کے سیاسی رن وے پر کھڑا کیا، سکھوں ''گولڈن ٹیمپل'' کی بے حرمتی کے بدلے میں اندرا کو ماردیا، راجیو نے ہمدردی کے وہ ووٹ لیے جو نہرو اور اندرا کو بھی نہ ملے تھے، اب جیٹھانی سونیا گاندھی ملکہ قرار پائیں اور شہزادہ راہول مستقبل کا بادشاہ، ملکہ بننے کا خواب تو دیورانی نے دیکھا تھا چھوٹی بہو، مانیکا کا سپنا بکھر گیا، انسانوں، خاندانوں اور قوموں کے اتار چڑھائو بالکل موسموں کی طرح ہوتے ہیں، کبھی گرمی و سردی تو کبھی بہار و خزاں۔
بھٹو کا اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ آئین و ایٹمی پروگرام دے کر انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی، لاڑکانے کے گھر نام ''المرتضیٰ'' اور 70 کلفٹن کا بنگلہ بڑے بیٹے کو دے کر وراثت کا اشارہ کیا، مرتصیٰ بھٹو نے غیر ملکی خاتون سے شادی کی تھی، غنویٰ بھی مستقبل کی ملکہ ہی تھیں، انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر تحریک چلی اور بھٹو اقتدار و زندگی سے محروم ہوگئے، بے نظیر نے آئینی تو مرتضیٰ نے غیر آئینی جد وجہد کا راستہ چنا، یہ اہم ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ بے نظیر اپریل 86 میں پاکستان آئیں، ڈھائی سالہ جد وجہد اور انتظار کا پھل ملا۔ بلاول ایک مقبول پارٹی کے چیئرمین جب کہ ذوالفقار جونیئر اور غنویٰ بھٹو کے خواب تقریباً بکھرچکے ہیں۔
بلاول ہوں یا راہول یا بڑے سیاسی خاندانوں کے ''شہزادے''، ان کی شریک حیات جو بھی ہوں وہ خاتون اول یا ملکہ بننے کے خواب دیکھیںگی۔ بے رحم تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی تو ملکہ کا سپنا پورا ہوجاتا ہے لیکن اکثر ادھورا بھی رہ جاتا ہے ملکہ کا خواب۔