’’کنٹریکٹ کپ‘‘ کا خوشگوار اختتام
سینٹرل کنٹریکٹ میں بورڈ یا کھلاڑیوں کس کا فائدہ کرایا؟
''آپ مجھے بتائیں 48 گھنٹوں کے اندر کھلاڑیوں سے سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کرا لوں گا'' جب انضمام الحق نے یہ کہا توذکا اشرف کو انھیں بات چیت کا اختیار دینے کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی، جب سے انھوں نے پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ کی پوسٹ سنبھالی مسلسل چیلنجز کی زد میں ہیں، ایک محاذ بند ہو تو دوسرا کھل جاتا ہے،اچھی بات یہ ہے کہ وہ ڈٹے رہے اور جواں مردی سے تمام معاملات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انھوں نے چیف سلیکٹر سے کہا کہ ''اگر آپ ایسا کر سکتے ہیں تو ضرور کریں'' اگلی شب انضمام الحق نے بابر اعظم کو ساتھ لیا اور ذکا اشرف کے گھر پہنچ گئے، وہاں کپتان نے چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی کو کھلاڑیوں کی ڈیمانڈز سے آگاہ کیا، ملاقات بیحد خوشگوار رہی اور ذکا اشرف نے رفقا سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا۔
بابر سمیت کئی پاکستانی کرکٹرز اور انضمام کے ایجنٹ ایک ہی ہیں، معاملہ ان کے ہاتھ میں آیا تو سب کو امید ہوئی کہ اب کوئی حل نکل آئے گا، اگلے روز مذاکرات کا ایک اور دور ہوا جس میں تاریخی فیصلہ سامنے آ گیا۔
پاکستانی کرکٹرز کو اب پہلی بار بورڈ کی آمدنی سے 3 فیصد حصہ ملے گا، بظاہر یہ معمولی نظر آتا ہے لیکن اربوں روپے میں سے اتنا حصہ بھی کروڑوں میں جائے گا، ساتھ بابر، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کو ماہانہ 45 لاکھ روپے تنخواہ، میچ فیس وغیرہ الگ ملے گی، دیگر کیٹیگریز کا معاوضہ 30 سے ساڑھے 7 لاکھ تک ہو سکتا ہے، معاملہ تو حل ہو گیا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ انضمام الحق نے کیا ''کارنامہ'' انجام دیا۔
انھوں نے بورڈ یا کھلاڑیوں کس کا فائدہ کرایا؟ عثمان واہلہ کی زیرسربراہی پی سی بی کا شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ بھی پلیئرز سے جب مذاکرات کر رہا تھا تو بات آئی سی سی سے ملنے والی رقم کے شیئر پر ہی آ کر رکتی تھی، وہ انھیں مل گیا، یعنی انضمام کا معاملے میں پڑنا پلیئرز کے لیے کارآمد ثابت ہوا، خیر جو ہوا مسئلہ تو حل ہو گیا جو کہ خوش آئند بات ہے،اس کا کریڈٹ ذکا اشرف کو جاتا ہے،پلیئرز بھی ان سے بہت خوش ہیں، بابر اعظم نے برملا تعریف بھی کی،ویسے اگر بھارت جا کر ورلڈکپ میں کرکٹرز اسپانسرز کے لوگو شرٹ پر لگانے سے انکار کر دیتے تو بڑا تنازع بنتا۔
اگر وہ آئی سی سی کی تشہیری سرگرمیوں میں شریک نہ ہوتے تو بہت بدنامی ہوئی، ایسا کرنے کا عندیہ دیا جا چکا تھا، اسی لیے پی سی بی بھی بیک فٹ پر گیا، بعض افراد کو لگتا ہے کہ یہ بلیک میلنگ تھی لیکن چند پلیئرز کا خیال تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں،ورلڈکپ کے بعد قیادت سمیت کئی کھلاڑیوں کی تبدیل بھی ممکن ہوگی لہذا ابھی اپنی شرائط پر معاہدہ کرنا چاہیے، ویسے سچ بتائوں تو یہ سن کر مجھے تھوڑا افسوس بھی ہوا کہ پلیئرز کو کیا اپنے آپ پر اعتماد نہیں جو ایسی سوچ رکھتے ہیں کیونکہ اگر وہ ورلڈکپ جیت گئے تو انھیں سونے میں تول دیا جائے گا۔
حکومت اور پرائیوٹ اداروں کی جانب سے پلاٹس اور کروڑوں روپے ملیں گے، خیر ہر کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے،پاکستان کے جو حالات ہیں انھیں دیکھ کر ہی وہ اپنا مستقبل محفوظ بنانا چاہ رہے ہوں گے لیکن ان کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں رہی، ورلڈکپ سے قبل مکمل فوکس کرکٹ پر ہونا چاہیے تھا لیکن پلیئرز پیسے کے پیچھے بورڈ سے محاذ آرائی کرتے رہے، اس کا نقصان جونیئرز کو زیادہ ہوا، بابر جیسے کرکٹرز کو کئی سال معاوضہ نہ ملے وہ برداشت کر لیں گے لیکن وہ کھلاڑی وہ اسٹار اسٹیٹس انجوائے نہیں کر پاتے انھیں چار ماہ سے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی جس سے پریشان تھے، مگر کپتان کے سامنے کوئی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا، سینئرز کا موقف یہ تھا کہ ہماری لڑائی جونیئرز کے لیے ہی ہے، اس کا فائدہ وہ اور مستقبل میں آنے والے کرکٹرز اٹھائیں گے، شاید یہ بات ٹھیک بھی ہے،البتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستانی کرکٹ صرف 25 سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کرکٹرز کے گرد نہیں گھومتی، ہزاروں ڈومیسٹک پلیئرز بھی اس کا حصہ ہیں، انھیں بھی ادایئگیاں کرنا پڑتی ہیں۔
خیر کھلاڑی ورلڈکپ سے قبل'' کںنٹریکٹ کپ'' کے نتیجے سے خوش ہیں، البتہ اب ورلڈکپ میں وہ اضافی دبائو کے ساتھ حصہ لیں گے، خدانخواستہ کارکردگی اچھی نہ رہی تو پھر لوگ یہی طعنے دیں گے کہ دولت کے پیچھے بھاگتے رہے اور کرکٹ پر فوکس نہیں رہا، امید ہے ایسا نہیں ہو گا اور ہماری ٹیم ٹرافی کے ساتھ ہی وطن واپس آئے گی، ویسے کنٹریکٹ کی فہرست میں بعض حیران کن چیزیں بھی شامل ہیں،لوگ شور مچاتے رہے کہ عماد وسیم کو ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل کرو مگرکسی نے توجہ نہ دی۔
وہ تینوں طرز کی قومی ٹیم میں بھی شامل نہیں ہیں، اب اچانک اتنی مہربانی کہ سینٹرل کنٹریکٹ کی سی کیٹیگری میں جگہ دے دی ،یہ بات سمجھ نہیں آئی،کیا یہ ان کو پابند کرنے کی کوشش ہے یا کوئی اور وجہ ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، اسی طرح سرفراز احمد جیسا ایک ایسا سابق کپتان جس نے کچھ عرصے قبل پاکستان کی جانب سے سنچری بھی بنائی ،وہ اب بھی ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمر ہیں۔
انھیں ڈی کیٹیگری میں کئی ناکام اور بعض سفارشیوں کے ساتھ شامل کرتے ہوئے کیا فہرست بنانے والوں کو شرم نہیں آئی،سرفراز کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ شاید ہی کبھی ختم ہو، انضمام الحق پر مشتمل ایک رکنی سلیکشن کمیٹی نے ورلڈکپ اسکواڈ میں صرف ایک وکٹ کیپر کو رکھ کر بھی عجیب فیصلہ کیا، محمد رضوان کے لیے نان اسٹاپ اتنی کرکٹ کھیلنا آسان نہ ہو گا،انھیں بھی آرام کی ضرورت ہے،2 وارم اپ میچز،پھر 9 لیگ مقابلے اور کوالیفائی کرنے کی صورت میں سیمی فائنل اور فائنل، یعنی پاکستان کو بھارت میں 13 میچز کھیلنا پڑ سکتے ہیں۔
ایشیا کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد گرین شرٹس کیلیے ورلڈکپ ازالہ کرنے کا بہترین موقع ہےکوئی بھی موجودہ کرکٹر بھارت میں نہیں کھیل سکا لیکن کنڈیشنز پاکستان سے ملتی جلتی ہی ہیں،پچز بیٹنگ کیلیے سازگار ثابت ہوں گی، بڑے اسکورز دیکھنے میں آ سکتے ہیں، پیسرز کو وکٹیں لینے کے لیے خوب جان لڑانا پڑے گی، اسپنرز کا کردار اہم ہوگا لیکن بدقسمتی سے ہمارے سلو بولرز ان دنوں اچھی فارم میں نہیں ہیں، امید یہی ہے کہ ورلڈکپ میں وہ صلاحیتوں کے مطابق پرفارم کریں گے، ٹیم بھارت پہنچ چکی اور اب ہم یہی چاہتے ہیں کہ ٹرافی کے ساتھ واپس آئے، ہار پھول لے کر استقبال کرنے سب ایئرپورٹ پہنچیں گے۔