زباں فہمی نمبر191 اردو کا ایک اور جہاں۔۔۔۔موریشس

شاعری کی بات کی جائے تو موریشس کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔


سہیل احمد صدیقی September 17, 2023
فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

اپنے محدود مطالعے کے سبب، اپنی عظیم زبان کے بے مثل پھیلاؤ اور اس کے چاہنے والوں کی بکثرت دیگر ممالک بلکہ خطوں میں موجودگی سے بے خبر، اہل قلم (ودیگر) کی اطلاع کے لیے یہ کہنا ازبس ضروری ہے کہ اس باب میں تحقیق کے بہت سے گوشے ابھی ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔

برّاعظم افریقہ کے مشرقی حصے میں واقع، جنت نظیر ملک Mauritiusکانام عموماً اردو میں 'ماریشس' ہی لکھا جاتا ہے ، مگر وہاں کے مقامی ، وہ بھی اردو میں ادب تخلیق کرنے والے اہل قلم ''موریشس'' لکھنا پسند کرتے ہیں کہ اس سے اصل تلفظ کی قربت ہوتی ہے جو بہرحال 'غیر۔اردو' اسم ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر خاکسار بھی ماریشس کی بجائے موریشس لکھ رہا ہے۔

ہرچند کہ یہ ملک کثیرلسانی وکثیر نسلی آبادی پر مشتمل ہے ، مگر بقول عارف سیفی دہلوی صاحب ''اردو یہاں کے مسلمانوں کی ایک مذہبی اور ثقافتی زبان بھی بن گئی ہے''۔

خطہ ہند، بقیہ ایشیا، انگلستان و یورپ ، امریکا و ملحق ممالک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وملحق ممالک وعلاقہ جات کے علاوہ، (بلکہ اُن میںشامل بہت سے ملکوں سے مدتوں پہلے)، اردو نے اسی دل کش سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا تھا۔

موضوع سے متعلق براہ راست گفتگو سے قبل ضروری ہے کہ اس سرزمین کے کوائف مختصراً پیش کیے جائیں:

موریشس کا ویران جزیرہ آٹھویں صدی میں عرب مسلمانوں نے دریافت کیا اور اِس کا نام 'دِنا عروبی ' (DINA AROBI)رکھا (جو قیاس کے تحت، شاید پہلے دنیہ تھا)، جسے آبادکاری کے بعد، مقامی آبادی نے بگاڑ کر Dina Robinکردیا، بعداَزآں جب اس علاقے کا نقشہ ایک اطالوی نقشہ ساز، Alberto Calvino نے بنایا تو جابجا عربی ناموں کی نشان دہی کی، جس سے معلوم ہوا کہ ابتداء میں یہاں عرب مسلمان ہی آباد تھے۔

اس سرزمین پر پُرتگِیز قابضین نے 1507ء تا 1598ء ، ولندیزی (Dutch) نے 1638ء تا 1710ء اور پھر فرینچ نے 1715ء تا 1810ء حکومت کی، جس کے بعد، 1810ء تا 1968ء برطانوی سامراج کا قبضہ رہا۔

1833ء تک یہاں برطانیہ نے باقاعدہ غلام بنائے گئے لوگوں سے کا م لیا اور پھر رفتہ رفتہ ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں مزدور، (خاص طور پر، ابتداء میں گنّے کے کھیتوں میں) کام کے لیے لائے گئے جن کی نسلیں آج بھی وہاں آباد ہیں۔

جمہوریہ موریشس [Republic of Mauritius]کو فرینچ میں غے پُوبلِیک دو موغیِس [République de Maurice]کہا جاتا ہے جو کسی موغِیس صاحب سے منسوب ہے، جسے مقامی 'فرینچ۔انگریزی'+دیگر ذخیرہ الفاظ پر مشتمل مخلوط بولی یعنی ''خیول'' یا کرے اول [Mauritian Creole or Morisien (formerly Morisyen) (Morisyen: kreol morisien] میں Repiblik Morisکہا جاتا ہے۔

اس ملک کا رقبہ 2,040 مربع کلومیٹر یا790مربع میل ہے۔ یہاں ہندومت، عیسائیت، اسلام اور بعض دیگر مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں۔ نسلی اعتبار سے یہ لوگ ہندوستانی، کرے اول، چینی اور فرینچ ہیں، جب کہ ان کی اکثریت (86.5%) کرے اول زبان بولتی ہے اور دیگر لوگ بھوج پوری، فرینچ، انگریزی، چینی، تَمِل اور دیگر زبانیں بولتے ہیں۔

(ہرچند کہ یہ اعدادوشمار وِکی پیڈیا پر دستیاب ہیں، میں ان پر اعتبار نہیں کرتا، کیونکہ بڑے بڑے انسائیکلو پیڈیا میں ایسے اعدادوشمار عموماً بوجوہ پرانے اور ظنّی وتخمینی ہیں)۔ اردو سے محبت کا یہ عالم ہے کہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورحکومت میں موریشس کے نائب صدر پاکستان تشریف لائے تو انھوں نے فی البدیہ اردو میں خطاب کیا جس کا جواب ہماری وزیراعظم نے تحریری تقریر میں بزبان انگریزی دیا۔

موریشس میں اردو زبان کا آغاز، ہندوستان سے آنے والے لوگوں کے طفیل ہوا۔ 1953ء سے اردو کی ابتدائی سطح پر تدریس اسکولوں میں شروع ہوئی، مابعد ثانوی سطح پر اور پھر، ایم اے کی سطح پر تدریس اور بالآخر پی ایچ ڈی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ جہاں تک تخلیق ادب کا تعلق ہے تو اس کی ابتداء قدرے تاخیر سے ہوئی۔

جب12 مارچ1968ء کو، دستور کی تشکیل کے بعد، موریشس کو آزادی ملی تو حکومت کی طرف سے مشرقی زبانوں کی ترویج و اشاعت پر توجہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ یہ ملک 12مارچ1992ء کو باقاعدہ جمہوریہ قرار پایا)۔ 18ستمبر1970ء کو 'دی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ' کی بنیاد پڑی۔ یہی وہ دور تھا جب عظیم الحق جنیدی اور ڈاکٹر اطہرپرویز جیسے ہندوستانی مشاہیرکے ایماء پر، اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے سرگرمیاں شروع ہوئیں۔

مقامی اہل قلم میں شامل عنایت حسین عیدن اور قاسم ہیرا ہندوستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وطن لوٹے تو اردو ادب کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی۔ اُس وقت کے عبوری گورنرجنرل سَر عبدالرحمٰن عثمان اور وزیراعظم سی وُو ساگررام غلام کو سرپرست اعلیٰ بنایا گیا ، جبکہ سَر عبدالرزاق محمد کو سرپرست۔ اس ادارے کا اولین صدر جناب عبداللہ کریم جی کو اور اعزازی معتمد (Honorary secretary) جناب احمدعبداللہ احمد کو بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کی خدمات کی بابت ایک مضمون آن لائن دستیاب ہے:

https://usumru.govmu.org/

ادارے نے جامعہ اردو، علی گڑھ کے اشتراک سے اردو کے امتحانات، ''قبلِِ ابتدائی''، ''ابتدائی ادیب''، ''ادیب ماہر'' اور ''ادیب کامل'' کے درجات کے لیے شروع کیے۔ اس طرح اردو زبان وادب کی ترویج میں بڑی مدد ملے گی۔

عنایت حسین عیدن نے موریشس کی اولین ' انجمنِ ادب اردو' کی بنیاد رکھی اور اہل وطن کو اس جانب مائل کرنے کے لیے ایک ادبی رسالہ 'جستجو ' جاری کیا۔ 1973 ء میں جب وہاں اردو ڈراما فیسٹیول کا آغاز ہوا تو گویا فن وادب کی تخلیق کا ایک اور باب وَا ہوگیا۔ یوں ایک طویل مدت تک رائج رہنے کے باوجود، اردو نے ادبی سفر کا آغاز بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں کیا تو موریشس دیکھتے ہی دیکھتے ''اردو دنیا'' کی ایک نمایاں بستی بن گیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ گو موریشس میں اردو داں طبقہ کم ہے اور اُن کی تخلیقات بھی قدرے کم منظرعام پر آئی ہیں، مگر اہل زبان نہ ہوتے ہوئے اور محدودوسائل کے باوجود، وہ ادب تخلیق کرنے میں مشغول ہوئے۔

موریشس کی وزارتِ فنون و ثقافت کے زیراہتمام ہر سال اردو ڈراما فیسٹول منعقد کیا جاتا ہے جس میں حصہ لینے والے ماقبل اسٹیج ڈرامے پیش کرکے مشق اداکاری بہم پہنچاتے ہیں۔ یک بابی کھیل یعنی One-act plays لکھنے والوں میں رشید نیروا رازداںؔ کا نام خاص طور پر مشہور ہے جو اِسی وزارت میں آرٹس افسر کے عہدے پر فائز رہے، انھوں نے متعدد ڈرامے تحریر کیے جو کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور انھیں انعامات سے نوازا گیا۔

اُن کے ڈراموں کے چار مجموعے ''اندھا کنواں'' (2000) ''ہماری پہچان'' (2007)،''آہ کی گونج'' (2014) اور''وطن کا قرض'' (2017) شایع ہوچکے ہیں۔

دیگر مشہور ڈرامانگاروں میں فاروق رجل (شاہکار ڈراما:'رشتہ' اور مجموعہ: 'دھنک')، قاسم ہیرا ( منظوم ڈراما 'نغمۂ شکستہ')، عنایت حسین عیدن (ڈراموں کا مجموعہ ' زندہ گزٹ')، طاہر دومن (ڈراما:'احساس' اور 'اب دلی دور نہیں')، ڈاکٹر صابر گودڑ (ڈراما: 'انقلاب' اور 'انجام' )، حنیف کنہائی (ڈراما:'وصیت نامہ')، یوسف سبراتی (ڈراموں کا مجموعہ 'میری قسمت' :2014ئ)، عبدالقاسم علی محمد (چودہ ڈراموں کا مجموعہ: 'گنے کے کھیت'۔2016ئ)۔

ڈراما نگارفاروق رجل طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے بھی معروف ہیں۔ ان کے انیس مزاحیہ انشائیوں کا مجموعہ 'آئینہ' 2004ء میں منصۂ شہود پر آیا، جب کہ دوسرا مجموعہ 'حقیقیتں' 2017ء میں شائع ہوا۔ ان کے بعض اہم انشائیوں میں 'نام میں کیا رکھا ہے'، 'استادوں کی استادی'،'میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں'،'ہم بھی اگر بچے ہوتے'،'اف! یہ بیویاں' شامل ہیں۔

2005ء میں فاروق رجل کو موریشس کی اردو افسانہ نگاری میں بھی اولیت کا شرف حاصل ہوا جب ان کا افسانوی مجموعہ 'کشمکش' شائع ہوا۔ اُن کے ناقدین نے لکھا کہ ''کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ اتنی سیدھی سادی زبان میں افسانے لکھے جاسکتے ہیں''۔ ان کے اہم افسانوں میں 'واپس'، 'نیا کمبل '، 'قسمت' اور 'موت کا جشن' شامل ہیں۔

دیگر اہم افسانہ نگاروں میں محمد حنیف کنہائی (افسانوی مجموعہ: 'اعتماد')، عنایت حسین عیدن (مجموعہ: 'چھوٹا بنگلہ نہیں بلکہ ایک ..... ' 2014:ئ۔ اہم افسانے: 'لاوراث قبر'،'مدرسہ' اور 'نایاب تحفہ')۔ عیدن کے افسانوں کا خاص موضوع 'وقت ' ہے۔ انہوں نے حال کو ماضی اور مستقبل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

ان کے متعلق ڈاکٹر نازیہ جافوخان صاحبہ کے ایک مقالے سے اقتباس پیش خدمت ہے:

''یہ سارے افسانے 1970ء سے 2013 ء کے درمیان تحریر کئے گئے ہیں اور ہر افسانے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس زمانے کا ذکر ہورہا ہے۔ مصنف نے تقریباً ہر افسانے میں ماضی اور حال کی صورتِ حال کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ اس طرح سے موریشس کی تاریخ قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح زمانہ بدلتا ہے اور موریشس جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ افسانہ 'چھوٹا بنگلہ نہیں بلکہ ایک .....' کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے:

مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ ہمارے ملک نے اتنے کم عرصے میں اتنی ترقی کرلی ہے۔ میں پچیس سال بعد آیا ہوں۔ ہمارے گاؤں کی پکی سڑک کے کنارے کتنے سایہ دار پیڑ تھے جن کے نیچے میرے دادا اور تمہارے دادا بیٹھے بات چیت کرتے تھے۔

کبھی تو ان دونوں کے چار پانچ دوست بھی آجاتے اور وہ سب اس وقت وہاں سے نہ اٹھتے جب تک کہ اندھیرا نہ ہوجاتا۔ اب دیکھو کوئی درخت نہیں۔ ان کی جگہ نئی دکانیں ہیں اور .....(چھوٹا بنگلہ نہیں بلکہ ایک ....)''

آبیناز جان علی وہ واحد خاتون افسانہ نگار ہیں جن کے افسانے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ 2019ء میں ان کا افسانوی مجموعہ 'پیچ و خم ' شائع ہوا۔ ان کے مقبول افسانوں میں 'برجیس چچا'، 'آب حیات' اور 'بے وفائی ' شامل ہیں۔

دیگر کاوشوں کے علاوہ ایک قابل ذکر کارنامہ ڈاکٹر اعجازالدین احمد رحمت علی کا چند ہندی افسانوں کا اردو میں ترجمہ ہے جو 'ماریشس کے افسانے' کے عنوان سے کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔

ناول نگاری کے باب میں بھی عنایت حسین عیدن سرخیل ثابت ہوئے۔ ان کا ناول 'اپنی زمین' 2011ء میں شائع ہوا اور اس کے بعد 'یہ میرا چمن ہے، میرا چمن '۔ وہ خاکہ نگار بھی ہیں۔ شخصی خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ہے ' رہبراں ' 2006ء میں منصہ شہود پر آئی۔

شاعری کی بات کی جائے تو موریشس کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ یہاں کے نمایاں اردوشاعروں میں ' لب ساحل' (1995ئ) اور' درد کا سفر (دسمبر2020ئ) کے خالق ڈاکٹر صابرگودڑ، 'نارسائی' کے شاعراحمد قاسم ہیراؔ، 'سعیٔ لاحاصل' کے غزل گو سعیدمیاں جان،'تلاش پیہم' کے ہمہ اصناف سخن میں طبع آزما، حُبِ وطن کے پرچارِک شاعر، محمد طاہردومن،'غمگینیاں' کے شاعر عبدالسلام احمدی (مجموعہ کلام کی اشاعت: 2008ئ۔ ناشر: انجمن فروغ اردو) 'امتحان محبت' کے شاعر ایوب پیر علی (مجموعہ کلام کی اشاعت: 2008ئ۔ ناشر: انجمن فروغ اردو) اور 'غزلیات ناداں' کے خالق عبدالقاسم علی محمدناداںؔ (اشاعت:2008ئ۔ناشر: کتابی دنیا، نئی دہلی)۔ یہاں ایک شاعر محمد طاہر دومن کے متعلق ایک مضمون سے اقتباس برائے تعارف پیش کرتا ہوں:

''محمد طاہر دومن کا شعری مجموعہ 'تلاش پیہم' اپنے حسنِ طباعت کے ساتھ ساتھ فن پارہ، موضوع اور پیشکش کے اعتبار سے منفرد ہے۔ یہ حمدومناجات، نعت، نظم اور غزل پر محیط ہے۔ طاہر دومن کی متعدد نظموں میں مقامی رنگ جھلکتا ہے مثلاً 'ماریشس کے مناظر' اور 'میرا گاؤں'۔ نیز یہ کہ بعض نظموں میں حب الوطنی کا رنگ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جیسے کہ 'آزاد ماریشس'،'مادروطن'،'ماریشس ہے وطن ہمارا' وغیرہ''۔

موریشس کے شعراء کا نمونہ ہائے کلام آپ کی نذر ہے:

؎آج سناٹوں کے صحرا میں یہ آہٹ کیسی؟

آج اس وقت درِدل پہ یہ دستک کس کی؟

(احمد قاسم ہیراؔ)

؎سعیدؔ غور سے دیکھو جو روز دیکھتے ہو

کہ اس نے پھول کی رنگت ابھی ابھی لی ہے

(سعید میاں جان)

؎دل کی زمیں کیوں بنجر ہوئی تھی

عشق کا بادل برسا نہیں تھا

(عبدالقاسم علی محمدناداںؔ)

ڈاکٹراعجازالدین رحمت علی، ڈاکٹر ریاض گوکھل، ڈاکٹر آصف علی محمد، ڈاکٹر نازیہ بیگم جافوخان، ڈاکٹر سکینہ رسم علی، ڈاکٹر زینب جومن، فاضل منگلو، فیاض محمد علی، شاہین عیدو، ڈاکٹر رحمت علی، سعید میِجان اور خالق باؤچہ [Khaleck Bauccha] وغیرہ کے نام ایسے اہل قلم میں نمایاں ہیں جن کی کوئی کتاب تو شایع نہیں ہوئی، مگر مختلف جرائد واخبارات میں کچھ نہ کچھ شایع ہوتا رہا ہے۔ مؤخرالذکر اور آبینازجان علی نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھی ہیں۔

موریشس کے شعراء واُدباء کے یہاں اپنی مادری زبان، فرینچ اور انگلش کی حسب ِ منشاء اردو میں آمیزش عام ہے اور اس بناء پر انھیں دیگر معاصرین سے جدا سمجھا جاسکتا ہے۔ مقامی تہذیب وثقافت کا واضح عکس بھی جابجا ملتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ موریشن مستقبل میں دیگر اردو اہل قلم کے مقابل کھڑے ہوں گے۔

میرے فیس بک اور واٹس ایپ دوستوں میں موریشس سے تعلق رکھنے والے کئی اہل قلم شامل ہیں جن میں ڈاکٹر نازیہ بیگم جافو صاحبہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو مہاتما گاندھی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے شعبۂ اردو سے منسلک ہیں، ریڈیو پر وگراموں کی میزبان ہیں، ایک ادارہ 'ناہید انٹرنیشنل' چلارہی ہیں اور اسی نام سے آن لائن ادبی جریدہ بھی ترتیب دے کر شایع کرتی ہیں۔

بہت پہلے انھوں نے خاکسار کی ایک تحریر اپنے رسالے میں شامل کی تھی اور اب اس مضمون کے لیے بہت قیمتی مواد بھی فراہم کیا، جبکہ محترمہ ابیناز جان علی نے اپنے متعلق ایک اہم تحریر مجھے عنایت کی۔ ماضی میں موریشس کے ایک ادیب جناب فاروق باؤچہ سے بھی رابطہ رہا جنھوں نے اپنے ملک میں عالمی ادبی تقاریب منعقد کروانے میں اہم کردار ادا کیا، وہ بھی عنایت حسین عیدن صاحب کی طرح دی انٹرنیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ سے منسلک رہے۔

موریشس کی حکومت کی طرف سے 'اردو اسپیکنگ یونین' بھی 2002ء میں قائم کی جاچکی ہے۔ یہاں میں ایک بات برملا کہنا چاہتا ہوں کہ موریشس میں تبلیغ کے لیے تشریف لے جانے والے بعض علماء بشمول مولانا ابراہیم خوشترصدیقی (8مارچ 1930ء تا 15اگست 2002ئ) اور (میرے محترم عالم دوست ) مولانا عبدالوحید نعیمی نورانی کی مساعی بھی فروغ اردو میں معاون ثابت ہوئیں۔

اول الذکر، سنی رَضوی سوسائٹی انٹرنیشنل کے بانی اور موریشس کے شہر پورٹ لوئیس (Port Louis:اصل تلفظ پوخ لوئی) کی جامع مسجد کے خطیب وپیش امام تھے اور اُن کا مرقد بھی وہیں ہے، انھیں بطور شاعر، مصنف، مقرر ومعلم شہرت ملی۔

وہ ''قطب ِمدینہ'' شیخ ضیاء الدین احمد صدیقی قادری، (خلیفہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی) کے خلیفہ اور محدث اعظم علامہ سرداراحمد قادری کے شاگرد تھے (رحمہم اللہ علیہم اجمعین)۔ حضرت وحید نعیمی صاحب کراچی میں ایک مسجد میں خطیب وپیش امام ہیں اور ماضی میں موریشس ریڈیو اور ٹیلیوژن پر تقاریر بھی کرتے رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں