کم عمری کی شادی ۔۔۔ روک تھام کیلئے سماجی رویے بدلنا ہوں گے

مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارخیال


مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارخیال۔ فوٹو : محمود قریشی

کم عمری کی شادی ایک سماجی مسئلہ ہے جس سے بچوں کی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں خصوصاََ بچیوں کو صحت اور نفساتی مسائل کا سامنا ہے۔

ملک میں آج بھی 1929ء کا چائلڈ میرج کی روک تھام کا ایکٹ رائج ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قانون میں سقم ہے اور بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔

صوبہ سندھ میں چائلڈ میرج کی روک تھام کے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے، وہاں لڑکی کی شادی کی کم ازکم عمر 18 برس مقرر کی گئی ہے۔ خلاف وزری پر سزا ور جرمانے میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں اس حوالے سے ابھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

کم عمری کی شادی کے معاشرے پر اثرات کو مدنظر ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر عائشہ اشفاق

چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن جامعہ پنجاب

مڈل کلاس فیملی میں لڑکی کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ والدین اور بچیوںپر سماجی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں لڑکی کے کیرئیر سے زیادہ اس کی شادی اہم سمجھی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں 15، 16 برس کی لڑکی کا کوئی گول نہیں ہوتا، والدین یہی ذہن میں ڈالتے ہیں کہ بس شادی کرنی ہے۔ ایسے میں دوران تعلیم ہی لڑکی کی شادی کرکے تعلیم رکوا دی جاتی ہے۔ ہمیں کم عمری کی شادی پر بات کرتے ہوئے بچوں کے والدین کے مسائل اور مجبوریوں کو بھی مد نظر رکھنا ہے اور اسی لحاظ سے لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔

ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کو اپنی اصل عمر کا علم نہیں ہوتا۔ ایسا دیہاتوں میں زیادہ ہے۔ جو لڑکیاں گھروں میں کام کر رہی ہیں، ان کی عمر زیادہ بتا کر ملازمت پر رکھوا دیا جاتا ہے۔ میرے گھر میں کام کرنے والی لڑکی ، چار بہنیں ہیں۔ وہ بتا رہی تھی کہ ہمیں اصل عمر کا معلوم نہیں لیکن 16برس بتایا گیا ہے، والدین صرف اس لیے اچھے گھروں میں ملازم رکھوا دیتے ہیں کہ جہیز اکٹھا کر لیا جائے۔ یہ ایک اور افسوسناک پہلو ہے جو غلط معاشرتی روایات کی وجہ سے ہے۔ جہیز والدین کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

کم عمری کی شادی سے لڑکی کی تعلیم، صحت و دیگر بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں، اسے نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو افسوسناک ہے۔ اس سے نہ صرف بچی کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ آنے والی نسل پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سماجی اور معاشرتی رویوں کی درستگی میں اکیڈیما اپنا درست کردار ادا نہیں کر رہا۔ بدقسمتی سے ہمارے سماجی رویے ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں، لہٰذا ہمیں لوگوں کی ذہن سازی اور تربیت پر توجہ دینا ہوگی، ان کے سماجی رویے بدلنا ہونگے، اس حوالے سے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ کم عمری کی شادی معاشرے میں نیا فیشن بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات اب دیہاتوں سے نکل کر شہروں اور اچھے گھرانوں تک آگئی ہے۔

سوشل میڈیا پر بچوں کو گمراہ کرنے کیلئے بہت مواد موجود ہے۔ اس کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے کیلئے والدین نے جلد شادی میں ہی خود کی عافیت سمجھی ہے۔ او، اے لیولز کے بچوں کی منگنی اور نکاح ہو رہے ہیں۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر ایسی شادیوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، یوٹیوبرز کی شادیاں بھی کافی وائرل ہو رہی ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ جلد شادی سے بچوں کی اصلاح ممکن ہے،انہیں بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ کم عمری کی شادی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔

اس کے اثرات ہمارے مستقبل پر بھی ہونگے۔ بچیوں کی صحت متاثر ہونے سے شعبہ صحت پر بوجھ بڑھتا ہے۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے بچیاں خاندان کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی جس کی وجہ سے ان کی خاندانی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہمیں گراس روٹ لیول سے مسائل کو دیکھنا، سمجھنا اور حل کرنا ہوگا۔ہمارے ہاں غربت اور شرح خواندگی میں کوئی بہتری نہیں آرہی جبکہ آبادی میں اضافہ ہورہا ہے جس سے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ والدین اور بچوں کیلئے تربیتی ورکشاپس اور کونسلنگ کا اہتمام کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں کی تبدیلی کیلئے لوگوں کو ذمہ دار شہری بنانے کی کوشش کی جائے، سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے۔ قوانین میں جہاں بھی سقم ہے یا جہاں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے فوری کی جائے، تاخیری حربے استعمال نہ کیے جائیں۔ ہمارے ہاں جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ لوگوں کو سزا اور جزا کا تاثر ملے، اس سے قانون توڑنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ہمارے ہاں نظام میں یکسانیت اور روابط کا فقدان ہے۔

صوبوں میں قوانین مختلف ہیں۔ لوگوں کے بنیادی حقوق سے منسلک قوانین یکساں ہونے چاہئیں۔ کم عمر ی کی شادی سمیت دیگر مسائل کی روک تھام کیلئے آگاہی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے روایتی میڈیا اہم ہے۔ میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا ہوگا، صحافیوں کی تربیتی ورکشاپس کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو بھی استعمال کرنا ہوگا، اس کے ذریعے آگاہی پیغامات عام آدمی تک پہنچائے جائیں۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ہمیشہ بہت اچھا کام کیا ہے، کم عمری کی شادی کی روک تھام اور آگاہی کیلئے ان کی خدمات لینے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ میرے نزدیک اگرمسائل کو بروقت حل نہ کیا گیا تو مستقبل میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا حکومت، انتظامیہ، متعلقہ اداروں اور اکیڈیمیا کو مل کر مسائل سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

انعم چودھری

اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیپارٹمنٹ لاہور

کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے پنجاب بھر میں نکاح رجسٹرار وں کی ٹریننگ کروائی جارہی ہے۔ انہیں یہ پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ نکاح کے وقت دولہا، دلہن کے شناختی کارڈ یا 'ب' فارم کی چیکنگ اور اندراج یقینی بنائیں۔

نکاح رجسٹرار پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ نکاح نامہ کا کوئی بھی خانہ خالی نہ چھوڑے، اس سے قدرے بہتری آئی ہے۔ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کیلئے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہم گاہے بگاہے انسپکشن بھی کرتے ہیں اور قانون شکنی کرنے والے نکاح رجسٹرارز کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ میری تحصیل میں 700 نکاح رجسٹرار ہیں۔میں نے اب تک 7 کے قریب نکاح رجسٹرارز کے لائسنس منسوخ کیے ہیں، اس میں بعض کا حکم عدالت نے دیا تھا۔

تحصیل کی سطح پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں جبکہ یونین کونسل میں سیکرٹری ہیں جو نکاح سے متعلق معاملات دیکھتے ہیں۔ سیکرٹری یونین کونسل اور نکاح رجسٹرار کا آپس میں رابطہ ہوتا ہے۔ نکاح کے حوالے سے شکایات یونین کونسل میں کی جاتی ہیں۔ ہمارے پاس بھی براہ راست متاثرین آتے ہیں، ان کی داد رسی کیلئے جو کچھ ہمارے دائرہ کار میں ہوتا ہے کیا جاتا ہے۔ ہم قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتتے۔ کم عمری کی شادی کے حوالے سے باقاعدہ رپورٹ مرتب کی جا تی ہے ۔

گزشتہ ڈیڑھ برس میں میرے پاس دو کیس آئے جن میں سے ایک براہ راست اور ایک عدالت کی طرف سے آیا۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں کم عمری کی شادی کا واقعہ پیش آیا۔ میرے نزدیک کیس کی رپورٹنگ میں مسائل ہیں، نکاح کے وقت چونکہ شناختی کارڈ لازمی نہیں ہے، اس لیے نکاح رجسٹرار خود ہی عمر زیادہ لکھ دیتے ہیں۔

والدین خود اپنے بچوں کی شادی کرواتے ہیں۔ میرے نزدیک لازمی والدین کی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ کم عمری کی شادی کی روک تھام کیلئے بڑے پیمانے پر آگاہی دینا ہوگی۔

احمر مجید ایڈووکیٹ

ماہر قانون

قائد اعظمؒ نے 1929ء میں چائلڈ میرج کی روک تھام کا ایکٹ منظور کروایا۔ آزادی کے بعد وہی قانون ہم نے اپنا لیا۔ بھارت نے بھی پرانے قوانین اپنائے مگر وقت اور ضرورت کے لحاظ سے قوانین میں بہتری کی اور جہاں ضرورت ہوئی وہاں نئی قانون سازی بھی کی گئی۔

بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے مگر ہم اس حوالے سے کافی سست روی کا شکار ہیں۔ آج بھی برطانیہ دور کے قوانین یہاں رائج ہیں۔ تعزیرات پاکستان 1860کا ہے۔1929ء کے چائلڈ میرج کی روک تھام کے قانون کو 94 برس ہوگئے ہیں، ہم آج تک اپنا قانون نہیں بنا سکے۔

اس قانون کے تحت 16برس سے کم عمر لڑکی اور 18 برس سے کم لڑکا، چائلڈ تصور کیا جائے گا لہٰذا کم عمر بچوں کی شادی چائلڈ میرج ہوگی، ا س میں ضروری نہیں کہ دونوں فریقین کی عمر کم ہو، اگر کسی ایک فریق کی عمر بھی کم ہوگی تو یہ کم عمری کی شادی تصور ہوگی۔

شادی کے وقت عمر کا تعین لازمی ہے، اگر کوئی بالغ کسی چائلڈ سے شادی کرتا ہے تو اسے 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادی کرنے والے کے والدین، گواہان اور یہ شادی کروانے والے سب کو ہی سزا اور جرمانہ ہوگا، اس قانون میں کسی بھی مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔

یہ قانون مسلم، مسیحی، سکھ سمیت سب پر لاگو ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ ناقابل دست اندازی جرم ہے۔ پولیس اس میں براہ راست کچھ نہیں کر سکتی تاوقت یہ کہ عدالتی حکم نہ ہو۔ اس میں یونین کونسل فیملی کورٹس میں شکایت کر سکتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ 1929ء سے آج تک یونین کونسل کی طرف سے کم عمری کی شادی کے بارے میں ایک بھی شکایت نہیں کی گئی۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کم عمری کی شادیوں کی روک تھام میں کتنے سنجیدہ اور ذمہ دار ہیں۔ 1929ء کے چائلڈ میرج ایکٹ میں لڑکے اور لڑکی کی عمر مختلف ہے جو آئین کے آرٹیکل 25 سے متصادم ہے۔ آئین پاکستان تو کسی بھی قسم کی تفریق کی نفی کرتا ہے اور سب کو برابر شہری ہونے کے ناطے مساوی حقوق کی یقین دہانی کراتا ہے، ہمیں اسے دیکھنا ہوگا۔ صوبہ سندھ میں 2013ء میں چائلڈ میرج کی روک تھام کا ایکٹ منظور ہوا جس میں شادی کیلئے لڑکے اور لڑکی کی کم از کم عمر کو یکساں کر دیا گیا ہے۔

شادی کی کیلئے عمر کی کم از کم حد 18برس کر دی گئی اور اسے قابل دست اندازی جرم بھی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچ کر دولہا کو گرفتار کر سکتی ہے۔ سندھ نے اس ایکٹ میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا اور جرمانے میں اضافہ بھی کیا۔

پنجاب میں فی الحال کم عمری کی شادی روکنے کیلئے نہ تو قانون ہے اور نہ ہی میکنزم ۔ اس پر میکنزم بنایا جا رہا ہے مگروسائل اور کمٹمنٹ کی کمی ہے۔ 1929ء کے قانون کے مطابق یونین کونسل کم عمری کی شادی کے حوالے سے مسائل کی شکایت عدالت میں کر سکتی ہے مگر یہاں تو لوکل گورنمنٹ کے پاس نہ وسائل ہیں نہ ہی تربیت لہٰذا کیس کی پیروی کون کرے گا؟ فیملی کورٹس میں پراسیکیوٹر نہیں ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ شادی کیلئے شناختی کارڈ لازمی نہیں ہے۔ شناختی کارڈ لازمی نہ ہونے کی وجہ سے عمر کی تصدیق نہیں ہوتی، والدین اندازے سے ہی عمر لکھوا دیتے ہیں، اس کا سدباب کرنا ہوگا۔ شناختی کارڈ لازمی قرار دیا جائے اور خلاف ورزی پر سزا اور جرمانہ بھی کیا جائے۔ ہم کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے قانون سازی پر 2011ء سے کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے تمام سٹیک ہولڈر زکی مشاورت سے بل ڈرافٹ کیا۔

اس بل میں کوشش کی کہ تمام ممکنہ مسائل کا احاطہ کیا جائے۔ اس قانون میں سب سے اہم لڑکے اور لڑکی کی شادی کیلئے کم از کم عمر کے امتیاز کا خاتمہ ہے۔ اس بل میں شادی کیلئے کم از کم عمر 18 برس قرار دی گئی ہے۔ یہ بل تاحال التوا کا شکار ہے، اس کی منظوری نہیں ہوسکی۔ میرا مطالبہ ہے کہ اس میں درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اسے فوری منظور کروا کر نافذ کیا جائے، اس سے کم عمر ی کی شادی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

18ویں ترمیم کے بعد کم عمری کی شادی کے حوالے سے معاملات کا اختیار بھی صوبوں کو منتقل ہوگیا۔ سندھ نے اس پر قانون سازی کی جس کا ذکر پہلے کر چکا ہو۔ اب اگر سزا کا موازنہ کیا جائے تو کم عمری کی شادی کی سزا سندھ میں 3 سال، پنجاب میں 6 ماہ سے 1 سال جبکہ باقی صوبوں میں صرف 1 ماہ ہے، ایسے میں اگر کوئی کم عمری کی شادی کر بھی لے تو کم سزا والے صوبوں میں با آسانی سزا کاٹ لے گا۔

تمام صوبوں میں اس حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں بھی کم عمری کی شادی ہو، عدالت اسے فوری طور پر ختم کرے، لڑکی کی زندگی کو مزید خراب نہ ہونے دیا جائے۔ بچیوں کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے دائرہ کار میں چائلڈ میرج نہیں ہے۔ دارالامان خواتین کیلئے ہیں، اگر بچیوں کو وہاں بھیج بھی دیا جائے تو انہیں لانگ ٹرم رکھنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کم عمری کی شادی سے متاثرہ بچیوں کی ری ہیبلی ٹیشن کیسے کرنی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی رویے، سماجی بوجھ، وڈیرہ سسٹم اور ہمارا سارا نظام استحصالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جو بھی کم طاقت رکھتا ہے، اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ ہم خواتین اور بچوں کے تحفظ، صحت اور خوشحالی میں آخری نمبروں پر ہیں۔ ہمارے نظام انصاف اور گورننس کا حال بھی برا ہے۔

ہم نے خواتین اراکین اسمبلی کے ذریعے بھی چائلڈ میرج کی روک تھام کا بل منظور کروانے کی کوشش کی مگر اسے رد کر دیا گیا۔ خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں آ تو جاتی ہیں مگر وہاں بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ ہمیں من حیث لقوم اپنے رویے بدلنا ہونگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں