چوروں کی خاطر آپس میں لڑنے والے

تہذیب، اخلاق و آداب سے نابلد سیاسی جماعتوں کے کارکن دوسروں پر طعنہ زنی کرنے میں مشغول ہیں


ضیا الرحمٰن ضیا September 08, 2023
تقریباً تمام ہی سیاستدان ملک و قوم کو تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کہیں چوروں نے ایک قافلہ لوٹ لیا۔ قافلے والے بجائے چوروں سے مال مسروقہ واپس لینے یا آئندہ چوروں سے بچنے کےلیے کوئی لائحہ عمل طے کرنے کے آپس میں ہی اس بات پر الجھ پڑے کہ کون سا چور حق پر ہے اور کون حقیقی چور ہے۔


چور ان کی اس عادت کی وجہ سے انہیں بار بار لوٹتے رہے اور قافلے والے ہر بار ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنے کے بجائے بار بار دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتے اور اپنے پسند کے چوروں کےلیے آپس میں الجھتے۔ یوں چوروں نے ان کی ناسمجھی سے فائدہ اٹھایا اور انہیں خوب لوٹا۔ قافلے والے کچھ چوروں کی میٹھی میٹھی باتوں سے بہل جاتے جبکہ کچھ چور انہی کے لوٹے ہوئے مال سے انہیں تھوڑا سا واپس کرکے ان کے مسیحا بن جاتے۔


یہی حال ہماری قوم کا بھی ہے کہ سیاست دانوں کے روپ میں آنے والے چوروں سے لٹنے کے بعد گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ کوئی بھی رہنما ملک و قوم کےلیے مخلص ثابت نہیں ہوا۔ سب نے قوم کو لوٹنے کا الگ الگ طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔ کچھ اپنی میٹھی میٹھی باتوں اور دلکش نعروں سے عوام کو بہلا لیتے ہیں جبکہ کچھ عوام کو دو عارضی پروجیکٹس دے کر ان کے مسیحا بن جاتے ہیں۔ عوام اپنی بے وقوفی کی وجہ سے ہمیشہ ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور کچھ نعروں پر بہل کر اور کچھ دو پلوں پر بہل کر ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں اور آپس میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ لیتے ہیں۔ پھر ہر وقت ہر جگہ اپنے پسندیدہ چور کےلیے الجھتے رہتے ہیں۔


ہر وقت سوشل میڈیا پر جنگ کا سماں رہتا ہے۔ تہذیب، اخلاق و آداب سے نابلد سیاسی جماعتوں کے کارکن دوسروں پر طعنہ زنی کرنے میں ہمہ وقت مشغول ہیں اور اپنے رہنماؤں کی تعریفوں میں بلاوجہ رطب اللسان رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیجیے، ان جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہاں دوسروں کو گالیاں دی جارہی ہیں، ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال ہورہی ہے، بغیر علم کے دوسروں پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔ پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس پلیٹ فارم پر ہم یہ گفتگو کر رہے ہیں کیا یہ اسی مقصد کےلیے بنا ہے؟ ہر پیج، ہر گروپ میں انہوں نے یہی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ وہ گروپ بزنس کے ہوں یا انٹرٹینمنٹ کے، حتیٰ کہ فیملی اور دوستوں کے گروپوں میں بھی اس قسم کے جنونی سیاسی کارکن اس جھگڑے کو لے کر پہنچے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ہر طرف نفرت کی فضا قائم ہے۔


دوست دوستوں سے اور بھائی بھائیوں سے الجھ رہے ہیں۔ جس سے دلوں میں کدورتیں پیدا ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے جب ایک شخص شرارت کرکے کسی سیاسی رہنما کے خلاف کوئی بات کرے گا یا کوئی پوسٹ شیئر کرے گا تو دوسرے رہنما کے چاہنے والے اس کا جواب تو دیں گے اور پھر ہمارے ہاں برداشت کا مادہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے پہلے والا دوبارہ اس کا جواب دے گا۔ اس طرح یہ بحث طویل سے طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے نوجوان کتنے نکمے ہیں کہ وہ ایسی فضول گفتگو جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا اور نہ ہی ان کے بس میں کچھ ہے، اس کےلیے کتنا وقت برباد کرتے ہیں۔


نہ جانے ہمارے نوجوان کس طرف جارہے ہیں؟ پھر یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی صلاحیتیں کہاں صرف ہورہی ہیں۔ یہ سارا دن بلکہ ساری رات بھی بیٹھ کر سیاسی رہنماؤں پر تحقیق کرتے ہیں اور پھر پوسٹیں بنا بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ یہ دوسروں پر جھوٹے الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حقائق کے برخلاف تصاویر کو ایڈٹ کرکے اسے کچھ کا کچھ رنگ دے دیتے ہیں، جو نہایت قبیح عمل اور باعث گناہ ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان پوسٹوں سے انہیں یا ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ ہونا وہی ہے جو اوپر والے چاہیں گے یا ہماری شامت اعمال کی وجہ سے اللہ رب العزت چاہیں گے۔ ہماری ان پوسٹوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اس کے باوجود اپنا قیمتی وقت ان فضول کاموں میں ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے بجائے کسی اور کام میں یہ وقت لگا لیں، سیاستدانوں کے بجائے کسی اور اچھے موضوع پر تحقیق کرکے ایک دوسرے کے ساتھ اس کے متعلق معلومات شیئر کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو۔ ایک دوسرے کو آگاہی فراہم کریں۔ نکمے بیٹھ کر زہر گھولنے سے بہتر ہے کہ کوئی اور ڈھنگ کا کام کرلیں، کم از کم کوئی کتاب ہی پڑھ لیں۔ مگر یہاں تو کچھ اور ہی چل رہا ہے۔


اس زہر گھولنے میں ہمارے میڈیا اور بڑے بڑے نامور اینکرز اور صحافیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو کسی ایک سیاسی جماعت کو پسند کرنے لگتے ہیں تو اس کی تعریف میں تمام حقائق کو مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں جس سے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اگر یہ سیاسی کارکنان تعصب کو پس پشت ڈال کر ایک بار تمام سیاستدانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو انہیں سب ایک جیسے نظر آئیں گے۔ کوئی دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ تمام کے تمام ملک و قوم کو تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ ملک کو مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور قرضوں جیسی لعنت میں سب نے مل جل کر جکڑا ہے بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔ ہر آنے والا پہلے والے سے دو ہاتھ ٓآگے ہے اور عوام کی سوچ اگر یونہی رہی تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ لہٰذا عوام کو اپنے اندر شعور پیدا کرنا چاہیے اور سیاستدانوں پر تحقیق کرنے کے بجائے کسی کارآمد موضوع پر تحقیق کریں جس سے ملک و قوم کو بھی فائدہ ہو۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں