ہم بھول گئے ہر بات
اکثر بڑے بڑے حکمران، اداکار، فنکار، صحافی، کھلاڑی اور قانون دان وقت کی گرد میں دب جاتے ہیں ...
بیگم نسیم کا نام پاکستانی سیاست میں خواتین کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے۔ 77 کی احتجاجی تحریک میں ان کا کردار بڑا اہم تھا۔ وہ پاکستان قومی اتحاد کے درجن بھر بڑے رہنمائوں میں شامل تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب ان کے شوہر خان عبدالولی خان قید تھے۔ اس دور کی نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی پر ذوالفقار علی بھٹو نے پابندی لگاکر مقدمہ دائر کیا تھا۔ جب بڑا سیاست دان قید ہو اور اس کی بیوی میدان عمل میں ہو تو کیا ہوتا ہے؟ یقیناً اس وقت آپ کو نصرت بھٹو اور کلثوم نواز کی جدوجہد یاد آرہی ہوگی، عوام سیاستدان کو بھلاکر اس کی اہلیہ کی جدوجہد کو یاد رکھتے ہیں۔
چلیں وقتی طور پر ہی سہی جب ضیا الحق برسر اقتدار آئے تو ''حیدرآباد ٹریبونل'' ختم کردیا گیا اور تمام اسیر رہنما چھوڑ دیے گئے، ولی خان جب رہا ہوکر آئے تو انھوں نے اخباری نمایندوں سے دلچسپ گفتگو کی۔ خان صاحب نے کہاکہ پہلے لوگ کہتے تھے ''یہ ولی خان ہیں اور یہ ان کی بیگم ہیں جن کا نام نسیم ہے، اب لوگ کہتے ہیں کہ یہ بیگم نسیم ہیں اور یہ ان کے شوہر ہیں ولی خان'' پہلے بیگم شوہر کے نام سے یاد رکھی جاتی تھیں اور بعد میں میاں کا تعارف بیوی کے حوالے سے ہونے لگا کہ خاوند کی قید نے انھیں لوگوں کی نگاہوں سے بھلادیا۔''آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل'' جب کوئی شخصیت منظر سے ہٹ جاتی ہے تو بھلادی جاتی ہے، اکا دکا شخصیات اور واقعات ہوتے ہیں جو بڑی مدت تک حافظے میں قائم رہتے ہیں۔
اکثر بڑے بڑے حکمران، اداکار، فنکار، صحافی، کھلاڑی اور قانون دان وقت کی گرد میں دب جاتے ہیں۔ آج کے مشہور ترین لوگوں کو آج کے دن پیدا ہونے والے بچے اپنے لڑکپن اور جوانی میں نہ جانتے ہوںگے اور نہ پہچانتے ہوںگے۔ نئے انداز ہوںگے اور نیا زمانہ ہوگا۔ پھر ہم اکڑتے کیوں ہیں؟ غرور کس بات کا؟ آج کے کالم میں ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیںگے، ہم دیکھیںگے کہ انتہائی طاقت ور اور شہرت یافتہ لوگوں کی قبروں کے نشان بھی آج مٹ چکے ہیں۔نورجہاں نے ہزاروں نغمے گائے جن میں ایک گانا تھا کہ ''ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے'' ملکہ ترنم کو ہم آج یاد رکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح مہدی حسن، وحید مراد اور محمد علی کی برسیوں پر ٹی وی پر انھیں یاد رکھا جاتا ہے۔ چینلز ان کی زندگی اور کارناموں کی مختصر تاریخ اور نغموں کو دکھاکر نئی نسل کو اپنے ہیروز کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔ دو اہم سوالات ہیں کہ کیوں اور کب تک؟ اس لیے کہ آج ان دو اداروں پر طاقت ور شخصیات وہ ہیں جنھوں نے لائنوں میں لگ کر ٹکٹ لیے اور سینمائوں میں ان اداکاروں کی فلمیں دیکھی ہیں، یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ جب تک وہ پروڈیوسر ریٹائرڈ نہیں ہوجاتے۔ آج وہ زندہ و متحرک ہیں جو حسرت سے اپنے ماضی کو اپنے ہیروز کی معرفت یاد رکھے ہوئے ہیں۔
انھیں یاد آتا ہے کہ ہم اپنی جوانی میں ان کے پرستار تھے جب ہمیں یہ دکھانے والے بستر اور وہیل چیئر پر ہوںگے تو ٹی وی اسکرین پر نہ کسی کو رنگیلا یاد آئینگے اور نہ لہری، نہ احمد رشدی اور نہ مسعود رانا، پھر آج کے نوجوان ایک دور کے ان ہیروز کو بھلادینگے جس طرح ہم نے سہگل اور طلعت کو بھلادیا تھا۔ نہ ہمیں ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کی سمجھ تھی اور نہ مائی بھاگی کی۔ آج والا کل کب تک ریشماں کو یاد رکھ سکے گا؟ اس لیے کہ آنیوالے کل کے نئے ہیروز ہونگے اور نئے انداز۔ پھر نئی نسل ہوگی اور اس کی نئی پسند۔
ایوب خان ظاہری شخصیت کے لحاظ سے پاکستان کے شاندار لیڈر تھے۔ سوا چھ فٹ کا قد اور سرخ و سفید رنگ، فوجی وردی اور دس سال تک پاکستان پر حکمرانی، بڑے بڑے طاقت ور ملکوں کے سربراہان کی شخصیت ان کے سامنے دب جاتی تھی۔ اچانک احتجاجی تحریک چلی اور چند ماہ میں سب کچھ بکھر کر رہ گیا۔ شاید آج کسی پاکستانی طالب علم کو ایوب خان کے نام کا بھی علم نہ ہو۔ اس زمانے میں مصر میں ناصر اور ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا عروج تھا۔ آج کے مصری و ایرانی بچے ان طاقت ور حکمرانوں کے ناموں سے نا واقف ہوںگے، یہ ہے زندگی اور ایسا ہے انسان۔ بے وفا زندگی اور بھلکڑ انسان۔ نسیان کا مارا اور بھول جانے والا۔ احسان فراموش اور قدر ناشناس حضرت انسان۔ کرکٹ کی دنیا میں فضل محمود کی بڑی شہرت تھی۔
درجنوں محمود نامی لوگوں نے اپنے بیٹوں کے نام فضل رکھ کر اس عظیم بالر کی یاد تازہ کی تھی ''اوول کے ہیرو'' کے نام سے مشہور کرکٹر سے نئی نسل ناواقف ہے کہ اس نے آج شاہد آفریدی کو یاد رکھا ہوا ہے۔ اگر کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سعید احمد کا نام لیا جائے تو گزرے کل کے نوجوان سعید انور اور آج کے نوجوان سعید اجمل سمجھیں گے۔ کپتان مشتاق محمد کا نام لیا جائے تو نوجوان کا خیال مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق کی جانب جاتا ہے۔ فلم کی دنیا میں سنتوش و صبیحہ کی جوڑی تھی۔ یہ پچاس اور ساٹھ کے عشروں کی بات ہے۔ ستر کی دہائی میں محمد علی اور زیبا کا عروج تھا۔ آج اگر ادھیڑ عمر کے لوگوں کے ذہنوں میں ماضی کی کچھ یادیں ہیں تو آج کے نوجوان انھیں بھول چکے ہیں۔ قانون کی دنیا میں اے کے بروہی اور منظور قادر کے ناموں کا بڑا چرچا تھا۔ خالد اسحاق کو کل اور خالد انور کو پرسوں بھلا دیا جائے گا۔
آج اگر اعتزاز احسن اور ایس ایم ظفر کو یاد رکھا جارہا ہے تو مستقبل قریب میں انھیں فراموش نہ کیے جانے کی گارنٹی کون دے سکتا ہے۔ کیا حالات اتنے ہی خراب ہیں؟ جی نہیں۔ یادداشت کا معاملہ اتنا برا بھی نہیں۔ آئیے وقت کے پیمانے سے حضرت انسان کی مجبوری کو سمجھتے ہیں۔ فیض اور فراز کو ہم یاد رکھے ہوئے ہیں۔ منٹو کا صد سالہ جشن مناکر ہم نے احسان فراموشی کی روایت کو توڑنے کا ثبوت دیا ہے۔ سوال ایک ہی ہے کہ یہ شخصیات کب تک یاد رکھی جائیں گی؟ عشروں تک یا غالب کی طرح صدیوں تک یا سقراط و ارسطو کی طرح ہزاروں برسوں تک۔ بغیر کسی الجھن کے ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ شخصیات ہوتی ہیں جنھیں طویل عرصے تک یاد رکھا جاتا ہے۔
سکندر اعظم و محمد بن قاسم کو ہم یاد رکھے ہوئے ہیں۔ ایڈیسن و مارکونی کو ہم نہیں بھلاسکے ہیں۔ اب سوال ہے کہ یاد رکھنے کا پیمانہ کیا ہے؟ سال، عشرہ، صدی یا ملینیم یعنی ہزاریا، ہماری یادداشت کسی شخصیت کے لیے وقت کے کتنے فاصلے تک جاتی ہے اور اس کا پیمانہ کیا ہے؟ ہم اسے کب بھلا دیتے ہیں؟ سیاست دانوں، فنکاروں و کھلاڑیوں کو ہم ان کے انتقال کے چند ایک سال تک یاد رکھتے ہیں۔ دسمبر کے آخری دنوں یا جنوری کی ابتدا میں ایک سال میں رخصت ہوجانے والی شخصیات کی تصاویر آتی ہیں۔ کچھ شخصیات عشروں تک یاد رکھی جاتی ہیں جیسے میانداد، اصلاح اور جہانگیر خان جیسے کھلاڑی، ندیم، عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی اور عامر خان جیسے فنکار کئی دہائیوں تک یاد رکھے جائیں گے۔
سیاست دانوں کی بات کریں تو تاریخ نواز شریف و بے نظیر کو عشروں تک یاد رکھے گی۔ صدیوں تک کون یاد رکھے جائیں گے؟ کھلاڑیوں میں باکسر محمد علی، ڈان بریڈ مین، پیلے، فنکاروں میں دلیپ و لتا جب کہ سیاست دانوں میں گاندھی و جناح جب ہم برصغیر کی بات کررہے ہیں تو شاعروں میں غالب، اقبال و ٹیگور جیسے لوگ آنے والی صدیوں تک یاد رکھے جائیںگے۔ ہزاروں برسوں تک کون یاد رکھا جائے گا؟ پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ ایجاد کروانے والوں اور نظریات دینے والوں کو زمانہ کئی ہزار سال بعد بھی بھلا نہ پائے گا۔
گراہم بیل، فرائیڈ، بوعلی سینا، مارکونی، گلیلو کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ نسیان کے مارے انسان کے ہاتھوں میں چھلنی ہے۔ وہ درجنوں، ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو چھانٹ کر انھیں زمانے میں تقسیم کردیتا ہے، اپنی پسند کے مطابق چند ایک کو یاد رکھتا ہے اور بے شمار لوگوں کو اپنے ذہن کی میموری سے ڈیلیٹ کردیتا ہے، کبھی عمدہ حافظے پر ناز کرتا ہے تو کبھی نسیان کو نعمت کہہ کر نعرہ لگاتا ہے کہ ''ہم بھول گئے ہر بات''۔