کوچۂ سخن

لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا<br /> یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا


Arif Aziz September 03, 2023
فوٹو: فائل

غزل
لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا
یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا
وہ زخم مجھے طوقِ گلو جیسا لگا ہے
جو زخم بھی پیوستِ رگِ جاں نہ ہوا تھا
اس بار ملا کیا کہ جدائی ہی جدائی
ہوتا تھا مگر یوں بھی گریزاں نہ ہوا تھا
قاتل کی جبیں پر بھی پسینے کی شکن ہے
ہیبت سے کبھی ایسی پریشاں نہ ہوا تھا
کچھ بات تو دامن کو لگی گل کی مہک میں
کانٹوں سے یونہی دست و گریباں نہ ہوا تھا
کیوں سیلِ بلا خیز بہا کر نہ گیا غم
کیوں شکوہ کم ظرفیِ طوفاں نہ ہوا تھا
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
خواہشِ وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے
خود کو اک شخص کے امکان میں رکھا ہوا ہے
حوصلہ پڑتا نہیں کیسے اٹھاؤں اس کو
ہجر کا دکھ بھی تو سامان میں رکھا ہوا ہے
دیکھنے والے بھی حیران ہوئے جاتے ہیں
دل نے ہر زخم نمک دان میں رکھا ہوا ہے
تتلیاں پھول سمجھتے ہوئے آ جاتی ہیں
اس کی تصویر کو گلدان میں رکھا ہوا ہے
اک پرستان میں ٹھہرایا ہے اس عشق نے اور
دوسرے شخص کو ملتان میں رکھا ہوا ہے
آتے جاتے ہوئے دل اسکے تصور میں رہے
ہجر اس واسطے دالان میں رکھا ہوا ہے
اور تو کچھ بھی نہیں اس میں فضیلت ایسی
اک تجسس ہے جو انسان میں رکھا ہوا ہے
(محمد علی ایاز۔ کبیر والا)


۔۔۔
غزل
دائرہ محبت کا جس کی یہ کہانی ہے
اِس طرف ہے اک مُفلس، دوجے سمت رانی ہے
ہائے دل یہ بیچارہ، خود کی بھی نہیں سنتا
دل کی دھڑکنوں پہ اب اُس کی حکمرانی ہے
دیکھ لیں اگر اُس کو، ہوش میں نہیں رہتے
حسن کی ہے دیوی یا حور آسمانی ہے؟
سوچتا ہوں جب اُس کو، خواب میں وہ آ جائے
ساتھ گر رہے اُس کا، کیا ہی شادمانی ہے
وائے مفلسی میری، میں نہیں تھا اِس قابل
آ گئی وہ پہلو میں، اُس کی مہربانی ہے
(شہزاد نیاز ایڈووکیٹ۔ کراچی)


۔۔۔
غزل
پیکرِ لفظ و معانی کو نگل جاتی ہے
بے دِلی ربطِ کہانی کو نگل جاتی ہے
پیٹ خالی ہو تو جذبات مچلتے ہی نہیں
مفلسی شعلہ جوانی کو نگل جاتی ہے
بعض اوقات کسی اور کے چہرے کی تھکن
اپنے اندر کی گرانی کو نگل جاتی ہے
ہجر آنکھوں کی سفیدی میں ڈھلا تو یہ کھلا
دھوپ کس طرح سے پانی کو نگل جاتی ہے
ہجر کی رات سیہ رات قیامت ہے عطاؔ
یہ وہ ڈائن کہ جوانی کو نگل جاتی ہے
(عطاشائق۔ بھکر)


۔۔۔
غزل
اگرچہ نغمہ سرائی کا وقت بھی نہیں ہے
زمانے دیکھ لڑائی کا وقت بھی نہیں ہے
تمہارے شہر نے پاگل بنا لیا لیکن
کسی کو راہ نمائی کا وقت بھی نہیں ہے
مرے خدا کوئی مجھ سے بچھڑ رہا ہے اور
تو جانتا ہے جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
مگر تمہاری طرف دیکھتے مسلسل ہیں
ہمارے دل کی بھلائی کا وقت بھی نہیں ہے
کسی نے ٹھیک سے اپنا کہا نہیں ہے مجھے
کسی کے پاس جدائی کا وقت بھی نہیں ہے
یہ فیصلہ مرے غم نے غلط کیا شاید
رِہا کیا ہے رِہائی کا وقت بھی نہیں ہے
بس ایک رات بچھڑنے کا دکھ کریں گے ہم
پھر اس کے بعد دُہائی کا وقت بھی نہیں ہے
ثواب ہم نظر انداز کر گئے عادسؔ
برا بنے ہیں برائی کا وقت بھی نہیں ہے
(امجد عادِس۔ آزاد کشمیر)


۔۔۔
غزل
کیسے لوگوں میں یہاں شعر سنا بیٹھے ہیں
ایسا لگتا ہے کہیں دشت میں جا بیٹھے ہیں
میں نے اک پیڑ لگانے کا ارادہ باندھا
کتنے پنچھی مری دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں
اچھے وقتوں میں چلے ساتھ ترے برسوں تک
گردشِ وقت میں اب یار بتا بیٹھے ہیں؟
ہم نے یک طرفہ محبت کو عبادت سمجھا
اور وہ اپنی طرف بن کے خدا بیٹھے ہیں
اپنا مسلک ہے محبت ہی محبت ناشر
سو اسی واسطے دنیا سے جدا بیٹھے ہیں
(ذیشان حیدر ناشر ۔ وہاڑی)


۔۔۔
غزل
مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی ترے بعد بھی
نمی آنکھ میں نہیں آ سکی ترے بعد بھی
تو ہوا نہیں تجھے مجھ سے دور کیا گیا
مرے ساتھ ہیں کئی سازشی ترے بعد بھی
مجھے روشنی کی طلب نہیں تھی اسی لیے
مرے پاس ہے وہی تیرگی ترے بعد بھی
یہ نصیب ہی تجھے مجھ سے چھین کے لے گیا
رہا زندگی کا ولن یہی ترے بعد بھی
ترے شہر کے کسی آدمی سے ملوں اگر
ترا پوچھتا ہوں کبھی کبھی ترے بعد بھی
(انس سلطان ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
نجانے کون سے دکھ میرے سر نکل آئے
ادھیڑ عمر میں بچپن کے ڈر نکل آئے
تمہارے بعد کسی سے نہیں بنی میری
تمہارے بعد اداسی کے پر نکل آئے
مدام ایک دریچے سے جھانکتی آنکھیں
کہ جیسے ابر سے عکسِ قمر نکل آئے
حضور آپ مری آستیں میں رہتے تھے؟
حضور آپ بڑے معتبر نکل آئے
میں پھر رہا ہوں اکیلا تلاشِ منزل میں
خدا کرے کہ کوئی ہمسفر نکل آئے
میں نور ہوں سو یہ خواہش مدام رہتی ہے
مرے وجود سے بھی اک قمر نکل آئے
(نور تنہا۔ کراچی)


۔۔۔
غزل
کس قدر ہے یہ زندگی کا دکھ
اپنی بستی میں بے گھری کا دکھ
رات جب گاؤں میں اُترتی ہے
پھیل جاتا ہے روشنی کا دکھ
مرنے والے نے یہ نہیں سوچا
ساتھ جائے گا خودکشی کا دکھ
جس طرح سے گزر رہی ہے مری
کون سمجھے گا زندگی کا دکھ
اونچے اونچے مکان والوں نے
کب بھلا جھیلا جھونپڑی کا دکھ
میرے ہاتھوں سے گر پڑا تھا چاند
جانتا ہوں میں چاندنی کا دکھ
جس گھڑی وہ جدا ہوا مجھ سے
روز ملتا ہے اس گھڑی کا دکھ
آسماں کو بھی یہ خبر ہوتی
قید میں کیا ہے بے بسی کا دُکھ
دور پیڑوں سے ہی اُبھرتا ہے
میرے ہاتھوں میں بانسری کا دکھ
میں ہوں شاعر، سو میں سمجھتا ہوں
جان لیوا ہے شاعری کا دکھ
(نذیر حجازی۔ نوشکی)


۔۔۔
غزل
وہ روبرو ہیں یا نہیں لیکن تصورات میں
قا ئم ہیں دل کے سلسلے جہان بے ثبات میں
وہ دور جب سے ہوگئے مرے حواس کھو گئے
رنج و الم نہ کم ہوا میرا کسی بھی رات میں
وہ قربتیں وہ چاہتیں کیسے تمام ہو گئیں
یاد یں جواں ہیں آج بھی جہان التفات میں
یہ تشنگی یہ بے بسی یہ چار دن کی زندگی
گزر رہی ہے آج کل عجب تفکرات میں
یہ معرکۂ عشق ہے فنا سے کیا غرض اسے
وہی ہے کامراں یہاں جسے یقیں ہو مات میں
اکبر ملا تو کیا ملا جہان سوز وساز میں
جفا کی راکھ رہ گئی ذرا سی تیرے ہاتھ میں
(محمد اکبر خان۔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
زندگی دیکھ نہیں مجھ کو یوں حیرانی سے
میں نکل آیا محبت کی پریشانی سے
خرچ کرتا ہوں میں گن گن کے خوشی کے لمحے
''کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے''
میں تو بہنے لگا حالات کے دریاؤں میں
اے سمندر میں ڈرا کب تیری طغیانی سے
کیوں نہ آغازِ محبت سے پلٹ آیا میں
ادھ موا ہو گیا پل پل کی پشیمانی سے
پیار اتنا نہ مجھے دے میرے دلدار کہ میں
مر بھی سکتا ہوں محبت کی فراوانی سے
جب سے چوما ہے بلالؔ اس نے میرے ماتھے پر
نور جاری ہے میری سرمئی پیشا نی سے
(بلال احمد بلال۔ رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
وصل کی آس میں اندھا نہیں ہونے دے گا
وہ مرا عشق میں چرچا نہیں ہونے دے گا
در گزر کر دو، بھلا ہوگا، وگرنہ یہ بوجھ
میری مٹی کو خزینہ نہیں ہونے دے گا
اس کو گرتے ہوئے دیکھا تو یہ بولے نوری
وہ اسے آگ میں رسوا نہیں ہونے دے گا
حکم پا کر وہ چلا آئے گا دوڑا دوڑا
وہ مرا خواب بھی پورا نہیں ہونے دے گا
مجھ کو پہلو میں جگہ دو کہ زمانہ آصف!
آپ کے دوست کو اچھا نہیں ہونے دے گا
(آصف خان۔بنوں)


۔۔۔
غزل
مرا بدن بے وجہ ہی کیوں اس کی تاب جھیلے
ہے جس کا سورج وہ آ کے اس کا شباب جھیلے
ہزار جھیلی ہیں میں نے نفرت زدہ سی آنکھیں
مری وہ آنکھوں کے کیوں نہ منظر خراب جھیلے
ہے اس کے سر پر ابھی ندامت کا داغ باقی
اسے کہو آ کے خود وہ سارے حساب جھیلے
تھا راستہ پاس جھانک کے دیکھنے کا ساکت
مگر یہ پھر بھی ہے نیند جھیلی یہ خواب جھیلے
(تیمورساکت۔ ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
تیری آنکھیں،ترے گیسو،ترے شانے نہ رہے
ہم سے بربادِ محبت کے ٹھکانے نہ رہے
یہ تو رکھا ہے تری یاد نے سرسبز ہمیں
ورنہ جنگل میں بھی اب پیڑ پرانے نہ رہے
دل جو اڑتا ہوا خوش رنگ پرندہ تھا کبھی
ہائے اب اس پہ حسینوں کے نشانے نہ رہے
تیری آنکھوں کے اشاروں کا تسلسل ٹوٹا
بات سے بات نکلنے کے بہانے نہ رہے
ان جدائی کی رُتوں نے ہمیں ناشاد کیا
ہائے!پہلے سے شب و روز سہانے نہ رہے
ایسا افلاس کا عالم نہیں دیکھا تھا کبھی
جگمگاتے ہوئے جلوؤں کے خزانے نہ رہے
(عدنان منور۔دبئی)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں