دنیا کے لیے خوراک نو ارب افراد کا پیٹ کون بھرے گا

ماحول کی خرابی کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض کو جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے، وہ خوراک ہے۔


پروفیسر فولے نے خوراک کے تحفظ اور ماحولیات میں تبدیلیوں کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ فوٹو: فائل

پروفیسر جوناتھن فولے یونی ورسٹی آف منی سوٹا میں ادارہ برائے ماحولیات کے ڈائریکٹر ہیں۔ فولے کا سارا کام کرۂ ارض کے استحکام اور اس کے ان قدرتی وسائل کے گرد گھومتا ہے، جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔

پروفیسر فولے اور ان کے طلبہ نے عالمی خوراک کے تحفظ اور ماحولیات میں عالمی تبدیلیوں کے حوالے سے عام لوگوں کو بیش قیمت معلومات فراہم کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ زمین، اس کے وسائل اور آب و ہوا کے استحکام پر انہوں نے رائے عامہ بیدار کی ہے۔ ان کے اس بڑے کام کی وجہ سے انہیں مختلف حکومتوں نے اپنا مشیر بنایا ہے، متعدد این جی اوز نے ان کی خدمات حاصل کیں اور متعدد ماحولیاتی گروپوں نے بھی ان کی ذات اور تجربے سے استفادہ کیا ہے۔

پروفیسر فولے کو متعدد اداروں کی جانب سے ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ 2014میں انہیں ماحولیات کے Heinz Award کے لیے نام زد کیا گیا۔ اپریل 2014میں فولے کو کیلی فورنیا اکیڈمی آف سائنسز کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے ۔ اس عہدے پر وہ اگست 2014سے کام شروع کریں گے۔ ماحولیات کے حوالے سے پروفیسر فولے نے ''نیشنل جیوگرافک'' کے لیے ایک مضمون تحریر کیا ہے، جس کی تلخیص قارئین کی دل چسپی اور معلومات میں اضافے کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

.............

جب کبھی ہم ماحولیاتی خطرات کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں دھواں چھوڑتی گاڑیاں اور فیکٹریوں کی دھواں اگلتی چمنیاں ہوتی ہیں، ہمارے ذہن کے کسی بھی گوشے میں خوراک نہیں ہوتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماحول کی خرابی کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض کو جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے، وہ خوراک ہے۔

گلوبل وارمنگ کے بارے میں عام طور سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب کاریں، ٹرک، ٹرینیں اور ہوائی جہاز وغیرہ ہیں جو شب و روز خطرناک زہریلی گیسیں خارج کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زراعت وہ شعبہ ہے جو ان سب سے زیادہ گلوبل وارمنگ کا ذمے دار ہے۔ مویشیوں اور چاول کے کھیتوں سے میتھین گیس خارج ہوتی ہے، جن کھیتوں میں ہم فرٹیلائزرز یا مصنوعی کھاد استعمال کرتے ہیں، وہ نائٹرک آکسائیڈ ریلیز کرتے ہیں، بارانی جنگلات کٹنے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے جو پورے کرۂ ارض کو آلودہ کردیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ جنگل کیوں کاٹے جاتے ہیں؟ اس کا جواب ہے، جنگل کاٹنے کے بعد ہی ہمیں وہ میدان یا صاف جگہیں میسر آتی ہیں جن پر ہم کاشت کاری کرتے ہیں اور ان پر فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ فصلوں کے علاوہ ہم جنگل کاٹ کر جو میدان حاصل کرتے ہیں، ان میں ہم مویشی پالتے ہیں، تاکہ ان سے انسان کے کھانے کے لیے دودھ اور گوشت حاصل کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ زراعت کا عمل آب پاشی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، اور ہمیں اپنے کھیتوں کی پیاس بجھانے کے لیے خاصے قیمتی پانی کی ضرورت ہوتی ہے، مگر کیا کیا جائے کہ ہمارا یہ شعبۂ زراعت اس پانی کو پی کر بھی اپنی پیاس نہیں بجھا پاتا۔ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد یہی پانی آلودگی کا ایک اہم سبب بھی بن جاتا ہے۔

فرٹیلائزرز یا مصنوعی کھادیں استعمال کے بعد جھیلوں، دریائوں اور پانی کے اہم ذخیروں کو آلودہ کرتی ہیں۔ یہ عمل دنیا بھر میں ساحلوں کے ایکو سسٹم کو تباہ کررہا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا جانوروں اور زراعت ونباتات کا تنوع بھی شدید متاثر ہورہا ہے۔ ہم نے چوں کہ اپنے گھاس کے میدان اور جنگل کھیتی باڑی کے لیے صاف کردیے ہیں، اس لیے ان جنگلوں میں بسنے والی جانوروں اور پرندوں کی آبادیاں بھی ختم ہورہی ہیں، گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زراعت ہماری جنگلی حیات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

زراعت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی چیلینج بہت بڑے اور اہم ہیں۔ اگر ہم دنیا بھر میں خوراک کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کی طرف قدم بڑھائیں گے تو یہ چیلینج مزید خطرناک ہوجائیں گے۔ ہمیں موجودہ صدی کے وسط تک دو ارب مزید پیٹ بھرنے ہوں گے، یعنی کرۂ ارض کی نو ارب آبادی کے لیے خوراک کا انتظام کرنا ہوگا۔ صرف ایسا نہیں ہے کہ آبادی بڑھنے سے خوراک کی ضرورت بڑھے گی، بلکہ دنیا کے متعدد ملکوں میں ہونے والی ترقی (بالخصوص چین اور انڈیا میں) بڑی تیزی سے گوشت، انڈوں اور دودھ اور دودھ سے تیار کردہ مصنوعات کی طلب میں اضافہ کردے گی جس کے نتیجے میں ہمیں زیادہ اناج اگانا ہوگا، ہمیں اپنے مویشیوں اور مرغیوں کو کھلانے کے لیے زیادہ چارے یا سویا بین کی ضرورت ہوگی۔ ہم پر خوراک کی طلب کا جو بوجھ بڑھے گا، وہ ہمیں مجبور کردے گا کہ ہم 2050تک اپنی فصلوں کی پیداوار دگنی کردیں ورنہ ہمارے لوگ بھوکے مرجائیں گے۔



ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ماہرین کو خوراک کے اس عالمی چیلینج سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس یا مؤثر طریقہ دکھائی نہیں دے رہا۔ ہم ابھی تک زراعت کے قدیم اور روایتی طریقوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ہم نے جدید زراعت کی طرف توجہ ہی نہیں دی ہے۔ مقامی فوڈ سسٹم اور آرگینک فارمز یا نامیاتی کاشت کاری ہماری راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہم لوگ کسی بھی مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے آپس کی فضول بحث میں پھنسے رہتے ہیں۔ نہ ہم جدید میکنائزیشن کی بات کرتے ہیں، نہ آب پاشی کے جدید سسٹم پر غور کرتے ہیں، نہ فرٹیلائزرز یعنی کھادوں کا معیار بہتر کرنے پر توجہ دیتے ہیں اور نہ بہتر جینیکٹس کی طرف دھیان دیتے ہیں، جن سے ہماری پیداوار بڑھے اور ہم اپنی خوراک کی طلب پوری کرسکیں۔

اب ہمارے پیش نظر یہ معاملہ ہے کہ ہم اپنی زرعی پیداوار کو کس طرح دگنا کریں۔ اسے دگنا کرنے کی بات اپنی جگہ، ہمیں اس ماحولیاتی نقصان کا بھی ازالہ کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے جو ہمیں زراعت کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔ ہم نے زراعت اور ماحولیات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد پانچ نکات تیار کیے ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے:

٭پہلا نکتہ:

زراعت کی خاطر جنگلات کو کٹنے سے بچائیں:دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کبھی ہمیں زیادہ خوراک کی ضرورت پڑی تو ہم نے جنگل اور گھاس کے میدان کاٹ ڈالے اور کھیتی باڑی کے لیے زیادہ جگہ حاصل کرلی۔ ہم زیادہ فصلیں اگانے کے لیے پہلے ہی جنوبی امریکا کے سائز کا علاقہ گھاس اور جنگل سے صاف کرچکے ہیں۔ مویشی پالنے کے لیے تو ہم نے اس سے بھی زیادہ بڑا علاقہ حاصل کرلیا ہے، جو پورے افریقہ کے سائز کا ہے۔ یہ زمین کا نقصان نہیں تو اور کیا ہے۔ گویا زراعت کے بڑھتے قدم دنیا بھر میں پورے ایکو سسٹم کے لیے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ان میں شمالی امریکا کی چراگاہیں، برازیل کے اوقیانوس والی سائیڈ کے جنگل اور استوائی جنگل شامل ہیں۔

یہ خاصی تیزی کے ساتھ مسلسل کاٹے جارہے ہیں۔ لیکن اب ہم اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس طرح زراعت کی ترقی کے نام پر اپنے جنگل اور گھاس کے میدان نہیں کاٹ سکتے۔ زراعت کے لیے استوائی جنگلات کی تجارت کرۂ ارض کے ماحول کے لیے ایک بہت بڑا اور تباہ کن خطرہ ہے۔ بے شک یہ قدم دنیا کے 850ملین افراد کے پیٹ بھرنے کے لیے اٹھایا جارہا ہے، مگر یہ لوگ اب بھی بھوکے ہیں۔ استوائی علاقوں میں جنگلات اور گھاس کے میدان کاٹ کر کھیتی باڑی کے لیے مخصوص کی جانے والی زمین دنیا کی فوڈ سیکیوریٹی کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہاں مویشی پیدا کیے جارہے ہیں اور ان کے لیے چارا پیدا کیا جارہا ہے، ٹمبر (عمارتی لکڑی) اور پام آئل پیدا کیا جارہا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جنگلات کو مزید کٹائی سے بچائیں۔ یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

٭دوسرا نکتہ:

اپنے کھیتوں پر زیادہ سے زیادہ فصلیں اگائیں:1960 کے عشرے کے شروع میں ایشیا اور لاطینی امریکا میں سبز انقلاب کی بدولت زرعی پیداوار بڑھی تھی۔ اس کے لیے بہتر فصلوں کی ورائٹی، بہتر کھاد، بہتر آب پاشی کا نظام اور مشینیں استعمال کی گئی تھیں۔ لیکن بدلے میں ہمیں بھاری ماحولیاتی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اب دنیا کو پوری توجہ اس بات پر دینی ہوگی کہ خاص طور سے افریقہ، لاطینی امریکا اور مشرقی یورپ میں کم پیداوار والی زمینوں پر پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھائے جائیں، جہاں فارمنگ کے بہتر طریقوں کی مدد سے موجودہ پیداوار کی سطح بڑھ سکے گی۔ ہائی ٹیک فارمنگ سسٹم اختیار کرکے اور آرگینک فارمنگ سے بعض چیزیں لے کر ہم موجودہ پیداوار کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔

٭تیسرا نکتہ:

موجودہ وسائل کو زیادہ مؤثر انداز سے استعمال کریں:ہمارے پاس ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے ہم زیادہ پیداوار حاصل کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی روایتی فارمنگ پر ماحولیاتی اثرات کو بھی کم کرسکتے ہیں۔ سبز انقلاب کا انحصار پانی کے احتیاط سے استعمال اور فوسل سے بنے ہوئے ایندھن والے کیمیکلز کے استعمال پر ہے۔ لیکن تجارتی پیمانے پر ہونے والی کاشت کاری نے بڑے بڑے قدم اٹھانے شروع کردیے ہیں، جس کے لیے کاشت کاری کے جدید طریقے بھی تلاش کیے جارہے ہیں، تاکہ مطلوبہ ہدف بھی آسانی سے پورا کیا جاسکے اور اس کام میں اچھی کھادوں اور جراثیم کش ادویات کو بھی شامل کیا جاسکے۔ ایک اور اہم چیز ایڈوانسڈ سینسرز اور GPS سے لیس کمپیوٹرائزڈ ٹریکٹروں کا استعمال ہے۔ بہت سے کاشت کار مخصوص کھادیں استعمال کرتے ہیں جو ان کی مٹی کی زرخیزی کے معیار کے عین مطابق ہوتی ہیں۔

ان سے کیمیکلز پانی کے ساتھ شامل ہوکر ضائع نہیں ہوتے۔ آرگینک فارمنگ یا نامیاتی کاشت کاری پانی اور کیمیکلز کے استعمال میں قابل قدر حد تک کمی کردیتی ہے۔ اس کے لیے ''کور کراپس''cover crops کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایسی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جو زمین کو کٹائو سے بچاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ زمین کے معیار کو بھی بہتر بناتی ہیں۔ اس طریقے میں پانی کی بچت بھی ہوتی ہے اور زمین کے معدنی اجزا تباہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ بہت سے کاشت کار پانی کے حوالے سے بہت احتیاط کرتے ہیں۔ یہ لوگ آب پاشی کے غیرموثر نظام کی جگہ زیادہ فعال اور عمدہ نظام لارہے ہیں جیسے subsurface drip irrigation۔اس وقت روایتی کاشت کاری اور نامیاتی کاشت کاری دونوں ہی میں زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فصلیں مل سکیں گی اور ہمارے پانی کے قطرے زیادہ مفید اور کارآمد ہوں گے اور ان کے اجزاء بھی محفوظ رہیں گے۔



٭چوتھا نکتہ:

دوسری خوراکوں کی طرف منتقلی: 2050 تک نو ارب افراد کے پیٹ بھرنے کے لیے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ایسی زیادہ فصلیں اگائیں جو انسانی معدوں میں ختم ہوجائیں۔ آج دنیا میں مجموعی فصلوں کی صرف 55 فی صد کیلوریز یا حرارے لوگوں کو براہ راست ملتے ہیں۔ ان میں سے باقی تمام یعنی کم و بیش 36فی صد مویشیوں کو کھلادیے جاتے ہیں اور 9 فی صد بایو فیول اور صنعتی پروڈکٹس میں بدل دیے جاتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ان جانوروں کا گوشت، دودھ، دودھ سے تیار کردہ اشیا اور انڈے استعمال کرتے ہیں، جو اسی طرح کی فیڈ پر پالے جاتے ہیں، مگر اس فیڈ کے ذریعے ان جانوروں اور مویشیوں کو جو کیلوریز ملتی ہیں، وہ مجموعی کیلوریز کا بہ مشکل ایک فی صد ہوتا ہے۔

اناج کی ہر سو کیلوریز کے لیے ہم جانوروں کو فیڈ کرتے ہیں اور دودھ میں لگ بھگ 40نئی کیلوریز، انڈوں میں22 ، مرغی میں 12، اور بڑے کے گوشت میں 3کیلوریز حاصل کرتے ہیں۔ہمیں زیادہ گوشت حاصل کرنے کے لیے زیادہ موثر طریقے تلاش کرنے ہوں گے اور خاص طور سے کم گوشت والی خوراکوں کی طرف جانا ہوگا۔ ہمیں اناج کھلاکر حاصل کیے جانے والے بڑے کے گوشت سے مرغی کے گوشت کی طرف جانا ہوگا یا پھر ایسا بڑے کا گوشت استعمال کرنا ہوگا جس کے جانور چراگاہوں میں پلے ہوں۔ اس طرح ہم دنیا بھر میں خوراک کی نئی اقسام کی طرف جاسکتے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں مستقبل میں لوگ خود بہ خود کم گوشت والی خوراک کی طرف راغب ہوں گے، اس لیے ہمیں اپنا فوکس ان ملکوں پر رکھنا ہوگا جو پہلے ہی گوشت سے لبریز خوراک استعمال کررہے ہیں۔ بایو فیولز کے لیے غذائی فصلوں کے استعمال میں کمی سے بھی دنیا میں خوراک کی زیادہ مقدار میسر آئے گی۔

٭پانچواں نکتہ:

خوراک کے ضیاع میں کمی کریں:ایک اندازے کے مطابق دنیا کی خوراک کی کیلوریز کا 25فی صد اور مجموعی خوراک کے وزن کا لگ بھگ 50فی صد ضائع ہوجاتا ہے یا اپنے استعمال سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ دولت مند ممالک میں خوراک زیادہ تر گھروں، ریسٹورنٹس یا سپر مارکیٹوں میں ضائع ہوتی ہے۔ غریب ملکوں میں خوراک عام طور سے کاشت کار اور مارکیٹ کے درمیان ضائع ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ خوراک کو اسٹور کرنے کے لیے گوداموں کی کمی اور موثر ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں صارفین خوراک کے ضیاع میں درج ذیل سادہ طریقوں سے کمی کرسکتے ہیں:وہ چھوٹی اور کم مقداروں میں کھائیں، خوراک کو باقی نہ چھوڑیں بلکہ کوشش کریں کہ صاف کرلیں۔

کیفے ٹیریاز، ریسٹورنٹس اور سپر مارکیٹس بھی ایسے اقدامات کریں جن کے باعث خوراک کا ضیاع کم ہوجائے۔ اس کے نتیجے میں خوراک ضائع ہونے سے بچے گی اور زیادہ لوگوں کے پیٹ بھرے جاسکیں گے۔مذکورہ بالا پانچ اہم نکات پر عمل کرنے سے دنیا بھر میں ایک طرف تو خوراک کی رسد دگنی ہوجائے گی اور ساتھ ساتھ ہمارے ماحول پر زراعت کی وجہ سے ہونے والے منفی اثرات بھی کم ہوجائیں گے۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ سب سے زیادہ توجہ زراعت پر دی ہے اور زیادہ سے زیادہ اناج اگانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جنگلوں کو کاٹا ہے۔ ہم نے اپنے وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم زیادہ خوراک پیدا کرنے اور اپنی زمین کے ماحولیاتی تحفظ میں ایک توازن لائیں، تاکہ ہماری مستقبل کی نسلیں یہاں بلاخوف و خطر رہ سکیں۔

خوش قسمتی سے ہمیں یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، بس یہ معلوم کرنا ہے کہ اسے کس طرح کرنا ہے۔ جب ہم دنیا کو درپیش خوراک کے چیلینجوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس خوراک کو اپنے ذہن میں ضرور رکھنا ہوگا جو ہم اپنی پلیٹ میں کھانے کے لیے نکال رہے ہیں۔ ہمیں کھانا کھاتے وقت اس کاشت کار کو ضرور ذہن میں لانا ہوگا جو اسے اگاتا ہے۔ ہمیں اپنی خوراک اور زمین کے تعلق کو بھی دیکھنا ہوگا اور پانی اور ماحولیات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی خوراک کے عالمی مسئلے پر قابو پایا جاسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں