شادی خانہ آبادی

اگر یہ شادی سنت مطہرہ کے مطابق ہو تو معاشرہ بے شمار خیر و برکات کا باعث بن جاتا ہے


فوٹو : فائل

شادی انسانی زندگی میں خوشی کا اہم موقع ہوتا ہے ایسے مواقع پر اپنے عمل، خیالات، جذبات و احساسات کو شریعت و سنت مطہرہ کے سانچے میں ڈھالنا ہی کمال اتباع ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی صرف ایک سماجی معاملہ اور خاندانی تقریب ہی نہیں بل کہ ایک بہت بڑی عبادت ہے جس میں دین و دنیا کے بے شمار فوائد ہیں۔ اگر یہ شادی سنت مطہرہ کے مطابق ہو تو معاشرہ بے شمار خیر و برکات کا باعث بن جاتا ہے۔

اس کے برعکس آج کل شادی اور منگنی کے نام پر جو قبیح رسمیں کی جاتی ہیں، ان کا ترک ضروری ہے، نیز مروجہ بارات بھی واجب الترک ہے، شادی کی محفلوں میں دیگر خرافات کی جو وباء پھیلی ہوئی ہے وہ تو قطعاً ناجائز ہے اور معاشرے کی تباہی کا سبب ہے۔

صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے یہاں انتہائی سادگی سے نکاح انجام پاتا تھا، خود اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بعض ازواج مطہرات سے نکاح کا ولیمہ تو اس طور پر کیا کہ رفقاء سفر صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی جو چیز ہے وہ لے آئے، پھر سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر جمع شدہ چیزیں تناول فرما لیں، بس ولیمہ ہوگیا۔

اس ولیمے میں نہ گوشت تھا اور اور نہ روٹی، صرف کھجور، ستو، پنیر اور اس طرح کی چیزیں تھیں جو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اپنے اپنے پاس سے لے کر آئے تھے۔

(بہ حوالہ: بخاری شریف، سیرۃ المصطفی ﷺ)

سنّت کے مطابق شادی کرنے سے زندگی میں برکت آتی ہے، نئے جوڑے نئے رشتے کے دل میں اطمینان اور پیار کا رشتہ بڑھتا ہے۔

آج کل ہم اسلامی تعلیمات سے بہت دُور ہو چکے ہیں۔ ہم نے غیروں کے طور طریقوں اور رسم و رواج کو اختیار کر لیا ہے۔ نکاح میں اصل چیز ایجاب و قبول ہے۔ نکاح کے بعد رخصتی کے موقع پر پردے کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ خواتین الگ ہوں اور مرد حضرات الگ ہوں، مخلوط محافل کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔

حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے جب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا عقد حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے فرمایا تو اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ مہاجرین اور انصار کی جماعت کو بلا لاؤ۔

اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی مجلس میں اپنے خاص لوگوں کو مدعو کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، اور حکمت اس میں یہ ہے کہ نکاح میں اجتماع ہو لیکن غلو و مبالغہ نہ ہو، وقت پر بلا تکلف جو چند افراد جمع ہو جائیں بس وہ کافی ہیں۔

(بہ حوالہ: اصلاح الرسوم)

ولیمہ بھی سنت ہے، اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ کرنا، اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو دعوت دینا سنت ہے۔ شادی کے موقع پر حسب استطاعت نئے کپڑے پہننا اور خوشی منانا بھی جائز ہے۔

خاتم النبیین حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''اُس نکاح میں سب سے زیادہ برکت ہوتی ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو۔''(مسند احمد)

مہر مقرر کرنا ضروری ہے، دونوں جانب کی باہم رضا مندی سے جو مقرر ہو۔

دلہن کو گھریلو استعمال کی کچھ چیزیں دینا بھی سنت ہے لیکن اس میں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا قطعاً درست نہیں ہے وہ خود اپنی استطاعت کے مطابق جو سامان دینا چاہیں وہ دیں۔

لیکن یہ ضروری ہے کہ لڑکی والے اپنی بیٹی کو وراثت میں بھی پورا حق اور حصہ دیں۔ شادی کے موقع پر فضول اخراجات سے بچا جائے۔ ایک دوسرے پر بوجھ ڈالنا تعلیم اسلام کے منافی ہے۔

حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ''نکاح میری سنّت ہے۔'' ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ نکاح کرتے ہوئے دین دار ہونا ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور دیگر معاملات اتنے اہم تصور نہیں کیے جانے چاہییں۔ اگر غور کیا جائے تو اس میں ہمارے مسائل اور مشکلات کا حل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |