دیوانے کا خواب
جہاں فوج کا آئینی کردار تھا لیکن موجودہ حکومت نے عوام کو خوشحالی دی تو فوج خود بہ خود بیک فٹ پر چلی گئی ۔
DUBAI:
آئن فلیمنگ کے مشہور زمانہ کردار جیمز بانڈ 007 سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے اس جاسوس کی انگریزی فلمیں وہ لوگ بھی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں جنھیں انگریزی کی اے بی سی بھی نہیں آتی ۔ یہ فرضی کردار دراصل برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا ایک تیزوطرار ایجنٹ ہے ، جو ملکی سالمیت بلکہ دنیا کی سالمیت کے لیے خطرہ بن جانے والے عناصر سے نبرد آزما رہتا ہے اور بالاآخر انھیں موت کے گھاٹ اتارکر آخر میں دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیتا ہے۔ اس کردار کی خاص بات یہ ہے کہ اسے اپنی حکومت کی طرف سے قتل کرنے کا لائسنس ملا ہوا ہے۔
جیسے اسلحے اور ڈرائیونگ کا لائسنس ملتا ہے ، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کو گاڑی چلانے کی حکومت کی طرف سے اجازت ملی ہوئی ہے ۔ اسی طرح اگر جیمز بانڈ کسی بھی انسان کو قتل کردیتا ہے تو اس لاش کا نہ تو پوسٹ مارٹم ہوتا ہے اور نہ ہی جیمز بانڈ پر قتل کا مقدمہ چل سکتا ہے کیونکہ وہ اس کا مجاز ہے ۔وہ قانون سے ماورا ایک عالمی قاتل ہے۔ جیمز بانڈ تو دراصل ناولوں اور فلموں کا ایک فرضی کردار ہے، جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح شرلاک ہومز ، پیری میسن اور کرنل فریدی وغیرہ فرضی کردار تھے۔
لیکن دنیا بھر کی جتنی بھی خفیہ ایجنسیاں ہیں ان کے ایجنٹ عموماً اپنے اپنے ملکوں کے آئین و قانون کے دائرے تک محدود رہ کر کام نہیں کرتے ہیں ، ان کے کام کی نوعیت اس قسم کی ہوتی ہے کہ اگر وہ ملک دشمن عناصر کو گرفتار کر کے اپنے ملک کی عدالتوں میں پیش کرنا شروع کر دیں تو اس کا فائدہ ملک دشمن عناصر کو پہنچ سکتا ہے ۔ بعض اوقات ان ایجنٹس کو فوری فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی سالمیت کے دشمن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟
ان خفیہ ایجنسیوں میں امریکا کی سی آئی اے ، اسرائیل کی موساد، سابقہ روس کی کے جی بی ، بھارت کی را، افغانستان کی خاد اور ایران کے سابق شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی ایک طرح سے ذاتی ایجنسی ساوک بھی شامل ہے ۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ہٹلر کی قائم کردہ خفیہ ایجنسی گسٹاپو کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ۔ حالانکہ ان ممالک میں سے اکثریت ان ملکوں کی ہے جہاں جمہوریت آئین اور بنیادی انسانی حقوق کا بول بالا ہے بلکہ اس کے ڈھول بجائے جاتے ہیں ۔ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور سب سے زیادہ طاقتور ریاست امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تو دوسرے ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں بھی اکثر ملوث پائی گئی ہے ۔
امریکا خود تو جمہوریت، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور ووٹ کے حق کے لیے نعرے لگاتا ہے ، لیکن بدنام زمانہ آمروں ، جیسے شہنشاہ ایران ، صدام حسین اور حسنی مبارک جیسے حکمرانوں کی پشت پناہی بھی کرتا رہا ہے ۔ اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ، تیسری دنیا کے ملکوں میں اعلیٰ ترین عہدوں تک اپنے ایجنٹ پہنچا دیتی ہے یا پہلے سے موجود عہدے داروں کو لالچ، دباؤ، بلیک میلنگ یا دھونس اور دھمکی کے ذریعے اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے مجبور کردیتی ہے ۔ سی آئی اے خود اپنے اپنے ملک میں کیا کیا کرتی ہوگی یہ کبھی منظر عام پر نہیں آسکا ؟کتاب Invisible Government سی آئی اے کی داخلی تنظیم کا ایک تنقیدی جائزہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کرنا کیا امریکی آئین و قانون کے تحت جائز ہے؟ یقینا ایسا کرنا آئینی طور پر جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ، لیکن اپنے ملک کی سلامتی کی خاطر ایسے عناصر پر نظر رکھنا اور ان سے نمٹنا، خواہ وہ آئین و قانون سے ماورا ہی کیوں نہ ہو، دنیا بھر کی حکومتوں میں غیر تحریری طور پر جائز سمجھا جاتا ہے ۔ اور ان خفیہ ایجنسیوں کو اتنے اختیارات اور اتنا بجٹ مہیا کیا جاتا ہے کہ وہ بخوبی اپنا کام کرسکیں ۔ ان اختیارات اور بجٹ کی وجہ سے یہ خفیہ ایجنسیاں اتنی طاقتور ہوجاتی ہیں کہ بعض اوقات اپنی آئینی حکومتوں کو بھی جوابدہ نہیں رہتی ہیں۔
ان کے کام کی نوعیت ہی اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ آئین و قانون کی پابند رہ ہی نہیں سکتی ہیں ۔ مثلاً خود امریکا میں موجود کسی امریکی شہری کے بارے میں اگر یہ علم ہوجائے کہ وہ خود اپنے ملک کے خلاف جاسوسی کر رہا ہے اور ملکی راز ملک دشمنوں کو فراہم کر رہا ہے تو ایسے امریکی کو حراست میں لے کر سی آئی اے عدالت میں پیش کر کے اس کا ریمانڈ لے گی ؟ اگر ایسا کرے گی تو جاسوسی کے اس نیٹ ورک سے وابستہ دیگر ملک دشمن لوگ ہوشیار نہیں ہوجائیں گے ؟ لہذا ایجنسیاں خاموشی کے ساتھ اس قسم کے لوگوں سے اپنے انداز میں نمٹتی ہیں اور ان کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ مقصد ہے ملکی سلامتی۔
یہی فرائض پاکستان کی خفیہ ایجنسی جو کہ براہ راست فوج کے ماتحت ہے آئی ایس آئی بھی انجام دیتی ہے اور اتنی مضبوط ہے کہ بھارت کی را ، امریکا کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد جیسی طاقتور ایجنسیوں کے لیے لوہے کا چنا بنی ہوئی ہے ۔ جب ان جمہوری ملکوں کی ان خفیہ ایجنسیوں پر خود ان ملکوں کے حکمران، سیاستدان، میڈیا اور سول سوسائٹی کوئی اعتراض نہیں کرتی تو ہم آئی ایس آئی پر معترض کیوں ہیں ؟ میرے کہنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ خفیہ ایجنسیاں جب چاہیں اپنے ملک کے کسی بھی شہری کو اٹھا کر غائب کردیں اور اس کے لواحقین بیچارے دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں ۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں عموماً یہی طریقہ کار اختیار کر کے ملکی سالمیت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔
ہماری سول سوسائٹی سیاستدان اور آزاد میڈیا آجکل ملکی معاملات میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کے حق میں بڑی شدت سے آواز اٹھا رہے ہیں ، یقیناً فوج کو سول بالادستی کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن پاکستان کا معاملہ مختلف ہے ۔ یہاں 58 ء کے بعد سے حکومتوں میں فوج کا عمل دخل بہت زیادہ رہا ہے ۔ فوج کی سربراہی سے سبکدوش ہونے والا چیف ، اپنے آنے والے چیف کو جب چارج سونپ دیتا ہے تو یہی طاقت نئے آرمی چیف کے پاس آجاتی ہے ۔ اور یہی عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ فوج بطور ادارہ ایک انتہائی مضبوط اور منظم ادارہ ہے۔ اس ادارے میں انفرادی طور پر کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس کا سربراہ اسی وقت تک طاقتور ہے جب تک اسے ادارہ قوت فراہم کرتا ہے ۔
اب ہمارے سیاستدان فوج کے اس طاقتور ادارے کو اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ جمہوری اصول عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے ۔ لیکن آپ مجھے کسی ایسے سیاستدان یا حکمران کا نام بتا سکتے ہیں جو عوام کی طاقت کے ذریعے اس ملک کی مسند اقتدار تک پہنچا ہو ؟ بھٹو صاحب کو ایوب خان نے سیاست اور اقتدار سے متعارف کروایا ۔ ایوب خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف اپنی کوئی ذاتی طاقت نہیں رکھتے تھے یہ فوج کے ادارے کی طاقت تھی جس کے سہارے یہ اقتدار تک پہنچے تھے۔
اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو آپکو طاقت فراہم کرے اسے آپ اپنی طاقت سے شکست دے سکیں ؟ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور شے خدا کے بعد کسی بھی ریاست کے متحد عوام ہوتے ہیں اور عوام کی طاقت اسی لیڈر کو حاصل ہوتی ہے جو انھیں خوشحالی دے ، امن و امان دے، ان کی قوت خرید میں اضافہ کرے ، انھیں آسایشات مہیا کرے ، ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے قانون سازی کرکے ریاست میں قانون کی حکمرانی قائم کرے اور خود بھی اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو اپنے اوپر لاگو کرے ۔ جو بجائے فوج کے عوامی طاقت سے اقتدار میں آئے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے ۔تُرکی اس کی بہترین مثال ہے۔
جہاں فوج کا آئینی کردار تھا لیکن موجودہ حکومت نے عوام کو خوشحالی دی تو فوج خود بہ خود بیک فٹ پر چلی گئی ۔ ایسے ملک میں جہاں عوام کو بجلی ، گیس اور پینے کا پانی بھی میسر نہ ہو اس ملک کے حکمرانوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس ادارے کو اپنا ما تحت بنا سکتے ہیں ، جس کی طاقت لے کر وہ خود اقتدار میں آئے تھے دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ جب عوام سخت گرمی میں اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ میں گزارتے ہیں ، نلکوں سے پانی کی جگہ ہوا کی سائیں سائیں سنتے ہیں ، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں مرنے والوں کی دل خراش چیخے سنتے ہیں اور بیروزگاری و مہنگائی کا عذاب بھگتے ہیں ، 50 روپے کلو آلو خریدتے ہیں تو وہ یہ کب سوچتے ہیں کہ کونسا ادارہ کس کے ماتحت ہے ؟