آپ جتنی بھی تحقیق کرلیجیے، اس کا نتیجہ یہی سامنے آئے گا کہ جو لوگ خود سے کسی کام کا کریڈٹ لینے کے درپے ہوتے ہیں دراصل وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور بغیر کوئی کام کیے اس کام کا سہرا اپنے سر سجانے کے متمنی ہوتے ہیں اور دوسروں کی کامیابی پر ان کا دل کڑھتا ہے کہ کہیں کوئی ان سے آگے نہ نکل جائے۔
کریڈٹ کا یہ بخار چڑھنے کی بھی اب دو اقسام بن چکی ہیں کیونکہ بنیادی طور پر تو احساس کمتری ایک انفرادی بیماری ہے۔ کوئی کسی کی کامیابی سے جلتا ہے تو کوئی کسی سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے اس کے خلاف دشمنی پر اتر آتا ہے۔ لیکن ابھی احساس کمتری کی ایک اجتماعی شکل نے معاشرے میں سر اٹھا لیا ہے جو کہ انفرادی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کی تازہ مثال خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقے بٹگرام میں الائی کے مقام پر مورخہ 22 اگست کو دیکھنے کو ملی، جس سے دل کو بہت تکلیف ہوئی کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنی یکجہتی کو ختم کرنے کے درپے کیوں ہیں؟
22 اگست بروز منگل کو بٹگرام کے علاقہ الائی کے مقام پر دو پہاڑوں کے درمیان دریا کو کراس کرنے کےلیے استعمال کی جانے والی ڈولی (چیئر لفٹ) رسیاں ٹوٹ جانے سے فضا میں اس وقت معلق ہوگئی جب کہ ابھی اس کا آدھا فاصلہ باقی تھا۔ اس ڈولی لفٹ میں اسکول کے ایک استاد اور طالب علموں سمیت 8 افراد سوار تھے جن میں 3 طالب علم وہ تھے جن کا اس دن نویں جماعت کے رزلٹ کا اعلان ہونا تھا۔ ڈولی لفٹ کی دو رسیاں ٹوٹ جانے اور محض ایک رسی کے سہارے زمین سے کم و بیش 600 فٹ بلندی پر فضا میں معلق ہوجانے سے 8 افراد کی زندگی صرف اللہ تعالی ٰ کے فیصلے کی مرہون منت تھی کیوں کہ شہروں کی پررونق زندگی سے بہت دور افتادہ علاقے میں مدد کا فوراً انتظام کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
مختلف خبروں کے مطابق سارے ذرائع استعمال کرکے بھی پہلی مدد پہنچنے تک 3 سے 4 گھنٹے لگ گئے اور پھر ریسکیو آپریشن کا آغاز ہوا جو اس کے بعد تمام 8 افراد کو محفوظ طریقے سے زمین پر پہنچانے تک رات گئے تک جاری رہا اور الحمدللہ سارے لوگ خیریت سے اپنے پیاروں کے پاس پہنچے۔ خبروں کے مطابق یہ آپریشن فوجی اور سول افراد کا مشترکہ تھا اور سب کی مشترکہ کوششیں رنگ لائیں، جس کی بدولت یہ کامیابی ہمارے حصے میں آئی۔
جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن تقریباً سارے ہی ٹی وی چینلز صبح سے رات ریسکیو آپریشن مکمل ہونے تک اپنی معمول کی نشتریات معطل کرکے اسے براہ راست نشر کرتے رہے اور کئی ایک غیر ملکی چینلز نے بھی اس خبر کو اپنی خبروں کا حصہ بنایا۔ اس حوالے سے ساری معلومات لینے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپریشن پاک آرمی، پاکستان ایئر فورس اور مقامی آبادی کے جوانوں کی یکجہتی سے بھرپور مشترکہ کاوش تھی، جسے لوگوں کی دعاؤں اور اللہ کی خاص مہربانی سے کامیابی ملی۔ لیکن ڈولی لفٹ میں بیٹھے لوگوں میں سے آخری فرد کو نیچے پہنچنے تک تقریباً 13 گھنٹوں کا وقت لگ گیا اور اس سارے وقت کا ہر ہر لمحہ ایک امید اور خوف سے بندھا رہا۔
اب آئیے اس سارے واقعے کے ایک دوسرے رخ کی طرف۔ ایک طرف ساری قوم ڈولی میں پھنسے 8 افراد کے ساتھ ساتھ جو باہمت لوگ ریسکیو آپریشن میں مصروف تھے ان سب کی سلامتی کےلیے دعائیں مانگ رہی تھی اور جب ان افراد اور ان کے گھر والوں کے دل ایک انجانے خوف سے دھک دھک کر رہے تھے اوران کے بچوں کو فضا میں معلق موت سے بچانے کی کوشش کرنے والوں کو دیوتا کی نظر سے دیکھ رہے تھےاور ہر گزرتا لمحہ جہاں ان کی امید میں اضافہ کررہا تھا، وہیں پر وہی لمحہ ان کے اندر ایک انجانے خوف کی لہر بھی دوڑا رہا تھا۔ لیکن کچھ لوگ، کچھ گروپ اور کچھ گروہ ایسے بھی تھے جنہوں نے خبروں اور خاص کر سوشل میڈیا پر اپنی دکانداری چمکائی ہوئی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شاید ریاست کے تمام اجزا کو متحد اور یکجا دیکھنا پسند نہیں کرتے یا پھر ریاست کی مضبوطی اور یکجہتی کی صورت میں ان کے مفادات کو زد پڑتی ہے۔ ان میں سے اکثر بہت منفی رپورٹنگ کرتے نظر آئے اور ریسکیو آپریشن میں شامل افراد میں ایک لکیر کھینچ رہے تھے کہ فلاں کی وجہ سے آپریشن میں اتنا ٹائم لگا، ورنہ یہ ساری ایک دو گھنٹے کی گیم تھی۔
کچھ افراد اس آپریشن کو ایک معمولی واقعہ قرار دے کر پاک فوج کی اہمیت کو کم کرنے پر تلے تھے۔ کچھ اس آپریشن کی کامیابی کا سہرا صرف سویلین افراد کے سر سجانے پر بضد تھے اور دوسری طرف ایک طبقہ اس ساری کارروائی کو صرف پاک فوج کے سر سجانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا۔ حالا نکہ پاک فوج سے اس قسم کا کوئی بیان نہیں دیا گیا کہ یہ صرف ان کی کارروائی ہے بلکہ ہر دفعہ یہی بات کی گئی کہ پاک آرمی، ایئرفورس اور سویلین آبادی کا مشترکہ آپریشن ہے، جس میں کسی ایک جزو کی کمی اس آپریشن کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔ مگر ان سب منفی پوسٹوں اور کوششوں کے باوجود تمام افراد کی مشترکہ کوششوں اور یکجہتی کی بدولت یہ کامیابی ملی جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کیسے ہیں یہ لوگ جو آزمائش کے موقع پر بھی اپنے مطلب اور مفاد کو نہیں بھولتے اور ایسے مواقع پر بھی اپنے ذہن کی گندگی باہر نکالے بغیر انہیں چین نہیں آتا۔ اگر یہ آپریشن فوج نے کیا تو کیا وہ ہماری فوج نہیں؟ اور اگر سویلین کی بدولت کامیابی ملی تو کیا برا ہوا؟ سب نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق کوشش کی اور بالآخر کامیابی ملی۔
ہمارے ملک میں معیشت پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے، مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، سیاسی عدم استحکام نے ملک کی حالت بری کی ہوئی ہے، تو ایسے موقع پر ہم عوام کو یکجہتی کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی کاوشیں کرنے کی جس سے ملک کے اندر انتشار پھیلے۔ اپنے انفرادی اختلاف کو اجتماعی مخالفت میں بدلنے سے ایک طرف ملک کا نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف عوام کی حالت اور زیادہ خراب ہوتی ہے۔ آئیے اپنے ملک کی قدر کریں، اسے پہچانیں۔ اس کی سب اکائیوں کو اکٹھا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ کل آپ کا نام بھی تخریب کاروں کے بجائے ملک اور معاشرے کے معماروں میں شامل ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔