ابھی مہلت باقی ہے
مہلت تو دنیا میں زندگی نے بھی بہت کم دی ہے۔ اب آپ سفر آخرت جمع کرلیں ۔۔۔
ISLAMABAD:
زندگی وموت، محبت ونفرت، قربت ودوری، وفا و بے وفائی ان سب کے درمیان مختصر سا فاصلہ ہے۔ اور یہ مختصر سا فاصلہ صرف ایک لمحے میں طے ہوجاتا ہے۔ پھر ہر شے وجذبے کی معنویت بدل جاتی ہے۔ رنگ و روپ اور موسم سب بدل جاتے ہیں۔ اک لمحہ کس قدر قیمتی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آنسو بن کر آنکھوں میں ٹھہر جاتا ہے اور کبھی کتاب زیست پر اس طور رقم ہوتا ہے کہ لفظ انمٹ نقوش بن کر روح کو چاٹنے لگتے ہیں۔ پھر بھی ہم لمحوں کی قدر نہیں کر پاتے۔
یہ لمحے ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے چلے جاتے ہیں۔ اور ان کی قدر کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب کہ یہ کہیں کھو جاتے ہیں۔ اور ان کی تلاش میں ہم بھی کھو جاتے ہیں۔ بالکل اسی منزل کی طرح جو کہیں کھو گئی ہے۔ منزل تو جب ملتی ہے جب کہ راستوں کی خبر ہو یہاں تو راستے بھی کہیں کھو گئے ہیں۔ ہم بے چارے مسافر بھٹک رہے ہیں۔ وہ مسافر جو زندگی کے ہر لمحے میں مخلص لوگوں اور رہنماؤں کی تلاش میں دھوکہ کھاتے رہتے ہیں۔ اور ذہنی طور پر ایک نئے دھوکے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ انسان جن چیزوں کا عادی ہوجائے وہ چیزیں اس کی عادت میں شامل ہوجاتی ہیں اور بے بس، لاچار، اندھیروں میں بھٹکنے والا دھوکا وفریب سے دل نہ بہلائے تو کیا کرے۔ ایک نیا خواب ایک نیا سراب اسی احساس کے ساتھ کہ شاید اس مرتبہ قسمت ساتھ دے۔ قسمت بدل جائے۔ تقدیر مہربان ہوجائے۔
ہائے تقدیر۔ تقدیر کی دیوی بھی کوئی بے وقوف ہے کہ غریب، مزدور، محنت کش اور متوسط طبقے پر مہربان ہوگی۔ وہ بھی گھر اور لوگ دیکھ کر مہربان ہوتی ہے۔ بڑے گھر اور بڑے لوگ۔ تقدیر ہو یا قسمت ایسے لوگوں کے ساتھ جم کر رہتی ہے۔ غریبوں کے گھر میں کیا رکھا ہے۔ چار پانچ عدد منہ بسورتے بچے اور ٹوٹے پھوٹے برتن جو میاں بیوی کے جھگڑوں کے درمیان جب ٹکراتے ہیں تو شور پورا محلہ سنتا ہے۔ شاعر نے صحیح فرمایا تھا ''مفلسی سب بہار کھوتی ہے' مرد کا اعتبار کھوتی ہے'' شاعر کا کمال دیکھیں کہ کتنی بڑی بڑی حقیقتوں کا انکشاف دو مصرعوں میں کردیتا ہے۔ پھر بھی بدذوق لوگ شاعر کو دروغ گو قرار دے کر پوچھتے ہیں کہ اردو، ادب اور شاعری و افسانے کا فائدہ کیا ہے۔
اب انھیں کون سمجھائے کہ ادب تو معاشرے کا آئینہ ہے اب اس میں آڑی ترچھی تصویریں نظر آئیں اور منہ بگڑ جائیں یا بننے لگیں تو آئینے بے چارے کا کیا قصور۔ جس معاشرے میں ادب ختم ہوجائے وہاں بے ادبی کا راج ہوتا ہے۔ اور جہاں اپنی زبان اور قومی زبان کی ناقدری ہو وہ قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں۔ ہمارے خوابوں کی ہماری اپنی زبان ہوتی ہے۔ ہماری سوچ ہماری فکر ہمارا نظریہ ہماری اس زبان میں ہوتا ہے جوکہ مستعمل ہو۔ پھر ہم اس کو دوسری زبان میں منتقل کرتے ہیں۔ ہمارا ما فی الضمیر جتنا کامیاب طریقہ سے اپنی زبان میں بیان کیا جاسکتا ہے کسی غیر زبان میں نہیں۔ کامرس اور سائنس میں اردو کے مضمون کی ضرورت نہیں۔ عجیب منطق۔ میں تو خوفزدہ ہوں اس لمحے سے جب آنے والے وقت میں کہا جائے گا کہ قوم کو قومی زبان کی ضرورت نہیں۔ ادھار کا زمانہ ہے۔ غیروں کی زبان بولو۔ ان کا کلچر اپناؤ۔ اور اس حقیقت کو بھول جاؤ کہ کوا چلا ہنس کی چال۔ اپنی چال بھول گیا۔ ہماری مثال تو آدھا تیتر آدھا بٹیر والی ہے۔ نہ اپنوں میں رہیں گے اور نہ ہی غیر قبول کریں گے۔ بات چلی تھی شاعری کہ جو انقلاب برپا کردیتی ہے ۔ نغموں کی صورت میں سرحد پہ جنگ کے نقشے پلٹ دیتی ہے۔ اور معاملہ آگیا زبان تک۔
زبان کا کیا بھروسہ ہے پھسل پھسل جاتی ہے۔ دنیا سمٹ رہی ہے اور زبان بگڑ رہی ہے۔ بھیا اماں سے بڑے لاڈ سے فرماتے ہیں''ارے اماں! ذرا آشیرباد تو دے دو''، بہو بیگم کہتی ہیں ''کھانے میں سواد نہیں'' منا کل ماموں سے کہہ رہا تھا ''ماموں! اپنے چرنوں میں بیٹھا رہنے دو'' ہماری ناقص عقل میں یہ بات کب آئے گی کہ کلچر کا حملہ کس قدر سخت ہوتا ہے۔ ہماری شناخت ہماری پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ اور یہ حملہ ہوچکا ہے اور ہم خوشی خوشی پسپا ہو رہے ہیں۔ فلمیں ہوں یا ڈرامے۔ فنکار ہوں یا لباس و زیورات ہم سب کچھ خوشی خوشی اپنا رہے ہیں۔ دوسرے کی نظر میں ہم کیا ہیں ہماری قدروقیمت کیا ہے۔ ہماری عزت ہمارا مرتبہ اور وقار کیا ہے۔ اس سوال پر غور کرنے کی ہمیں فرصت ہی نہیں۔ جو قومیں تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں۔
تاریخ سے شکست و فتح کا سبق نہیں لیتی ہیں۔ عبرت حاصل نہیں کرتی ہیں۔ وہ کبھی اپنے حال اور مستقبل کو بہتر نہیں بنا سکتی ہیں۔ لیکن نہ ہی ہمیں زبان کی فکر ہے اور نہ ہی تاریخ و ثقافت کی۔ اپنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی غیروں سے اس قدر مرعوب ہوجاتے ہیں کہ شرمندگی کا ایک نمونہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہائے احساس تو ختم ہوا ہی تھا۔ افسوس کہ احساس زیاں بھی جاتا رہا۔ اب تو ہم ایک ایسی کشتی کے مسافر بنتے جا رہے ہیں کہ ایک پاؤں ایک کشتی میں اور دوسرا پاؤں دوسری کشتی میں۔ دونوں کشتیوں کا رخ مخالف سمت میں ہوا تو ہمارا حشر کیا ہوگا۔ اب ڈوبے تو تب ڈوبے۔ تیرنا کتنوں کو آتا ہے؟ لہروں سے ٹکرانے کا حوصلہ کتنوں میں ہے؟ ساحل تک کتنے پہنچیں گے؟ یہ سب کون سوچے گا؟ آپ۔۔۔۔ہم۔۔۔۔ہم سب کو سوچنا ہوگا۔ ابھی ہمارے پاس سوچنے کی مہلت ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ مہلت بھی ختم ہوجائے۔
مہلت تو دنیا میں زندگی نے بھی بہت کم دی ہے۔ اب آپ سفر آخرت جمع کرلیں یا دنیا سامان و آسائش فیصلہ آپ کا ہے۔ لیکن آئے دن کے حادثات و واقعات، دلخراش اموات اور سفر آخرت کے وہ مسافر جو کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ ہم سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ دنیا فانی ہے۔ دنیا کی آرائش و زیبائش ہوس لالچ سب دنیا سمیٹ لے گی لوٹ لے گی۔ اور ہم خالی ہاتھ اپنے تمام خزانوں سمیت زمین میں دفن ہو جائیںگے۔ ہمارے حصے میں صرف دو گز زمین ہے۔ جس کی قیمت بھی اتنی بڑھتی جا رہی ہے کہ غریب کے لیے دفن ہونا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے عالی شان مقبرے ہوں یا کھنڈر بوسیدہ قبر ہماری آخری جائے پناہ صرف صرف کفن اور مٹی ہے۔ دوسری دنیامیں سفر اور کامیابی کی ضمانت وہ نیکیاں ہوں گی جو ہم دنیا میں کریں گے۔
ہم سب جانتے ہیں لیکن بدقسمت کہ کچھ نہیں جانتے۔ اندھے، بہرے گونگے بن گئے ہیں۔ جب کسی قوم میں ظلم اور ناانصافی بڑھ جاتی ہے ، خوف خدا اٹھ جاتا ہے وہ قومیں عذاب الٰہی کو دعوتیں دینے لگتی ہیں۔ مظلوم کی آہیں عرش تک پہنچتی ہیں۔ اور فرش لرزنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعاؤں اور معافی کے راستے کھلے رکھے ہیں۔ ہم اپنے گناہوں کی توبہ کریں کہ معافی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم پر اپنی رحمتوں کی بارش کردے۔ اور ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ زندگی نے مہلت دی ہے دعا کے لیے ہاتھ بلند کریں کہ خالق کائنات دعائیں قبول فرماتا ہے اور فرمائے گا۔ (آمین!)