’’گا گی گے‘‘ کا راگ

ہم صرف بیانات کے دھنی ہیں، عملی اقدامات کرنا ہمارے بس میں نہیں


حکمرانوں کے بیانات میں ’گا، گی، گے‘ جیسے جملوں کا مطلب ’’مٹی پاؤ‘‘ ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

''اقلیتوں پر وار کرنے والوں کو عبرت بنادیں گے''۔ یہ ہے نگران وزیراعظم کا وہ بیان جو 22 اگست 2023 کے ایک روزنامہ کی شہ سرخی ہے۔


یہ ایک ویسا ہی عام بیان ہے جو ہر وزیراعظم اور وزیر داخلہ ایسے واقعات کے بعد دیتے ہیں، لیکن ہمارا زور آج پورے بیان کے بجائے صرف اس کے آخری ''گے'' پر ہے، جو محض اپنا ردھم تبدیل کرتے ہوے کبھی 'گا'، کبھی 'گے' اور کبھی 'گی' کی شکل اختیار کرلیتا ہے لیکن مطلب اور مفہوم ان سب کا ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جو کچھ ہوگیا اس پر مٹی پاؤ اور آئندہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔


اس حوالے سے ماضی قریب اور بعید سے چند بیانات کی جھلکیاں ملاحظ فرمائیے:




  • شرپسندوں کو ملک کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

  • قوم کی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔

  • آئین کی پامالی برداشت نہیں کی جائے گی۔

  • قومی اداروں کی بدنامی نہیں ہونے دیں گے۔

  • قوم کی بیٹی کو واپس لایا جائے گا۔

  • آئینی اداروں پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

  • غریب آدمی پر بجٹ کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔

  • قومی مفاد کے خلاف آئی ایم ایف کی کوئی شرط قبول نہیں کریں گے۔

  • ملک کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ نکال دی جائے گی۔

  • غریب آدمی کے مفاد کا تحفظ کیا جائے گا۔

  • کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ کسی کو بھولنے نہیں دیں گے۔

  • ہڑتال کی وجہ سے عوام کا کاروبار کسی کو بند نہیں کرنے دیں گے۔

  • ناموس رسالت پر جان بھی قربان کردیں گے۔

  • توہین مذہب کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔


یہ اور ان جیسے لاتعداد بیانات اور بڑھکیں قیام پاکستان سے لے کر آج تک پرنٹ، الیکٹرانک، سوشل میڈیا اور جلسے جلوسوں کا زینت بنتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی ملک میں کوئی دلخراش واقعہ رونما ہوتا ہے، ہر سیاسی، مذہبی اور سوشل میڈیا لیڈرز کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کہیں کوئی بیان دینے سے رہ نہ جائے اور وہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اس کے بیان کو نمایاں کوریج بھی ملے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ جائے وقوعہ کا دورہ بھی کھڑکھڑا دیا جائے تاکہ ہمدردیاں اور ووٹ سمیٹنے میں رہ جانے والی کسر کو پورا کرلیا جائے۔ الغرض ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا واقعہ ہوتا ہے اور ہم لوگ ایک سے بڑھ کر ایک بیان داغتے رہتے ہیں اور زبانی کلامی مجرموں کو عبرت کا نشان بناتے رہتے ہیں اور گا، گی، گے، کا راگ الاپتے رہ جاتے ہیں۔


ہمارے اتنے شدید بیانات اور مجرموں کو اپنی بڑھکوں کے ذریعے عبرت کا نشان بنانے کے بعد کیا ہمارے ملک سے ان سارے جرائم کا خاتمہ ہوچکا ہے یا وہ ایک تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہیں؟ کیا حوا کی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہوچکی ہیں؟ کیا کم عمر بچوں سے جبری مشقت اور بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کا سلسلہ بند ہوچکا ہے اور ان پر تشدد کرنے والے قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا پاچکے ہیں؟ کیا ملک میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے کے اعلان کے بعد سب مزدوروں کو یہ تنخواہ مل رہی ہے؟ کیا توہین رسالت اور قرآن کے بارے میں ہمارے جوشیلے جلسوں اور بڑھکوں کے بعد ایسے واقعات دوسرے ممالک میں بند ہوچکے ہیں؟ کیا کالجوں، یونیورسٹیوں اور پارکوں میں لڑکیوں کی عزت ہمارے ''گا، گی، گے'' کے راگ کے بعد محفوظ ہوچکی ہیں؟ کیا دہشت گردوں اور امن کے دشمنوں نے ہمارےبیانات سے خوف زدہ ہوکر اس کام سے توبہ کرلی ہے؟


یقیناً ان سب سوالوں کے جواب نفی میں ہیں، کیونکہ ہماری یہ حقیقت تو اب سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ ہم بیانات کے دھنی ہیں، عملی اقدامات کرنا ہمارے بس میں نہیں۔ کیوں کہ جب بھی ملک کے بارے میں کسی سنجیدہ اقدام کی بات ہوتی ہے ملک میں موجود لاتعداد سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے پر نکل آتے ہیں اور وہ روٹھی ہوئی دلہن کے روپ میں آجاتے ہیں، جنہیں مناتے مناتے کوئی نہ کوئی اور واقعہ ملک میں رونما ہوجاتا ہے اور پھر لفظوں کی وہی گولہ باری شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک آج اس حالت کو پہنچا ہے۔


کاش ہم نے کسی بھی واقعے کے ذمے داروں کو واقعی عبرت کا نشان بنایا ہوتا۔ کاش ہم نے کسی حوا کے بیٹی کی عزت کو تار تار کرنے والے کو کسی چوک پر لٹکایا ہوتا۔ کاش ملک کا امن تباہ کرنے والوں سے ناک سے لکیریں نکلوائی ہوتیں۔ کاش ہم نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے ٹھوس اقدامات کیے ہوتے۔ کاش ہم مزدوروں کی کم از کم تنخواہ ان کو ادا کرنے کو یقینی بناتے۔ کاش ہم توہین رسالت اور قرآن کے مجرموں کے ساتھ قطع تعلق کرتے اور تمام مسلمان ممالک کو ان کے خلاف مل کر اقدام اٹھانے کےلیے مجبور کرتے۔ اگر ہم ایسا کرتے تو آج حوا کی بیٹی محفوظ ہوتی، آج چھوٹے بچے محنت مزدوری کرنے کے بجائے اسکول اور مدرسے جارہے ہوتے۔ اگر ہم ایسا کرتے تو آج مزدور کا چولہا بھی زیادہ نہیں تو کم مگر جل تو رہا ہوتا۔ اگر ہم ایسا کرتے تو آج غیر مسلم ممالک اپنی چھتری تلے ہمارے رسول اور قرآن کی توہین کی جرأت نہ کرتے۔


لیکن کاش ہم اس ''گا، گی، گے'' سے آگے نکل پاتے۔ اگر قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم یہ سارے ''گا، گی، گے'' اکٹھے کرسکیں تو موسیقی کی دنیا میں ایک ایسا نیا راگ ایجاد ہوسکتا ہے، جس کی مثال تان سین کے دور سے بھی نہیں ملے گی۔ آئیے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی کام کریں جس کا نتیجہ ساری قوم کو نظر آئے۔ اس ''گا، گی، گے'' کی دنیا سے باہر نکلیے، اپنی نیتیں صاف کیجیے، اپنا مفاد ملک کے مفاد سے نیچے رکھیں تو سارے کام ٹھیک ہوجائیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں