ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں

سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں


سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعبہ نہایت اہم ہے۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جو ملک سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے اس کی معیشت بھی مضبوط ہے اور اس کا دنیا میں نام بھی ہے۔ ممالک تو کیا حالیہ دور میں افراد بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے دنیا پر راج کررہے ہیں۔


سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑے بڑے نام ایسے ہیں جن کا دنیا میں ایک خاص مقام ہے، جیسے بل گیٹس کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی میں ہی مہارت حاصل کی اور اس کے بعد دنیا میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بل گیٹس جب کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ملک کا وزیراعظم یا صدر آگیا ہو۔ انہیں بہترین پروٹوکول دیا جاتا ہے، وزرائے اعظم، وزرا اور صدور ان سے ایسے ملاقاتیں کرتے ہیں جیسے کسی دوسرے ملک کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کر رہے ہوں۔ حالانکہ ان کے پاس کسی ملک کا کوئی سیاسی یا انتظامی عہدہ نہیں لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی میں انہوں نے اتنا نام کمایا ہے کہ ان کا مقام اب کسی بڑے عہدے دار سے کم نہیں ہے۔


اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں سیاست میں حصہ لیا جائے یا یہ ضروری نہیں کہ سرکاری عہدوں پر فائز ہوا جائے تبھی دنیا میں مقام حاصل ہوسکتا ہے اور عزت مل سکتی ہے بلکہ اب تو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے دنیا پر راج کرتے ہیں، اپنا نام بناتے ہیں اور ایک بہت بڑا مقام حاصل کرلیتے ہیں اور ایسا مقام حاصل کرتے ہیں جو دیگر ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور کو بھی حاصل نہیں ہوتا۔


دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی کررہے ہیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ یورپ اور امریکا تو پہلے سے ہی سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل چکے ہیں مگر اب ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کافی تیزی سے ترقی کررہے ہیں، بھارت تو اس میں کافی آگے نکل چکا ہے۔ بھارت کے نوجوان فری لانسنگ میں دنیا بھر میں سب سے آگے ہیں اور اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی بھارت ایک خاص مقام حاصل کررہا ہے اور نہایت تیزی سے اس میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔


بھارت میں تو ریڑھی بانوں نے بھی کیو آر کوڈ رکھے ہوتے ہیں جس کے ذریعے لوگ آن لائن رقم کی ادائیگی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے بڑے بڑے تاجروں کے پاس بھی آن لائن رقم کی ادائیگی کی سہولت نہیں ہے۔ کئی بار بڑی بڑی دکانوں پر جائیں ان سے آن لائن پیمنٹ کے بارے میں پوچھیں تو کہتے ہیں، ہمیں کیش ہی چاہیے۔


ہماری حکومتوں نے بھی اس شعبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اس میدان میں ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اگر انٹرنیشنل ویب سائٹس پر کچھ خریدنا پڑجائے تو ہمارے لیے مصیبت بن جاتی ہے اور لوگ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح سے آن لائن پیمنٹ کی جائے۔ پے پال کا دنیا میں بہت بڑا نام ہے جس سے پاکستان محروم ہے اور جس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔ پے پال کی سروس پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش آرہی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔


کچھ عرصہ قبل بل گیٹس نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں پولیو اور کورونا کے سینٹرز کا دورہ کروایا مگر ٹیکنالوجی میں ان سے مدد لینے کی کوئی بات نہیں کی، حالانکہ ان کا اصل شعبہ صحت نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ہے۔ بل گیٹس سے اس شعبے میں مدد لینی چاہیے تھی کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں بہت سی مشکلات پیش آرہی ہیں، آپ ہمارے نوجوانوں کو اس کےلیے سہولیات فراہم کریں۔ پے پال اور اس جیسی اور دیگر بہت سی کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنے پر آمادہ نہیں، تو بل گیٹ سے ان کےلیے مدد حاصل کرتے کہ انہیں قائل کریں کہ وہ پاکستان میں اپنی سروسز فراہم کریں تاکہ نوجوانوں کو آن لائن کام کرنے میں سہولت میسر آئے۔


سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعبہ نہایت اہم ہے جس میں پاکستان بہت پیچھے ہے اور ہمارے ہمسایہ ممالک اس میں تیزی سے ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اس شعبے کی طرف خصوصی طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ نوجوانوں کےلیے سہولتیں فراہم کریں اور ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اس شعبے میں خصوصی طور پر دل جمعی سے کام کریں اور دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں