نگراں حکومت اور افراط زر

نگران حکومت کا پہلا امتحان مہنگائی کے گراف کو کم کرنا ہے، آئی ایم ایف نے عوام کو دی جانے والی سبسڈی پر قدغن لگا دی ہے



نگران حکومت کی آمد ہے لیکن اس مرتبہ نگران حکومت کی ذمے داریوں میں دگنا اضافہ محسوس ہو رہا ہے۔ انھیں عالمی معیشت کی طرح ملکی سیاسی معیشت یعنی ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔

بات اس وقت آسان ہوتی جب ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہوتی۔ معاشی ترقی کی شرح کا کم ہونا یا مناسب ہونے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ملکی معیشت کی سمت درست جانب ہو، لیکن معیشت کی بحالی یا اسے عدم استحکام سے مستحکم معیشت کی جانب رخ موڑنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام یا سیاسی حالات میں بہتری کے علاوہ پاکستان میں دیگر امور لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔

جن میں اولین حیثیت افراط زرکو حاصل ہو چکی ہے ،کیونکہ اس وقت ملک کی آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت کم آمدن کا شکار ہو کر رہ گئی ہے اور افراط زر کا عفریت ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پھیلتا چلا جا رہا ہے نتیجے میں غربت کے علاوہ صحت کے مسائل، بچوں کے لیے غذائی قلت، سماجی مسائل اور پیچیدہ معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

ان میں ایک اہم ترین مسئلہ بے روزگاری کا بھی ہے اور پاکستان میں یہ مسئلہ اس لیے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کارن بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے، گیس کے نرخ بڑھ رہے ہیں، کارخانے بند ہو رہے ہیں، ان کو تالے لگائے جا رہے ہیں، ملک کو روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا شعبہ ٹیکسٹائل کا ہے جو گزشتہ 2 عشروں سے زبردست زبوں حالی کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان عالمی افراط زر کا بھی ستایا ہوا ہے۔

اسی طرح دیگر ممالک بھی اس کا شکار بن رہے تھے ایسے میں کئی ملکوں نے اس طرح کی معاشی پلاننگ کی جس سے وہاں کے لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوا۔ ان کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا۔ لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار میسر آیا۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان اسی دور سے گزر رہا تھا، جب کہ دنیا میں کچھ اس طرح کے معاملات چل رہے تھے مثلاً 1960 کی دہائی میں برطانیہ کی جانب سے اس کی کرنسی کی قدر میں کمی کی گئی۔

امریکا خلائی تسخیر کے پروگرام کی خاطر اپنے اخراجات بڑھا رہا تھا، ویتنام کی جنگ چل رہی تھی، سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا، امریکا اور یورپ نے اس کا ایک حل یہ نکالا تھا کہ غریب ممالک کی زرعی برآمدات کی قیمتیں کم رکھی جائیں۔ عالمی منڈی میں ترقی پذیر ممالک کی زرعی یا زراعت پر مبنی مصنوعات کی قیمتیں کم رکھی جا رہی تھیں، اس کے ساتھ ان کی اپنی صنعتی مصنوعات اور دیگر برآمدی مصنوعات کی قیمت بلند رکھ کر اپنے مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ اجرتیں ادا کر رہے تھے۔

سائنسی ترقی ہو رہی تھی۔ اشتہارات کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کو ان مہنگے مصنوعات کی خریداری کی طرف متوجہ کیا جا رہا تھا۔

مہنگائی میں شدید اضافے میں پٹرول کی قیمتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 1973 میں جب عربوں نے تیل کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے تیل کی قیمتیں بڑھا دیں، اس کے ساتھ ہی اس وقت کی حکومت نے پاکستان میں روپے کی قدر کو گھٹا دیا جس سے ملک میں افراط زر کا سیلاب ایسا آیا جوکہ اب تک بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

اب 1977 سے آگے بڑھتے ہیں جب پاکستان عالمی سیاست کا شکار ہو کر رہ گیا اور جلد ہی روس کے افغانستان میں آمد کے باعث شدید دباؤ میں آگیا۔ ملک میں افغان مہاجرین کی تعداد بڑھتی چلی گئی، شروع میں دو چار سال کی بات سمجھ لی گئی لیکن اب بات چار دہائیوں تک جا پہنچی ہے۔

پھر نائن الیون کے بعد عراق، افغانستان کے ساتھ جو ہوا، لیکن پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا چلا گیا، ملک سے سیاحت ختم ہوگئی اور غیر ملکی تاجر جوکہ ٹیکسٹائل برآمدات کے آرڈرز دینا چاہ رہے تھے چمڑے کی مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی لے رہے تھے اور دیگر بہت سی مصنوعات پاکستان سے خریدنا چاہ رہے تھے اب وہ پاکستان آنے سے گریز کرتے ہوئے بھارت، ویتنام، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کا رخ کر رہے تھے جس نے ہماری برآمدات پر جمود کی کیفیت طاری کردی۔ کارخانے بند ہونے لگے یا منتقل ہونے لگے۔

ایسے میں آئی ایم ایف کو پکارنے کا انجام کیا ہوا۔ معیشت کی اصلاح کی خاطر بجلی کے نرخ بڑھاتے چلے گئے۔ فرنس آئل کوئلے گیس وغیرہ کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کی جاتی ہے، کارخانے دار، ٹیکسٹائل انڈسٹری والے سب سیخ پا ہوتے رہے کہ ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں کون خریدے گا؟ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

بہت سی ٹیکسٹائل و دیگر صنعتیں بند ہونے لگیں ۔ اب اس تمام صورت حال میں جس طرح چند سال معاشی اور سیاسی کرب میں گزرے ہیں اس صورت حال نے ملک میں مافیاز کو کھلی چھٹی دے دی جس چیز کی قیمت بڑھانا ہو وقتی قلت یا وسیع اسمگلنگ یا دیگر طریقوں سے بڑھا دی جاتی ہے۔ چینی، آٹے کی قیمتوں میں اضافہ صرف چند ہفتوں کی بات ہے۔

جب چینی 130 روپے فی کلو، چکی کا آٹا 160 روپے فی کلو تھا جس میں اضافہ ہوا ہے، لہٰذا نگران حکومت کا پہلا امتحان مہنگائی کے گراف کو کم کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے عوام کو دی جانے والی سبسڈی پر قدغن لگا دی ہے۔

اس وقت چاہے کوئی حکومت ہو یا نگران حکومت ہو۔ وہ اپنے طور پر اصلاحی اقدامات اور عوام کے لیے فلاحی اقدامات ان کے روزگار، ان کی آمدن میں اضافے کی خاطر ہنگامی اقدامات اور مہنگائی روکنے کی خاطر بہت سے اقدامات کے علاوہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پروگرام کے اجرا کرے تاکہ غریب عوام کو ریلیف مل جائے۔ غریب کی نظر تو ہر آج کے دن پر ہوتی ہے کہ شام کو اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔