سانحہ باجوڑ اسباب و محرکات


[email protected]

شندائی موڑ، باجوڑ کا علاقہ ہے جہاں اتوار کو جمعیت علمائے اسلام کا عظیم الشان کنونشن پورے عروج پر تھا۔ اس کنونشن میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے قائدین، علماء و شیوخ، آئمہ وحفاظ اور ذمے داروں کا جم غفیر تھا۔ اسٹیج اکابرین سے سجا ہوا تھا، کارکنوں کی بڑی تعداد پنڈال میں موجود تھی۔

بعض کارکن تو اپنے ننھے بچوں کو بھی ساتھ لائے ہوئے تھے، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بچپن سے ہی ایسا ماحول دیکھیں تاکہ وہ بڑے ہوکر اہل حق کا ساتھ دینے والوں میں سے بن جائیں۔

پنڈال فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا۔ ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقاریر کا سلسلہ جاری تھا، پورے پنڈال میں ایک روحانیت کا سا سماں تھا کیونکہ یہ روایتی سیاسی جماعت کا اجتماع تھا نہ ہی اس میں روایتی سیاسی کارکن شریک تھے۔

یہ اس عظیم دینی سیاسی جماعت کا اجتماع تھا جو اپنی سو سالہ درخشندہ و تابندہ تاریخ رکھتی ہے، جس نے ہر دور میں اﷲ کی دھرتی پر اﷲ کے نظام کے لیے عملی جدوجہد کی، اعلائے کلمتہ الحق بلند کیا ہے۔

اسی لیے اس جماعت کے ہر اجتماع میں ناچ گانوں اور ڈھول ڈھمکوں کے بجائے اﷲ کی کبریائی کے نعرے لگتے ہیں، درود و سلام کے گلدستے پیش کیے جاتے ہیں۔

کنونشن جاری تھا۔ جونہی جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سینیٹر مولانا عبدالرشید پنڈال پہنچے ان کے استقبال کے لیے فلک شگاف نعرے لگائے جا رہے تھے اسی دوران ایک بدبخت بارودی جیکٹ پہنے آگے بڑھا اور خود کو اسٹیج کے قریب لاکر دھماکا کر دیا۔ زور دار دھماکے کے بعد ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل نظر آرہے تھے۔

ہر طرف لاشیں اور انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے۔ ایک عظیم سانحہ رونما ہوچکا تھا۔ اس خود کش دھماکے میں 65 سے زیادہ علمائے کرام، ذمے داران اور کارکنان کی شہادتیں ہوئیں، مگر مصلحت کے تحت شہادتیں40 بتائی جارہی ہیں، سیکڑوں زخمی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں اور ان میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔

اس دھماکے میں جمعیت علمائے اسلام تحصیل خار کے امیر مولانا ضیااللہ جان سمیت جمعیت کے بہت سارے مقامی ذمے داران بھی شہید ہوئے۔

جمعیت کے ایک ذمے دار اپنے کم سن بیٹے کو کنونشن میں اپنے ساتھ لائے لیکن دونوں باپ بیٹے دہشت گردوں کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔

کئی معصوم بچے اس سانحے میں شہید ہوئے۔ امدادی کارکن ایک شہید کا خون میں لت پت جسد خاکی اسٹریچر پر ڈال کر لے جارہے تھے، جب وہ تصویر نظر سے گزری تو بے اختیار آنسو چھلک پڑے، یہ جذبہ تو کسی سیاسی جماعت کے کارکن کا نہیں ہوگا، شہید اسٹریچر پر موجود ہے اس کا ایک ہاتھ نیچے لٹکا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈوری نظر آرہی ہے جسے اس نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔

اس ڈوری پر جے یو آئی کا پرچم بنا ہوا ہے، بارود نے اس کے جسم کو چھلنی کردیا، خون کے فوارے پھوٹ پڑے، لہو کی بوند بوند بہہ گئی، سانسیں ختم ہوگئیں، دل دھڑکنا بند ہوگیا لیکن اس نے وہ ڈوری نہیں چھوڑی۔ اسے کہتے ہیں اعتقاد، اسے کہتے ہیں اعتماد۔

ٹی وی اسکرین اور یوٹیوب پر تو سب نے یہ انسانیت سوز ظلم و بربریت دیکھا مگر ذاتی طور پر میرا درد سب سے مختلف اور گہرا ہے کیونکہ ان شہداء اور زخمیوں میں اکثریت میرے مرشد و مربی باباجان حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کے عقیدت مند آور معتقدین کی تھی اور اس حادثے میں اللہ رب العزت نے میرے جگری دوست اور جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ایک مدبر راہنما علامہ محمد صدیق صاحب کو معجزانہ طور پر بچالیا، وہ باجوڑ کے ہر دل عزیز راہنما سینیٹر مولانا عبدالرشید صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے۔

شاید اﷲ رب العزت نے ان دونوںسے کوئی بڑا کام لینا ہے، اس لیے ان کو چاروں طرف شہداء کی لاشوں کے بیچ محفوظ رکھا۔ مجھے تفصیلات علامہ صدیق صاحب نے بتائی تو یقین کریں پوری کہانی ایمان افروز ہے کہ اتنے بڑے حادثے کے بعد زخمیوں کا حوصلہ اور شوق شہادت واقعی قابل رشک تھا۔

اس المناک حادثے کی ہر شہادت پر پورا علاقہ سکتے کے عالم میں ہے مگر ایک ننھے پھول جیسے یتیم 10 سالہ ابوذر کی شہادت اور لاش کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے واسطے جلسہ گاہ میں پاپڑ بیچنے آیا تھا، اف ظالم قاتلوں ذرا سوچیں جب اس پھول جیسے بچے کی لاش گھر کی دہلیز پر رکھی گئی ہو گی، تو اس گھر پر قیامت صغرا گزر گئی ہوگی۔

جمعیت علماء اسلام کے خلاف باجوڑ میں یہ دہشت گردی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو سال میں جے یو آئی کے 30 سے زائد مقامی علماء ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں شہید ہوچکے ہیں اور آج تو ظالموں نے حد ہی کردی۔ سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر پورے کنونشن کو ہی اڑا دیا۔

داعش نے خود کش دھماکے کی ذمے داری قبول کرلی ہے، اس سے پہلے واقعات میں بھی مبینہ طور پر داعش کا ہی ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کو ہی ٹارگٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کی دو بنیادی وجہ ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے علماء کھل کر داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام قومی دھارے میں واحد دینی سیاسی جماعت ہے جو پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہے۔ گو کہ جس رفتار سے کام ہونا چاہیے اس رفتار سے نہیں ہورہا لیکن اس ملک میں اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے جتنا بھی کام ہورہا ہے اس کا سہرا جمعیت کے سر ہے۔

پاکستان دشمن قوتوں کو یہ بات گوارا نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان دشمن قوتوں نے بالعموم وطن عزیز اور بالخصوص خیبرپختونخوا کو مذہب سے دور کرنے کے لیے جو جماعت اور جس شخصیت کو میدان میں اتارا تھا، سب سے پہلے اس سازش سے پردہ مولانا فضل الرحمن نے اٹھایا تھا۔ مولانا اور ان کی جماعت ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے کہ ہم خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں جو دینی ماحول موجود ہے اس پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

پھر پوری قوم نے دیکھا کہ کس طرح انھوں نے مادر پدر آزاد و مخلوط رقص و سرود پر مشتمل جلسے نما کلچرل پروگراموں کا انعقاد کرکے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا۔ نسل نو کی اخلاقیات پر حملے کیے گئے۔

یہ سب ایک بیرونی ایجنڈے کے تحت ہورہا تھا اس ایجنڈے کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور حکیم محمد سعید شہید نے بھی خبردار کیا تھا لیکن میدان عمل میںصرف مولانا فضل الرحمٰن ہی اترے۔ انھوں نے ناصرف اس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھا بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ بھی دھڑن کیا۔ یہ بات پاکستان دشمن قوتیں کیسے ہضم کرسکتی تھیں۔

ان کی تو برسوں کی محنت پر پانی پھر گیا، لگایا ہوا سرمایہ ڈوب گیا۔ اسی لیے وہ اپنی آلہ کار دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے دہشت گردی کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ اب کیونکہ آگے الیکشن آرہے ہیں، اس لیے بھی اس خود کش دھماکے کے ذریعے جمیعت علمائے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے کھلی دھمکی دی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ جمعیت علمائے اسلام پر نہیں بلکہ پاکستان پر حملہ ہے، اور حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ شیطان کے آلہ کار ہیں اور رحمٰن کے بندوں پر حملہ آور ہیں۔ ان کا آخری ٹھکانہ جہنم کی آخری تہہ ہے، جس سے انھیں ان کے آلہ کار بھی نہیں بچا سکتے۔

میں آخر میں اس ناسور کے تدارک پر بات کروں گا۔ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں مگر فوج اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی، نہ ہی تمام تر ذمے داری کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈالنا چاہیے۔

اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ فوج آئے روز قربانیاں دے رہی ہے، ہر محاذ پر سینہ سپر ہے، لیکن زیادہ تر ذمے داری سویلین انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ قوم کی جان و مال کا تحفظ ان کی ذمے داری ہے فوج کی نہیں۔ یہ حادثہ ناقص حفاظتی انتظامات کی وجہ سے ہوا۔

لہٰذا جب تک ملک میں مؤثر اور جامع نظام حکومت نہیں ہوگا اور ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا نہ کرے گا اس وقت تک دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، اور یہ ناسور آہستہ آہستہ نہایت مہلک صورت اختیار کرگیا ہے۔

عرصہ دراز سے ہمارے حکمران اور کسی حد تک قوم بے حسی کا ثبوت دے کر خواب غفلت میں مبتلا ہے۔ جی ایچ کیو سے لے کر گلی کوچوں تک، اور اعلیٰ ترین شخصیات سے لے کر عام شہریوں تک دہشت گردی کا شکار بنے ہیں۔

یہاں تک کہ ستر ہزار افراد اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، مگر اس لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے کوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ اب وقت آگیا ہے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر آئے اور دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کا قلع قمع کیا جائے۔

اور ایسے واقعات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر چوکوں اور چوراہوں پر برسرعام سزائیں دی جائیں، تاکہ کھلے اور چھپے ہوئے دشمن اس سے عبرت پکڑیں۔ جب تک مصلحتوں سے آزاد ہوکر صرف وطن عزیز کی خاطر متفقہ حکمت عملی نہیں بنے گی دہشت گرد اسی طرح کھل کرکھیلتے رہیں گے، آج جے یو آئی کی باری تھی تو کل کسی اور سیاسی جماعت کی بھی ہوسکتی ہے اس لیے ہوش کے ناخن لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں