سرد جنگ کے سیاسی بیانیے کی تباہ کاریاں

پاکستان کے شہری بیس پچیس برس سے ایسے حملوں کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں


Latif Chaudhry August 01, 2023
[email protected]

باجوڑ میں جے یو آئی کے ورکرز کنونشن میں خود کش حملے میں جو شہادتیں ہوئی ہیں' اس پر مجھ سمیت تمام پرامن شہری دکھی اور افسردہ ہیں' پاکستانی ریاست کو چلانے والوں نے بھی اپنی روایات کے عین مطابق دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے یک زبان ہوکر اس دہشت گردی کی ایک بار پھر پر زور مذمت بھی کی ہے۔

پاکستان میں یہ پہلا خود کش حملہ نہیں ہے' پاکستان کے شہری بیس پچیس برس سے ایسے حملوں کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں' اب تو جیسے ہم بڑے سے بڑے سانحے کو بھی دل پر نہیں لیتے' چوٹی کی سیاسی قیادت ' علماء و مشائخ ' اہل علم ' دانشور اور چوٹی کے ریاستی عہدیدار' دہشت گردی کے حوالے سے سب کی سوچ اور فکر میں بے نیازی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

بس یہ کہہ کر اپنے آپ اور عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور کوئی مسلمان یہ کام نہیں کر سکتا۔ میڈیا میں بھی ایسے بقراط پائے جاتے ہیں' جنھیں جب انتہا پسندی اور دہشت گردی نامی بیماری کا علاج سمجھ نہیں آتا تو وہ مریض پر غصہ جھاڑتے ہیں۔

ایک آدھ تو یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتا ہے کہ میرا تو اس سرزمین اور یہاں کے باشندوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے'ہمارا ڈی این اے تو کسی اور علاقے کا ہے۔ اب آپ ہی بتائیںجہاں ایسی بیمار ذہنیت اور سوچ ہو گی' وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی بڑھکیں مارنا' دھوپ میں برف بیچنے کے مترادف ہے۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت کا ہی جائزہ لے لیں' کونسا ایسا رہنما ہے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے غیر مبہم سوچ اور نظریات کا حامل ہے۔ پاکستانی سیاسی قیادت کا انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی میںحصہ صفر ہے۔

چند ایک سیاسی شخصیات یقیناً واضح نظریات رکھتی ہیں' لیکن پارٹی ورکرز کو تیار کرنے میں وہ بھی ناکام ہیں۔رہی بات مذہبی قیادت کی تو ان کے بارے میں صرف یہی عرض کر سکتا ہوں ' ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔کتنے نامور اور قابل احترام عالم دین دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔

مولانا حسن جان' مولانا شام زئی سے لے کر مولانا ضیاء اللہ تک 'شہداء کی طویل فہرست ہے۔اولیاء اللہ کے مزارات اور مساجد تک دہشت گردوں کا نشانہ بنی' پشاور میں 100سے زیادہ معصوم اور بے گناہ طلباء 'اساتذہ اور دیگر افراد شہید کیے گئے۔

راولپنڈی پریڈ لائن کی مسجد میں خود کش دھماکا کیا گیا جس میں بیسیوںشہادتیں ہوئیں'فوج' ایف سی' رینجرز اور پولیس کے سیکڑوں افسر اور جوان دہشت گردی کا نشانہ بنے لیکن آفرین ہے' ریاست کے اسٹیک ہولڈرز پر کہ انھوں نے اُف تک نہ کی اور یہ ظلم یوں برداشت کر لیا جیسے شہید ہونے والوں کا تعلق دشمن ملک سے تھا۔ایسا کٹھور پن دنیا کی کسی ریاست کے اسٹیک ہولڈرز میں نہیں ہے۔

پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے' اس کے پیچھے مالی اور سیاسی عزائم پوشیدہ ہیں۔ یاد رکھیں' پاکستان کی بلیک اکانومی جرائم اور دہشت گردی کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ ہماری بلیک اکانومی کا حجم قانونی اور ڈاکومینٹڈ اکانومی سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

ریاست کے پاس وسائل کم ہیں جب کہ بلیک اکانومی کے اسٹیک ہولڈرز کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست' معاشرت 'معیشت اور ادارہ جاتی ڈھانچہ بھی بلیک اکانومی کے وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف دوٹوک فیصلے ہوتے ہیں اور نہ ہی آپریشنز ہوتے ہیں۔

ذرا توجہ دیجیے !فروری2020 افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اگست 2021میں افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ادھرانھی مہینوں میں پاکستان کے دس کے قریب چھوٹے چھوٹے دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی میں ضم ہو گئے۔

ان میں القاعدہ سے منسلک تین گروپ اورٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے 4گروپ بھی شامل تھے۔ یہ سارے گروپ پاکستان میں کارروائیاں کرتے تھے۔

ان گروپوں کے انضمام کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی کی پر تشدد کارروائیاں بڑھنے لگیں'مرکز'پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت قائم تھی اور اس حکومت کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی انتہائی نرم تھی' پاک فوج کے آپریشنزکی وجہ سے ٹی ٹی پی بہت کمزور ہو چکی تھی لیکن افغان طالبان حکومت کی مدداور پاکستانی سرکار کی نرم پالیسی کے باعث ٹی ٹی پی دوبارہ مستحکم ہوئی اور اسے پاکستان میں آنے اور منظم ہونے کا موقع مل گیا۔

ٹی ٹی پی پر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ افغان طالبان اور القاعدہ اور القاعدہ کی بائی پراڈکٹ اسلامک اسٹیٹ خراسان کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔افغانستان میں ماضی کی نسبت زیادہ محفوظ ہے اور اسے نقل و حرکت کی آزادی بھی پہلے سے زیادہ ہے۔

پاکستانی سیکیورٹی حکام نے سابقہ فاٹا اور سوات میںدہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشن کیے ہیں۔ ان میں آپریشن راہ راست' آپریشن بلیک تھنڈر اسٹارم'آپریشن شیر دل' آپریشن کوہ سفید 'آپریشن زلزال' آپریشن راہ حق'آپریشن ضرب عضب شامل ہیں۔

آپریشن ردالفساد اب بھی جاری ہے۔ ٹی ٹی پی' القاعدہ' داعش اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے درمیان باہمی مفادات کے ورکنگ ریلیشنز کی جڑیں خاصی پرانی اور گہری ہیںاور اب یہ باہمی روابت ایک بار پھر خاصے فعال ہو گئے ہیں۔دہشت گرد تنظیموںکی مالی لائف لائن اسمگلنگ ' منشیات کا کاروبار 'اغوا برائے تاوان'بینک ڈکیتیوںاور دیگر غیر قانونی دھندوں کے ذریعے قائم ہے 'اسی وجہ سے مذہبی انتہا پسند گروپوں اور پیشہ ور کریمینلز کے درمیان مالی مفادات ایسا مشترکہ عنصر ہے جس نے دونوں کو ایک دوسر ے کے قریب کر دیا ہے۔

پاکستان کے اندر غیرقانونی دولت کے اسٹیک ہولڈرز بھی اس مالیاتی نیٹ ورک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اب آپ خود سمجھ دار ہیں ' اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر طاقتور ہیں اور ان کے مفادات اربوں کھربوں ڈالرز پر مبنی ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے گزشتہ دنوں کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کے دوران کہاتھا کہ دہشت گرد گروپوں سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے، افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی پناہ گاہیں، انھیں کارروائی کی آزادی ملنا، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ان کی یہ باتیں بالکل درست ہیں ۔

پاکستان کے پالیسی سازشمال مغربی سرحد کے اس پار کے علاقے اور وہاں کے طاقتورطبقوںکی سیاسی اورا سٹرٹیجک تاریخ کو روایتی انداز میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں نے روس ' چین' وسط ایشیا' افغانستان اور ایران کے تناظر میں ایک مخصوص سوشیو پولیٹیکل بیانیہ تشکیل دیا ، نصاب تعلیم اسی بیانیے کی روشنی میں تشکیل دیا گیا۔

جب تک کیپیٹل ازم اور سوشل ازم کے درمیان سرد جنگ چلتی رہی' یہ بیانیہ کام کرتا رہا'جیسے ہی سرحد جنگ اختتام کو پہنچی' پاکستان کا سوشیوپولیٹیکل بیانیہ آؤٹ ڈیٹڈ ہو گیا لیکن پاکستان کے ریاستی ڈھانچے پر اس بیانیے کے متاثرین کا کنٹرول ختم نہیں ہوا۔ یہی پاکستان کی شمالی مغربی پالیسی کی ناکامی کا اصل سبب ہے۔

پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے جہاں فوجی اور انتظامی آپریشنز کی ضرورت ہے' وہاں 70برس پرانے سوشیو پولیٹیکل بیانیے کو طلاق دینا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے لیے ملک کے تعلیمی نصاب کو بدلنا انتہائی ضروری ہے 'کیونکہ جب تک ذہن نہیں بدلیں گے انتہا پسند ذہنیت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں