جامعات میں اسکینڈلز کے خاتمے کا واحد حل

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے پہلے گومل یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے اسکینڈلز بھی سامنے آچکے ہیں


پاکستان میں جامعات کے اسکینڈل معمول بنتے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہوا کچھ یوں کہ 2001 میں پنجاب یونیورسٹی نے اپنی ایک طالبہ کو ایم اے انگلش کے فائنل پیپر میں غیر حاضر قرار دے کر فیل کردیا، اور ڈگری جاری کرنے سے انکار کردیا۔ طالبہ نے اس مسئلے پر جب اپنے والد کے ساتھ یونیورسٹی کے متعلقہ دفتر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی غلطی ماننے کے بجائے یہ کہتے ہوئے انہیں گھر کی راہ دکھائی کہ ''آپ کو کیا معلوم آپ کی بیٹی یونیورسٹی کے نام پر کہاں جاتی ہے؟''


طالبہ نے یونیورسٹی پر کیس کردیا اور پھر یوں ہوا کہ یہ کیس 16 سال چلتا رہا۔ سولہ سال بعد عدالت نے طالبہ کی پاکی پر مہرثبت کی اور یونیورسٹی کو ڈگری جاری کرنےکا حکم دیتے ہوئے 8 لاکھ روپے ہرجانے کا حکم بھی دیا۔ مگر اس وقت تک طالبہ کے خواب بکھر چکے تھے۔ وہ اس کیس پر 8 لاکھ سے کہیں زیادہ رقم خرچ کرنے کے ساتھ ملک بھی چھوڑ چکی تھی، یعنی نہ 8 لاکھ اس کے کام کے تھے اور نہ ڈگری۔


وطن عزیز میں جب بھی کسی یونیورسٹی کا اسکینڈل پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بنتا ہے تو یہ واقعہ اکثر و بیشتر پڑھنے کو ملتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ جامعات کے اسکینڈل معمول بنتے جارہے ہیں۔ ہر اسکینڈل کے بعد نوٹس لیا جاتا ہے، انکوائری کی جاتی ہے، چند لوگوں کو فارغ کیا جاتا ہے (جو یقینی طور پر بعد میں بحال ہوجاتے ہوں گے) اور پھر جیسے ہی میڈیا کسی اور کام میں مشغول ہوتا ہے، ذمے داران اور عوام کے ذہنوں سے یہ واقعات محو ہوجاتے ہیں۔ اور پھر کچھ عرصے کے بعد جب کسی یونیورسٹی کا اسکینڈل آتا ہے تو یاد آتا ہے اس سے پہلے بھی ایسا واقعہ ہوا تھا۔ جیسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا اسکینڈل سامنے آیا تو ہمیں یاد آیا کہ اس سے پہلے گومل یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے اسکینڈلز بھی آچکے ہیں۔ ان تمام اسکینڈلز میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ معمول کی رسمی کارروائی کے بعد یہ داخل دفتر کردیے جاتے ہیں۔


کیا حکومت ان اسکینڈلز کی روک تھام کرسکتی ہے؟


یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیکس اسکینڈلز کو حکومت ختم نہیں کرسکتی، حتیٰ کہ امریکا جیسی حکومت بھی اس طرح کے واقعات کے آگے بے بس ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی ایک سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 ستمبر 2021 تک جنسی حملوں کے 8866 کیسز درج کیے گئے، جب کہ اس سے پچھلے سال یہ تعداد 7813 تھی۔ ان جنسی حملوں میں یا تو فوج میں کام کرنے والے افراد، یا اپنے ماتحتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات کے خاتمے کی کئی برسوں سے سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس لیے حکومت سے توقع رکھنا کہ وہ اس طرح کے واقعات کا خاتمہ کرے گی، بے کار ہے۔


عدلیہ کچھ کرسکتی ہے؟


کم و بیش 20 لاکھ زیر التوا کیسز کا بوجھ اٹھائے عدلیہ سے ان واقعات کی روک تھام کےلیے کسی قسم کے کردار کی توقع رکھنا بے کار ہے۔ کیونکہ ہمارا عدالتی نظام اس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ نسل درنسل لوگ انصاف کے منتظر رہتے ہیں۔ عدلیہ کی حالت زار ضرب المثل بن چکی ہے، جیسے دادا کیس کرے، پوتا فیصلہ لے وغیرہ۔ ایک وقت تھا عدلیہ کے فیصلے بولتے تھے اور لوگ سنتے تھے، اب بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ عدلیہ بولتی ہے اور کوئی سنتا ہی نہیں۔


والدین ہی ان واقعات کا خاتمہ ممکن بناسکتے ہیں


اگر ہم ان واقعات کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی۔ کم علمی، وقت کی کمی، گھر کی معیشت کو مضبوط کرنے کی وجہ سے ہم نے تربیت کا مطلب اچھے کپڑے، اچھے جوتے، اچھا کھانا، اچھا گھر، اچھا اسکول، کالج، یونیورسٹی اور کھلا جیب خرچ سمجھ لیا ہے۔ ہم یہ سب چیزیں بچوں کو مہیا کرنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کا حق ادا کردیا۔ بلکہ بقول شخصے ہم بچوں کو پالتو جانور کی طرح پالتے ہیں۔


آپ بچوں کو توجہ دیجیے۔ بچوں کے بہترین دوست بن جائیے، تاکہ وہ اپنی ہر بات آپ سے بانٹ سکیں۔ بچوں کو نمبر گیم سے آؤٹ کریں، بچوں کو اعلیٰ پوزیشن لینے پر قائل کریں لیکن مجبور نہ کریں۔ فرصت کے اوقات میں ہنر سکھائیں تاکہ وہ زندگی میں کسی کے محتاج نہ ہوں۔ اگر ہمارے بیٹوں، بیٹیوں کو ناکامی کا خوف نہیں ہوگا تو وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے، اور جب بلیک میل نہیں ہوں گے تو اس طرح کے واقعات کا خودبخود خاتمہ ہوجائے گا۔ اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون رکھیں تاکہ آپ کے بچے سکون کی تلاش میں تعلیمی اداروں میں موجود منشیات فروشوں کے زیرسایہ سکون تلاش نہ کریں۔


یاد رکھیے! اگر ہم نے خود کو نہ بدلا اور حکومت پر ہی تکیہ کرتے رہے، تو ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ حکومت نوٹس لے گی، میڈیا کے شور کرنے پر کچھ لوگ برطرف ہوں گے، اور پھر کیس داخل دفتر ہوجائے گا۔ اس لیے خود کو بدلیے، اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں