ہمارے ملک خداداد میں جب جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو نئی حکومت کے وہی گھسے پٹے فقرے اور دہائی سنائی دیتی ہے کہ پچھلی حکومت والے سارا ملک کھا گئے ہیں، ایک روپیہ قومی خزانے میں نہیں چھوڑا، اگر ہم نہ آتے تو ملک دیوالیہ ہوجانا تھا۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلی حکمران جماعت نے ریاست گنوا کر سیاست بچائی، جب کہ ہم نے سیاست کو داؤ پر لگا کر ریاست بچائی۔
اس تمہید کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ڈی آئی خان میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر فرمایا ''اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا تو میرے ماتھے اور قبر پر تاقیامت کالا دھبہ لگ جاتا کہ میرے دور میں ایسا ہوا''۔ وزیراعظم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہم نے جب حکومت سنبھالی تو اندازہ تھا کہ حالات مشکل ہوں گے مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ حالات حد درجہ تباہ کن ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ 2018 کے انتخابات میں جیت کر حکومت سنبھالنے والی جماعت پی ٹی آئی کے قائدین نے بھی کچھ ہی عرصے میں ایسی ہیں باتیں کی تھیں کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا ملک کہ یہ حالت ہوگی۔ اور پھر ان کی حکومت جانے تک اس پارٹی کا ہر نمائندہ اپنی حکومت کی خوبیاں اور گزشتہ حکومت کی خامیاں ہی گنواتا رہا اور پھر نظریہ انصاف پر قائم ہونے والی جماعت کے حکمرانوں نے بھی ہر وہ کام ڈنکے کی چوٹ پر کیا جس کے وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے شدید مخالف تھے۔ اور پھر ان کا نظریہ اور میرٹ کا نظام اتنا مضبوط تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو اتنا بھی ساتھ نہ رکھ سکے کہ پانچ سال کی حکومت ہی پوری کرسکیں اور اس طرح ابھی ان کی حکومت کا تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا او اب ان کی حکومت ماضی کی حکومت کہلاتی ہے۔
ان دونوں حکومتوں سے بھی ماضی میں اگر ہم جھانکیں تو صورتحال کچھ مختلف نظر نہیں آتی بلکہ یہی مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کون سا ایسا الزام ہے جو ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر نہیں لگایا۔ غداری سے لے کر لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے تک کیے گئے اور دونوں کے ادوار میں ملک کے حالات ایسے خراب ہوتے کہ صدر مملکت ان کی حکومتوں کو چلتا کرتے رہے۔ اس طرح نہ ملک میں سیاسی استحکام آیا اور نہ ہی معاشی۔
جب سیاست اور معیشت دونوں ڈانواں ڈول ہوں تو ملک کے غریب کی جھولی میں کیا پڑنا تھا، وہ دن بدن غریب ہوتا گیا۔ جب کہ ہر حکومت نے آئی ایم ایف سمیت دوست ملکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس طرح حکمرانوں نے اپنا دور حکومت خوشحالی میں گزارا جب کہ عوام پہلے کی طرح آسمان کا منہ تکتے رہ گئے۔ عوام کو سچے اور کھرے کی تمیز نہ رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام ایک قوم کے بجائے ہجوم بنتے گئے۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ بلائنڈ فالوورز نے پوری کردی۔ جب کسی اشرف المخلوقات کی یہ سوچ ہو کہ اگر ہمارا لیڈر گدھے کو بھی ٹکٹ دے گا تو ہم گدھے کو ووٹ دیں گے یا جب لڑکیاں سرعام مائیک پر یہ بولیں کہ وہ اپنے لیڈر سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو ایسی عوام کو قوم نہیں ہجوم ہی کہا جاسکتا ہے۔ اور آج کل ہم جو سب کچھ دیکھ رہے ہیں وہ صرف اس عوام کا قوم کے بجائے ہجوم بن جانے کا نتیجہ ہے۔
ہمارے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ انہیں معلوم ہے اس ساری مشکل صورتحال کا ذمے دار غریب آدمی نہیں اور وہ خوامخواہ حکومتی نالائقیوں کی بدولت اس حال کو پہنچا ہے۔ لیکن دوسرے طرف اس حکومت نے گزشتہ حکومت کی رہی سہی کسر بھی ان ہی غریب عوام پر نکال دی۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ تھوک کے حساب سے بڑھ گئے ہیں۔ مارکیٹ میں سرکاری ریٹ پر روزمرہ اشیا فراہم کرنے میں حکومت بالکل ناکام ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو نہ جانے کس کام کےلیے بنایا گیا ہے۔ ملک کے کسی بھی ادارے میں کوئی کام ریفرنس یا پیسے کے بغیر نہیں ہوتا۔ کرپشن میں لتھڑے ملازمین عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لیکن حکومت کو اور بہت کام ہیں کہ اس نے ریاست بچا کر سیاست کی قربانی دی ہے۔ حالانکہ صاف بات تو یہ ہے حکومت نے اپنی سیاست بچانے کےلیے جو اقدامات کیے ہیں ان کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو ان کے قائدین اسی طرح کورٹ کچہری کے چکر لگارہے ہوتے جس طرح پچھلی حکومت کے لوگ لگا رہے ہیں۔
ہمارا رونا تو یہ ہے کہ ملک کا عام آدمی کدھر جائے؟ کس سے فریاد کرے؟ کیوں کہ ملک کی جو حالت ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ تو پھر اشرافیہ اور حکومتی زعما کی نالائقی اور لاپرواہی ہمارے سر کیوں؟ پولیس آپ لوگوں کو کچھ نہیں کہتی اور عدالتیں آپ لوگوں کو ریلیف دیتی ہیں۔ بیرون ملک آپ تعلقات بناتے ہیں، جب کہ عام آدمی کو ریڑھی لگانے پر یا روٹی اٹھانے پر ہی ایسی سزا ملتی ہے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ پروٹوکول کے مزے آپ اڑائیں اور عام آدمی گرمی، سردی اور مٹی دھول برداشت کرے۔ بیرون ممالک سفر آپ کریں اور عام آدمی کی اتنی سکت نہیں کہ ایک ہی شہر میں دوسری جگہ جانے کےلیے ٹیکسی کا کرایہ ادا کرسکے۔ الغرض حکمرانوں کا عوام سے صرف ایک اٹوٹ انگ رشتہ ہے کہ جب اس نے ان سے ووٹ لینا ہوتا ہے تو پھر ان کا سگا بن جاتا ہے اس کے علاوہ عوام کا حکمرانوں کی ترجیحات میں نام و نشان تک نہیں ملتا۔
عام آدمی کا یہ واویلا کوئی دو چار دن کی بات نہیں بلکہ جب سے ہمارا ملک قائم ہوا اس کے بعد سے عام آدمی مقتدر حلقوں کی مٹھی سے ریت کی مانند نکل گیا۔ اس کی فریادیں اس کے کسی کام نہ آئیں اور اب اس میں گلہ شکوہ کرنے اور اپنا دکھ درد بیان کرنے کی ہمت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔