کراچی کا شمار نہ صرف دنیا کے چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے بلکہ پونے دو کروڑ کی آبادی رکھنے والا روشنیوں کا یہ شہر پاکستان کا معاشی ہب بھی ہے لیکن گزشتہ چند سال کے دوران اس شہر کی روشنیاں ماند پڑچکی ہیں اور اب یہ شہر ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر ہے۔
ٹریفک، گندگی اور بجلی و گیس کے مسائل کے علاوہ اسٹریٹ کرائمز خاص طور پر گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور موبائل فونز چھیننے اور چوری کی وارداتوں کے باعث شہر قائد میں اپنی قسمت آزمانے والے آزادانہ نقل وحرکت سے خوفزدہ ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے جرائم عوام کی زندگیاں بری طرح متاثر کررہے ہیں۔
سی پی ایل سی کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق کراچی میں 2022 کے دوران اسٹریٹ کرائمز کے 87 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے. یعنی شہر میں ماہانہ بنیاد پر اوسطاً 7200 کیسز ہورہے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 240 کیسز بنتے ہیں۔
سی پی ایل سی کی ویب سائٹ پر موجود 2023 کے 6 ماہ کے ڈیٹا کے مطابق کراچی میں اب تک 44157 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، یعنی ماہانہ بنیاد پر تقریباً 7350 کیسز ہورہے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 245 کیسز بنتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں سال اسٹریٹ کرائمز کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس دوران پولیس کی جانب سے کچھ ریکوریاں بھی کی گئیں تاہم اس کی شرح بہت کم ہے۔
سندھ پولیس کی آفیشل ویب سائٹ پر کراچی کے 4 اضلاع کا رواں سال کے صرف ابتدائی 4 ماہ کا ڈیٹا دستیاب ہے، جس کے مطابق 2023 کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران کراچی میں قتل، ڈکیتی، مزاحمت پر قتل اور گاڑی چوری کی زیادہ وارداتیں ضلع شرقی میں ہوئیں۔ جن میں 70 افراد کا قتل، 13 ڈکیتی مزاحمت پر قتل اور گاڑی چوری کی 27 وارداتیں شامل ہیں۔
سندھ پولیس کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق دوسرے نمبر پر ضلع جنوبی رہا، جہاں قتل کی 36، ڈکیتی مزاحمت پر قتل کی 6 وارداتیں ہوئیں، تاہم اس دوران ایک بھی گاڑی چوری نہیں ہوئی۔ ضلع غربی میں 34 افراد قتل، ڈکیتی مزاحمت پر 3 قتل ہوئے اور 4 گاڑیاں چوری ہوئیں۔ ضلع وسطی میں 22 افراد قتل، ڈکیتی مزاحمت پر 5 افراد قتل ہوئے اور گاڑی چوری کی 3 وارداتیں ہوئیں۔
سندھ حکومت کے سابق پبلک پراسیکیوٹر خیر محمد خٹک ایڈووکیٹ نے جرائم کی شرح میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ جرائم کے انداز میں بھی جدت آرہی ہے لیکن اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی بنیادی وجہ ملک میں معاشی عدم استحکام ہے، لوگ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر ہر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہیں۔
شہر قائد میں عام شہریوں سمیت، وکلا، صحافی، پولیس اہلکار یہاں تک کہ خواتین بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتیں اور وہ بھی اسٹریٹ کرائمز کا شکار ہوچکی ہیں۔
فیصل نامی شہری نے بتایا کہ عید قربان سے ایک دن پہلے جب وہ کورنگی منڈی سے جانور خرید کر واپس آرہے تھے تو جیل روڈ کے قریب ان کی سوزوکی خراب ہوگئی۔ اس دوران دو موٹرسائیکلوں پر 4 مسلح ملزمان آئے اور ایک نے میرے سینے پر پستول تان دی اور میرا موبائل لے گئے جب کہ میرے ساتھ موجود دوست سے موبائل کے علاوہ ایک لاکھ بیس ہزار کیش بھی چھین کر لے گئے۔ میرے پوچھنے پر فیصل نے بتایا کہ فیروز آباد تھانے میں پولیس نے کچی ایف آئی آر درج کی لیکن موبائل اب تک نہیں مل سکا۔
معروف قانون دان خیر محمد خٹک ایڈووکیٹ کے مطابق زیادہ تر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے ملزمان نشے کی حالت میں ہوتے ہیں لیکن پولیس وہ ظاہر نہیں کرتی کیوں کہ ایسی صورتحال میں ایم ایل او کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی اور وہ ایک طویل عمل ہے جس کی وجہ سے پولیس اس چکر میں نہیں پڑتی۔
انہوں نے کہا کہ ملزم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے اور اسے ہر وقت عوام اور پولیس کی جانب سے پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گولی مارنے سے دریغ نہیں کرتا جب کہ نشے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے گولی چلانے سے نہیں کتراتے اور چونکہ وہ اپنے حواس میں نہیں ہوتے اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سامنے کون کھڑا ہے۔
وسیم احمد صدیقی نامی شہری نے بتایا کہ چند ماہ پہلے نیو کراچی کے علاقے گودرا (یوپی بازار) میں موٹر سائیکل پارک کی لیکن واپسی پر اس سے محروم ہوگیا جس پر میں نے قریبی تھانے کا رخ کیا جہاں پہلے سے کچھ لوگ موجود تھے جن کی موٹرسائیکلیں بھی اسی مقام سے چوری ہوئی تھیں جب کہ رات تک پتہ چلا کہ اس مقام سے 10 بائیکس چوری ہوچکی ہیں۔
نیو کراچی تھانہ کے ڈی ایس پی نسیم کمال نے بتایا کہ وسیم کے ساتھ جو واردات ہوئی تھی اس وقت میں ایس ایچ او تھا اور اس معاملے کو میں نے خود دیکھا تھا لیکن اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اس دن 10 موٹرسائیکلیں چوری ہوئی تھیں۔ البتہ ایک دو موٹر سائیکلیں ضرور چوری ہوتی ہیں اور اس میں بھی شہریوں کی اپنی کوتاہی ہوتی ہے جو بائیک کو غلط جگہ کھڑی کرنے کے بعد لاک کیے بغیر چلے جاتے ہیں۔
ایف آئی آر سے متعلق وسیم نے بتایا کہ پولیس نے پہلے دو سے تین گھنٹے انتظار کروایا کہ شاید بائیک مل جائے لیکن پھر تقریباً 6 گھنٹے بعد بھی ایف آئی آر نہیں کاٹی اور سب کو کچی پرچی تھمادی، تاہم ایک ہفتے بعد ایس ایچ او کو فون کروا کر ایف آئی آر درج کردی گئی لیکن موٹر سائیکل آج تک نہیں ملی۔
پولیس کی جانب سے ایف آئی آر نہ کاٹنے سے متعلق نسیم کمال کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں۔ اگر شہری ایف آئی آر کٹوانے کےلیے راضی ہو تو پولیس کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، مگر اکثر شہری ایف آئی آر خود درج نہیں کروانا چاہتے۔
ایک اور شہری نے بتایا کہ نیو کراچی میں میری موبائل کی دکان ہے، میں پچھلے ماہ بینک سے 15 لاکھ روپے لے کر نکلا تو دکان پہنچنے سے پہلے ہی دو موٹرسائیکلوں پر چار ڈکیتوں نے گن پوائنٹ پر مجھ سے وہ رقم چھین لی، جس کی ایف آئی آر درج کروائی اور ایک ملزم کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کیس عدالت میں چل رہا ہے لیکن پولیس نے ایک ملزم کے بھائی کو گرفتار کیا ہے، مرکزی ملزمان فرار ہیں۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں دیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ملزم صوبے سے باہر ہے اور اس کی لوکیشن مسلسل تبدیل ہورہی ہے۔
ڈی ایس پی نسیم کمال نے بتایا کہ شہر میں جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے، ویسے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور خاص طور پر شہر میں کچی آبادیوں میں اضافے کے باعث وارداتیں بڑھ گئی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف جرائم ہورہے ہیں بلکہ ملزمان پکڑے بھی جارہے ہیں اور انہیں سزائے بھی ہورہی ہیں۔
عادی مجرموں کی عدالتوں سے رہائی سے متعلق معروف قانون دان خیر محمد خٹک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 50 فیصد کیسز میں مدعی بیان تبدیل کردیتے ہیں اور پولیس کی ناقص تفتیش بھی ان ملزمان کی رہائی کی وجہ بنتی ہے جب کہ چوری، ڈکیتی میں پکڑے جانے والے ملزمان کی شناخت پریڈ کروانا بھی لازمی عمل ہے لیکن زیادہ تر کیسز میں شناخت پریڈ نہیں ہوتی جس کے باعث ملزمان آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ایک خاتون صحافی نے بتایا کہ جنوری میں ایک روز دفتر سے آفس وین میں واپس جاتے ہوئے عظیم پورہ روڈ پر ہمیں ڈاکوؤں نے روک لیا جو مسلح تھے اور اس وقت وین میں ڈرائیور سمیت 4 لوگ موجود تھے، جن سے موبائل، پرس سمیت سب کچھ چھین لیا گیا جب کہ میرے پرس میں موبائل، پیسے جیولری، گھڑی سمیت دیگر قیمتی چیزیں موجود تھیں۔ ہم نے واقعے کی ایف آئی آر درج کروادی تھی جس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
انسانی حقوق کی رہنما نسیم شیخ نے بتایا کہ جب قانون پر اعتماد ختم ہوجائے تو ایسے ہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ پونے دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں کتنے پولیس اہلکار میسر ہیں اور پھر ان میں کتنے کام کرنے والے ہیں، لہٰذا سب سے پہلے تو انتظامی درستی کی اشد ضرورت ہے اور اس شہر میں مزید اضلاع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بہتر انداز میں تمام معاملات کی نگرانی کی جاسکے۔
کراچی کے شہری بائیکا رائیڈر محمد امین نے بتایا کہ میں اب تک چار بار لٹ چکا ہوں اور ایک ہفتے کے دوران میرے ساتھ ڈکیتی کی دو وارداتیں ہوئیں، جس کے بعد گھر والوں نے باہر جانے پر پابندی لگادی۔ انہوں نے بتایا کہ پہلا واقعہ گلستان جوہر میں کونٹینینٹل بیکری کے سامنے پیش آیا جو ایک موٹر سائیکل پر دو مسلح افراد مجھے سے موبائل چھین کر فرار ہوگئے۔ ایک ہفتے بعد نارتھ ناظم آباد میں ضیاالدین اسپتال کے سامنے مجھے ایک موٹرسائیکل پر دو مسلح افراد نے پھر لوٹا اور موبائل، پرس سمیت سب کچھ لے گئے۔ اس مقام پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب تھے لیکن اس کے باوجود ملزمان اور میرا سامان واپس نہیں ملا۔ انہوں نے مزید بتایا ایک بار تو ڈکیت گھر کے دورازے پر ہی مجھ سے اور والد سے سب کچھ لے گئے تھے جب کہ دوسری بار گن پوائنٹ پر مجھ سے میری موٹرسائیکل ہی لے لی تھی۔
نسیم شیخ نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کے دور سے سیف سٹی پراجیکٹ کی باتیں ہوتی رہیں لیکن عملی طور پر اب تک کچھ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے گلیوں، محلوں کے علاوہ اہم شاہراہوں پر بھی وارداتیں آسانی سے ہورہی ہیں۔ لیکن اب کراچی میں لوکل گورنمنٹ سسٹم آچکا ہے جس میں یونین کونسل کی سطح پر یا محلہ کمیٹی وغیرہ قائم کی جائے اور پھر ان کمیٹوں میں خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو نہ صرف بہت ایکٹو ہوتے ہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کا سراغ بھی لگاسکتے ہیں اور ایسے گلی محلوں میں ہونے والی وارداتوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
چند ماہ قبل کراچی پریس کلب کے سیکریٹری شعیب احمد کو سمن تھانے کی حدود میں لوٹ لیا گیا، جس میں مسلح ملزمان ان سے موبائل اور نقدی چھین کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ شعیب احمد نے بتایا کہ میں اپنے گھر میں داخل ہورہا تھا کہ اس دوران موٹرسائیکل پر دو افراد میرے پاس آئے اور موبائل سمیت کچھ نقدی بھی لے گئے۔ ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری پریس کلب نے بتایا کہ میں نے ایف آئی آر تو درج نہیں کروائی البتہ ایس ایس پی سینٹرل کو درخواست لکھی کہ علاقے میں وارداتیں بڑھ گئی ہیں جس پر موبائل گشت میں تھوڑا اضافہ ہوا۔
صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ صحافیوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا جارہا ہے بلکہ صحافی بھی دیگر شہریوں کی طرح اس شہر کا حصہ ہیں، البتہ عام شہری کے مقابلے میں پولیس صحافیوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے آئی جی سندھ سے ملاقات کرکے صورتحال سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں۔
روزنامہ ڈان سے وابستہ فوٹوگرافر شکیل عادل نے بتایا کہ دو ماہ قبل سندھ اسمبلی کے سامنے فوارہ چوک قریب پر ایک پروجیکٹ کےلیے تصاویر بنارہا تھا کہ اس دوران موٹرسائیکل سوار مجھ سے کیمرا چھین کر فرار ہوگئے جس کی مالیت تقریباً 4 لاکھ روپے تھی۔ انہوں نے بتایا چونکہ وہ ہائی سیکیورٹی زون ہے، اس لیے میں نے ان کا پیچھا کیا کہ شاید کوئی سیکیورٹی اہلکار انہیں روک دے، مگر وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ جس کے بعد آرام باغ تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی لیکن اب تک پولیس یہی کہہ رہی ہے کہ ہم سی سی ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے روزنامہ دنیا کے سب ایڈیٹر محمد سمیع الدین انصاری کو دفتر سے واپسی پر شہید ملت روڈ کے فلائی اوور کے قریب مسلح ڈاکوؤں کے ہاتھوں موبائل، بیک، پرس اور نقدی سے محروم ہوگئے۔ محمد سمیع الدین انصاری نے بتایا کہ چند ماہ کے دوران دنیا نیوز کے درجنوں افراد قیمتی اشیا سے محروم ہوچکے ہیں۔
سیکریٹری پریس کلب کا کہنا تھا کہ کسی صحافی کی کوئی قیمتی چیز چھن جانے کی صورت میں کلب کی کوئی پالیسی نہیں کہ انہیں ریکوری کرکے دے، البتہ پریس کلب، اس کی یونینز، سینئر صحافی اور کچھ مخیر حضرات مل کر ان صحافیوں کی مدد کرتے ہیں جنہیں روزگار کے مسائل ہوتے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی صحافی کا روزگار نہ رکے۔ پچھلے سال ہی ایک ممبر کے ساتھ واردات ہوئی تو پریس کلب نے ڈونرز کے ساتھ مل کر انہیں کیمرا دلوایا۔
ایڈووکیٹ نبی بخش مینگل کے مطابق دو ماہ قبل رزاق آباد پولیس ٹریننگ کے سامنے مجھ سے گن پوائنٹ پر آلٹو گاڑی، دو موبائل اور 6 ہزار روپے نقد رقم لوٹی گئی جس کی ایف آئی آر میں نے شاہ لطیف تھانے میں درج کروائی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کی نااہلی کا تو یہ عالم ہے کہ دو مہینے گزرنے کے باوجود آج تک جیو فینسنگ کی رپورٹ مجھے نہیں دی گئی اور جب ہم احتجاج کی دھمکی دیتے ہیں کہ نیشنل ہائی وے بلاک کردیں گے تو ڈی ایس پی ہماری منت کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم آپ کے کیس پر کام کررہے ہیں۔
اس حوالے سے معروف قانون دان خیر محمد خٹک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وکلا کو بھی سیکیورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملیر کورٹ کے باہر سے گاڑیاں چوری ہونا معمول بن گیا ہے جب کہ یہاں لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمرے بھی ناکارہ ہیں، ایسے میں یہ سیشن جج اور متعلقہ ایس ایچ او کی ذمے داری ہے کہ وہ سیکیورٹی کا مربوط نظام بنائیں۔
شہریوں کی ذمے داری
سوشل میڈیا پر گردش ہونے والی درجنوں ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ مواقع پر ڈاکو شہریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور وہ پھر انہیں پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے خود قانون ہاتھ میں لے کر ان کی درگت بناتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ نیو کراچی کے علاقے گودرا مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ جہاں کپڑے کا کاروبار کرنے والے دو نوجوان پارٹی سے وصولی کرنے کے بعد گھر واپس جارہے تھے کہ اس دوران شہریوں نے انہیں ڈکیت سمجھ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 18 سالہ آصف موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جب کہ 19 سالہ شاہ زیب کئی ہفتوں تک نجی اسپتال میں زیر علاج رہا۔
شہریوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوان کے ماموں نے بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر کٹ چکی ہے جس میں دفعہ 302 اور 324 شامل کی گئی ہیں۔ ابتدا میں دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور چند روز قبل ایک اور نامزد ملزم کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ واقعے کی تفصیلات سے متعلق انہوں نے بتایا کہ میرے بھانجے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد گھر واپس آرہے تھے کہ اس دوران وہاں موجود کچھ لوگوں نے شرارت کی کہ یہ ڈکیت ہیں جس پر لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر ان پر تشدد کرنا شروع کردیا۔
ایڈووکیٹ عابد خان نے بتایا کہ شہر میں وارداتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے شہریوں میں بھی غم وغصہ پایا جاتا ہے اور جب کوئی ڈاکو ان کے ہاتھوں لگ جاتا ہے تو وہ اسے پولیس کے حوالے نہیں کرتے کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ملزمان یا تو فرار ہوجائیں گے یا پھر کچھ دن بعد رہا ہوکر دوبارہ سے وارداتیں کرنے لگیں گے، اس لیے وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔ یہ حقیقیت ہے کہ ملزمان کو سزائیں دلوانے سے متعلق قوانین میں کمزوریاں موجود ہیں لیکن ہمیں قانون وانصاف کا راستہ ہی اپنانا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔